Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 32
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ وَ كَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآءَهٗ١ؕ اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِیْنَ
فَمَنْ : پس کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ : سے ۔ جس كَذَبَ : جھوٹ باندھا عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ وَكَذَّبَ : اور اس نے جھٹلایا بِالصِّدْقِ : سچائی کو اِذْ : جب جَآءَهٗ ۭ : وہ اس کے پاس آئے اَلَيْسَ : کیا نہیں فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں مَثْوًى : ٹھکانا لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
پھر اس سے زیادہ ظالم کون جس نے جھوٹ بولا اللہ پر اور جھٹلایا سچی بات کو جب پہنچی اس کے پاس کیا نہیں دوزخ میں ٹھکانا منکروں کا
سارے اعمال مظالم اور حقوق کے بدلے میں دے دیے جاویں گے مگر ایمان نہیں دیا جائے گا
تفسیر مظہری میں مذکورہ سب روایات حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مظلوموں کے حقوق میں ظالم کے اعمال دے دینے کا جو ذکر آیا ہے، اس سے مراد ایمان کے علاوہ دوسرے اعمال ہیں، کیونکہ جتنے مظالم ہیں وہ سب عملی گناہ ہیں، کفر نہیں ہیں اور عملی گناہوں کی سزا محدود ہوگی بخلاف ایمان کے کہ وہ ایک غیر محدود عمل ہے۔ اس کی جزا بھی غیر محدود یعنی ہمیشہ جنت میں رہنا ہے اگرچہ وہ گناہوں کی سزا بھگتنے اور کچھ عرصہ جہنم میں رہنے کے بعد ہو اس کا حاصل یہ ہے کہ جب ظالم کے اعمال صالحہ علاوہ ایمان کے سب مظلوموں کو دے کر ختم ہوجائیں گے۔ صرف ایمان رہ جائے گا تو ایمان اس سے سلب نہیں کیا جائے گا بلکہ مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال کر حقوق کی ادائیگی کی جائے گی، جس کے نتیجہ میں یہ گناہوں کا عذاب بھگتنے کے بعد پھر بالآخر جنت میں داخل ہوگا اور پھر یہ حال اس کا دائمی ہوگا۔ صاحب تفسیر مظہری نے فرمایا کہ امام بیہقی نے بھی ایسا ہی فرمایا ہے۔
کذب بالصدق اور الذی جاء بالصدق۔ میں صدق سے مراد وہ تعلیمات ہیں جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے ہیں۔ خواہ قرآن ہو یا قرآن کے علاوہ دوسری تعلیمات احادیث اور صدق بہ میں سب مومنین داخل ہیں جو اس کی تصدیق کرنے والے ہیں۔
Top