Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 22
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس ۔ جس شَرَحَ اللّٰهُ : اللہ نے کھول دیا صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر نُوْرٍ : نور مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اپنے رب کی طرف سے فَوَيْلٌ : سو خرابی لِّلْقٰسِيَةِ : ان کے لیے ۔ سخت قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مِّنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی یاد اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
بھلا جس کا سینہ کھل دیا اللہ نے دین اسلام کے واسطے سو وہ روشنی میں ہے اپنے رب کی طرف سے سو خرابی ہے ان کو جن کے دل سخت ہیں اللہ کی یاد سے وہ پڑے پھرتے ہیں بھٹکتے صریح
(آیت) اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰي نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ۔ شرح کے لفظی معنے کھولنے، پھیلانے اور وسیع کرنے کے ہیں۔ شرح صدر کے معنی وسعت قلب کے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قلب میں اس کی استعداد موجود ہو کہ وہ تلوینی آیات آلٰہیہ آسمان و زمین اور خود اپنی پیدائش وغیرہ میں غور کر کے عبرت اور فوائد حاصل کرے اسی طرح جو آیات آلٰہیہ بصورت کتاب و حکام نازل کی جاتی ہیں ان میں غور کر کے استفادہ کرسکے۔ اس کا بالمقابل دل تنگی اور قساوت قلب ہے۔ قرآن کریم کی ایک (آیت) یجعل صدرہ ضیقاً حرجاً اور اس جگہ اگلی آیت میں لِّــلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ ، اسی شرح صدر کے بالمقابل آیا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ آیت اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ تلاوت فرمائی تو ہم نے آپ سے شرح صدر کا مطلب پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ جب نور ایمان انسان کے قلب میں داخل ہوتا ہے تو اس کا قلب وسیع ہوجاتا ہے (جس سے احکام آلٰہیہ کا سمجھنا اور عمل کرنا اس کے لئے آسان ہوجاتا ہے) ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ، اس (شرح صدر) کی علامت کیا ہے تو آپ نے فرمایا۔
”ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف راغب اور مائل ہونا اور دھوکے کے گھر یعنی دنیا (کی لذائذ اور زینت) سے دور رہنا اور موت کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرنا“
آیت مذکورہ کو حرف استفہام افمن سے شروع کیا گیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا ایسا شخص جس کا دل اسلام کے لئے کھول دیا گیا ہو اور وہ اپنے رب کی طرف سے آئے ہوئے نور پر ہے یعنی اس کی روشنی میں سب کام کرتا ہے۔ اور وہ آدمی جو دل تنگ اور سخت دل ہو کہیں برابر ہو سکتے ہیں۔ اس کے بالمقابل سخت دل کا ذکر اگلی آیت میں عذاب ویل کے ساتھ کیا گیا ہے۔
فَوَيْلٌ لِّــلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ۔ قاسیة قساوت سے مشتق ہے جس کے معنی سخت دل ہونا جس کو کسی پر رحم نہ آئے اور جو اللہ کے ذکر اور اس کے احکام سے کوئی اثر قبول نہ کرے۔
Top