Kashf-ur-Rahman - Al-Kahf : 2
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ : اور جس نُّعَمِّرْهُ : ہم عمر دراز کردیتے ہیں نُنَكِّسْهُ : اوندھا کردیتے ہیں فِي الْخَلْقِ ۭ : خلقت (پیدائش) میں اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس کو ہم بوڑھا کریں اوندھا کریں اس کی پیدائش میں پھر کیا ان کو سمجھ نہیں۔
(آیت) ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق افلا یعقلون، نعمر، تعمیر سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں عمر دراز دینے کے، اور ننکسہ، تنکیس سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں اوندھا الٹا کردینے کے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے ایک اور مظہر کا بیان فرمایا ہے کہ ہر انسان و حیوان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے زیر تصرف ہے، قدرت کا عمل اس میں مسلسل جاری ہے، ایک گندے اور بےجان قطرہ سے اس کا وجود شروع ہوا، بطن مادر کے تین اندھیریوں میں اس خلاصہ کائنات اور عالم اصغر کی تخلیق ہوئی، کیسی کیسی نازک مشینیں اس کے وجود میں پیوست کی گئیں پھر روح ڈال کر زندہ کیا گیا، نو مہینے بطن مادر کے اندر اس کی تربیت اور نشوونما ہو کر ایک مکمل انسان بنا اور اس دنیا میں آیا۔ تو مکمل ہونے کے باوجود اس کی ہر چیز ضعیف و کمزور ہے۔ قدرت نے اس کے مزاج کے مناسب غذا ماں کی چھاتیوں میں پیدا کردی جس سے اس کو تاریجی توانائی ملی، اور اس وقت سے جوانی تک کتنے مراحل سے گزر کر اس کے سب قوی مضبوط ہوئے، قوت و شوکت کے دعوے ہونے لگے، ہر مقابل کو شکست دینے کے حوصلے پیدا ہوئے۔
پھر جب خالق ومالک کو منظور ہوا تو اب ان سب طاقتوں قوتوں میں کمی شروع ہوئی، کمی بھی بیشمار مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر بڑھاپے کی آخری عمر تک پہنچی۔ جہاں پہنچ کر غور کیا جائے تو پھر وہ اس منزل میں پہنچ گیا جس سے بچپن میں گزرا تھا۔ ساری عادتیں خصلتیں بدلنے لگیں، جو چیزیں سب سے زیادہ محبوب تھیں وہ مبغوض نظر آنے لگیں، جن سے راحت ملتی تھی اب وہ موجب کلفت بن گئی ہیں۔ اسی کو قرآن کریم نے تنکیس یعنی اوندھا کردینے سے تعبیر فرمایا ہے۔ و نعم قال
من عاش اخلقت الایام حدتہ
وخانہ ثقتاہ السمع والبصر
”یعنی جو شخص زندہ رہے گا تو زمانہ اس کی حدت و شدت کو بوسیدہ اور پرانا کر دے گا، اور اس کے سب سے بڑے دو ثقہ دوست یعنی شنوائی اور بینائی کی طاقتیں بھی اس سے خیانت کر کے الگ ہوجائیں گی“
یعنی انسان کو دنیا میں سب سے زیادہ اعتماد اپنی آنکھ سے دیکھی یا کان سے سنی ہوئی چیز پر ہوتا ہے۔ بڑھاپے کے آخر عمر میں یہ بھی قابل اعتماد نہیں، گراں گوشی کے سبب بات پوری سمجھنا مشکل، ضعف بینائی کے سبب صحیح صحیح دیکھنا مشکل۔ متنبی نے اسی مضمون کو کہا ہے
ومن صحب الدنیا طویلا تقلبت
علیٰ عینہ حتی یری صدقہا کذبا
”یعنی جو شخص دنیا میں زیادہ زندہ رہے گا دنیا اس کی آنکھوں کے سامنے ہی پلٹ جائے گی یہاں تک کہ جس چیز کو پہلے سچ جانتا تھا وہ جھوٹ معلوم ہونے لگے گی“
انسان کے وجود میں یہ انقلابات قدرت حق تعالیٰ شانہ، کا عجیب و غریب مظہر تو ہے ہی، اس میں انسان پر ایک عظیم احسان بھی ہے، کہ خالق کائنات نے جتنی طاقتیں انسان کے وجود میں ودیعت فرمائی ہیں، وہ درحقیقت سرکاری مشینیں ہیں، جو اس کو دے دی گئی ہیں، اور یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ یہ تیری ملک نہیں اور دائمی بھی نہیں، بالآخر تجھ سے واپس لی جائیں گی۔ اس کا تقاضا ظاہری یہ تھا کہ جب وقت مقدر آجاتا سب طاقتیں بیک وقت واپس لے لی جاتیں مگر مولائے کریم نے ان کی واپسی کی بھی بڑی طویل قسطیں کردی ہیں اور تدریجی طور پر واپس لیا ہے تاکہ انسان متنبہ ہو کر سفر آخرت کا سامان کرلے۔ واللہ اعلم
Top