Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 36
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ١ؕ وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍۚ
اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِكَافٍ : کافی عَبْدَهٗ ۭ : اپنے بندے کو وَيُخَوِّفُوْنَكَ : اور وہ خوف دلاتے ہیں آپ کو بِالَّذِيْنَ : ان سے جو مِنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوا وَمَنْ : اور جس يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اس کے لیے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
کیا اللہ بس نہیں اپنے بندہ کو اور تجھ کو ڈراتے ہیں ان سے جو اس کے سوائے ہیں اور جس کو راہ بھلائے اللہ تو کوئی نہیں اس کو راہ دینے والا
خلاصہ تفسیر
کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ (خاص محمد ﷺ کی حفاظت) کے لئے کافی نہیں (یعنی وہ تو سب ہی کی حفاظت کے لئے کافی ہے تو اپنے محبوب خاص بندے کے لئے کیوں کافی نہ ہوگا) اور یہ لوگ (ایسے احمق ہیں کہ حفاظت خداوندی سے تجاہل کر کے) آپ کو ان (جھوٹے معبودوں) سے ڈرانے والے ہیں جو خدا کے سوا (تجویز کر رکھے) ہیں (حالانکہ وہ خود بےجان عاجز ہیں اور قادر بھی ہوتے تو خدا کی حفاظت کے مقابلہ میں عاجز ہی ہوتے) اور (اصل بات یہ ہے کہ) جس کو خدا گمراہ کرے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں اور جس کو وہ ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں (آگے خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ذکر کر کے ان کی حماقت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ) کیا خدا تعالیٰ (ان کے نزدیک) زبردست (اور) انتقام لینے (پر قدرت رکھنے) والا نہیں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی صفت ناصریت بھی کامل اور بندہ کی صلاحیت منصوریت بھی کامل اور جھوٹے معبودوں کا قدرت ونصرت سے عاجز ہونا بھی ظاہر پھر آپ کو ان باتوں سے ڈرانا حماقت نہیں تو کیا ہے) اور (عجیب بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور نصرت کے مقدمات کو یہ بھی تسلیم کرتے ہیں چنانچہ) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہیں کہیں گے کہ اللہ نے (اس لئے) آپ (ان سے) کہئے کہ بھلا (جب تم اللہ کو تخلیق میں منفرد مانتے ہو تو) یہ بتلاؤ کہ خدا کے سوا جن معبودوں کو پوجتے ہو، اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے، کیا یہ معبود اس کی دی ہوئی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اللہ مجھ پر اپنی عنایت کرنا چاہے تو کیا یہ معبود اس کی عنایت کو روک سکتے ہیں (آگے ارشاد ہے کہ جب اس تقریر سے اللہ تعالیٰ کا کمال قدرت ثابت ہوجاوے) تو آپ کہہ دیجئے کہ (اس سے ثابت ہوگیا کہ) میرے لئے خدا کافی ہے توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں (اسی لئے میں بھی اسی پر توکل اور بھروسہ رکھتا ہوں اور تمہارے خلاف وعناد کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اور چونکہ یہ لوگ ان سب باتوں کو سن کر بھی اپنے خیال باطل پر جمے ہوئے تھے اس لئے آپ کو آخری جواب کی تعلیم ہے کہ) آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ (اگر اس پر بھی تم نہیں مانتے تو تم جانو تم اپنی حالت پر عمل کئے جاؤ میں بھی (اپنے طرز پر) عمل کر رہا ہوں (یعنی جب تم اپنے طریقہ باطل کو نہیں چھوڑتے تو میں طریقہ حق کو کیسے چھوڑوں) سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جس پر (دنیا میں) ایسا عذاب آیا چاہتا ہے جو اس کو رسوا کر دے گا، اور (مرنے کے بعد) اس پر دائمی عذاب نازل ہوگا (چنانچہ دنیا میں غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کو سزا ملی اس کے بعد آخرت کا دائمی عذاب ہے۔ یہاں تک تو رسول اللہ ﷺ کو مخالفین کے خوف سے تسلی دی گئی۔ آگے آپ کو جو کفار اور عام خلق خدا کے ساتھ شفقت کی بنا پر ان کے کفر و انکار سے غم ہوتا تھا اس پر تسلی دی گئی کہ) ہم نے یہ کتاب آپ پر لوگوں کے (نفع کے) لئے اتاری جو حق کو لئے ہوئے ہے سو (آپ کا کام اس کو پہنچا دینا ہے پھر) جو شخص راہ راست پر آوے گا تو اپنے نفع کے واسطے اور جو شخص بےراہ رہے گا تو اس کا بےراہ ہونا اسی پر پڑے گا اور آپ ان پر مسلط (اس طرح) نہیں کئے گئے (کہ ان کی بےراہی کی آپ سے باز پرس ہو تو آپ ان کی گمراہی سے کیوں مغموم ہوتے ہیں)

معارف و مسائل
اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ۔ اس آیت کا شان نزول ایک واقعہ ہے کہ کفار نے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کو اس سے ڈرایا تھا کہ اگر آپ نے ہمارے بتوں کی بےادبی کی تو ان بتوں کا اثر بہت سخت ہے اس سے آپ بچ نہ سکیں گے۔ ان کے جواب میں کہا گیا کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ؟
اس لئے بعض مفسرین نے یہاں بندے سے مخصوص بندہ یعنی رسول اللہ ﷺ کو مراد لیا ہے۔ خلاصہ تفسیر میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ اور دوسرے مفسرین نے بندہ سے مراد عام لی ہے اور آیت کی دوسری قرات جو عبادہ آئی ہے وہ اس کی موید ہے۔ اور مضمون بہرحال عام ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کے لئے کافی ہے۔
عبرت و نصیحت
وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ۔ یعنی کفار آپ کو ڈراتے ہیں اپنے جھوٹے معبودوں کے غصب سے۔ اس آیت کو پڑھنے والے عموماً یہ خیال کر کے گزر جاتے ہیں کہ یہ ایک خاص واقعہ کا ذکر ہے، جس کا تعلق کفار کی دھمکیوں اور رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس سے ہے، اس طرح دھیان نہیں دیتے، کہ اس میں ہمارے لئے کیا ہدایت ہے۔ حالانکہ بات بالکل کھلی ہوئی ہے کہ جو شخص بھی کسی مسلمان کو اس لئے ڈرائے کہ تم نے فلاں حرام کام کیا یا گناہ نہ کیا تو تمہارے حکام اور افسر یا جن کے تم محتاج سمجھے جاتے ہو تم سے خفا ہوجائیں گے اور تکلیف پہنچائیں گے۔ یہ بھی اسی میں داخل ہے اگرچہ ڈرانے والا مسلمان ہی ہو اور جس سے ڈرایا جائے وہ بھی مسلمان ہی ہو۔ اور یہ ایسا عام ابتلاء ہے کہ دنیا کی اکثر ملازمتوں میں لوگوں کو پیش آتا ہے کہ احکام آلٰہیہ کی خلاف ورزی پر آمادہ ہوجائیں یا پھر اپنے افسروں کے عتاب و عقاب کا مورد بنیں۔ اس آیت نے ان سب کو یہ ہدایت دی کہ کیا اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کے لئے کافی نہیں، تم نے خالص اللہ کے لئے گناہوں کے ارتکاب سے بچنے کا عزم کرلیا اور احکام خداوندی کے خلاف کسی حاکم و افسر کی پرواہ نہ کی تو خدا تعالیٰ کی امداد تمہارے ساتھ ہوگی۔ زائد سے زائد یہ ملازمت چھوٹ بھی جائے گی تو اللہ تعالیٰ تمہارے رزق کا دوسرا انتظام کردیں گے۔ اور مومن کا کام تو یہ ہے کہ ایسی ملازمت کو چھوڑنے کی خود ہی کوشش کرتا رہے کہ کوئی دوسری مناسب جگہ مل جائے تو اس کو فوراً چھوڑ دے۔
Top