Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 56
اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَۙ
اَنْ تَقُوْلَ : کہ کہے نَفْسٌ : کوئی شخص يّٰحَسْرَتٰى : ہائے افسوس عَلٰي : اس پر مَا فَرَّطْتُّ : جو میں نے کوتاہی کی فِيْ : میں جَنْۢبِ اللّٰهِ : اللہ کا حق وَاِنْ كُنْتُ : اور یہ کہ میں لَمِنَ : البتہ۔ سے السّٰخِرِيْنَ : ہنسی اڑانے والے
کہیں کہنے لگے کوئی جی اے افسوس اس بات پر کہ میں کوتاہی کرتا رہا اللہ کی طرف اور میں تو ہنستا ہی رہا
(آیت) اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى سے مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ تک۔ کی تین آیتوں میں اسی مضمون کی تشریح و تاکید ہے، جو اس سے پہلے کی تین آیتوں میں بیان فرمایا ہے کہ کسی بڑے سے بڑے مجرم کافر عاجز کو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہئے، اگر وہ توبہ کرلے گا تو اللہ اس کے سب پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔ ان تقول نفس سے تین آیتوں میں یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ یہاں تک کفر و شرک کو بھی توبہ سے معاف فرما دیتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھو کہ توبہ کا وقت مرنے سے پہلے ہے، مرنے کے بعد قیامت کے روز کوئی توبہ کرے یا اپنے کئے پر حسرت کرے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
جیسا کہ بعض کفار فجار قیامت کے روز مختلف تمنائیں کریں گے۔ کوئی تو اظہار حسرت کرے گا کہ افسوس میں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کوتاہی کی تھی۔ کوئی وہاں بھی اپنا الزام تقدیر پر ڈال کر بچنا چاہے گا وہ کہے گا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت کردیتا تو میں بھی متقیوں میں داخل ہوتا، مگر خدا نے ہی ہدایت نہ کی تو میں کیا کروں۔ کوئی یہ تمنا کرے گا کہ کاش مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو میں سچا پکا مسلمان بنوں، اور اللہ کے احکام کی پوری اطاعت کروں۔ مگر اس وقت کی یہ حسرتیں اور تمنائیں کسی کے کام نہ آئیں گی۔
یہ تین قسم کی تمنائیں ہوسکتا ہے کہ مختلف لوگوں کی ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تینوں تمنائیں یکے بعد دیگرے ایک ہی جماعت کے کفار کی طرف سے ہوں، کیونکہ آخری قول جس میں دوبارہ دنیا میں آنے کی تمنا ہے اس کے ساتھ آیت میں مذکور ہے کہ وہ عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہوگا۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دونوں قول مشاہدہ عذاب سے پہلے کے ہیں کہ قیامت کے روز اول ہی اپنے عمل کی تقصیرات کو یاد کر کے کہیں گے، يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْۢبِ اللّٰهِ پھر عذر اور بہانے کے طور پر کہیں گے کہ ہم تو معذور تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہدایت کردیتا تو ہم بھی مطیع و فرمانبردار اور متقی ہوجاتے۔ مگر جب اس نے ہدایت ہی نہ کی تو ہمارا کیا قصور ہے، پھر جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو یہ تمنا ہوگی کہ کاش دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جاویں۔ حق تعالیٰ نے ان تینوں آیتوں میں بتلا دیا کہ اللہ کی مغفرت اور رحمت بہت وسیع ہے، مگر وہ جبھی حاصل ہو سکتی ہے کہ مرنے سے پہلے توبہ کرلو۔ اس لئے ہم ابھی بتلائے دیتے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم مرنے کے بعد پچھتاؤ اور آخرت میں اس طرح کی فضول حسرت و تمنا میں مبتلا ہو۔
Top