Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 13
تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ اللّٰهَ : اللہ کی اطاعت کرے وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول يُدْخِلْهُ : وہ اسے داخل کرے گا جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِھَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْھَا : ان میں وَ : اور ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ : کامیابی الْعَظِيْمُ : بڑی
یہ حدیں باندھی ہوئی اللہ کی ہیں اور جو کوئی حکم پر چلے اللہ کے اور رسول کے اس کو داخل کرے گا جنتوں میں جن کے نیچے بہتی ہی نہریں ہمیشہ رہیں گے ان میں اور یہی ہے بڑی مراد ملنی
خلاصہ تفسیر
ربط آیات
میراث کے مذکورہ احکام بیان کرنے کے بعد ان دو آیتوں میں ان احکام کو ماننے اور ان پر عمل کرنے کی فضیلت اور نافرمانی کرنے کی بری عاقبت کا بیان ہے، جس سے احکام مذکورہ کی اہمیت مقصود ہے۔
یہ سب احکام مذکورہ (متعلقہ میراث یا مع احکام یتامی کے) خداوندی ضابطے ہیں اور جو شخص اللہ اور رسول کی پوری اطاعت کرے گا (یعنی ان ضابطوں کی پابندی کرے گا) اللہ تعالیٰ اس کو ایسی بہشتوں میں (فوراً) داخل کردیں گے جن کے (محلات کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جاوے گا، (یعنی پابندی کو ضرروی بھی نہ سمجھے گا اور یہ حالت کفر کی ہے) اس کو (دوزخ کی) آگ میں داخل کریں گے، اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسی سزا ہوگی جس میں ذلت بھی ہے۔“
معارف و مسائل
قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ احکام و عقائد کے بیان کے بعد تتمہ کے طور پر ماننے والوں کے لئے ترغیب اور ان کی فضیلت کا ذکر ہوتا ہے اور نہ ماننے والوں کے لئے ترہیب و سزا اور ان کی مذمت مذکور ہوتی ہے۔
یہاں بھی چونکہ احکام کا ذکر تھا اس لئے آخر کی ان دو آیتوں میں اطاعت کرنیوالوں اور نافرمانوں کے نتائج کا ذکر کردیا گیا۔
تکملہ احکام میراث
مسلمان کافر کا وارث نہیں بن سکتا۔
اگرچہ میراث کی تقسیم نسبی قرابت پر رکھی گئی ہے، لیکن اس میں سے بعض چیزیں مستثنیٰ ہیں، اول یہ کہ مورث اور وارث دو مختلف دین والے نہ ہوں لہٰذا مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوگا خواہ ان میں آپس میں کوئی بھی نسبی رشتہ ہو، حضور اقدس ﷺ نے فرمایا
”یعنی مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔“
یہ حکم اس صورت سے متعلق ہے جب کہ پیدائش کے بعد ہی سے کوئی شخص مسلم یا کافر ہو، لیکن اگر کوئی شخص پہلے مسلمان تھا، پھر العیاذ باللہ اسلام سے پھر گیا اور مرتد ہوگیا، اگر ایسا شخص مر جائے یا مقتول ہوجائے تو اس کا وہ مال جو اسلام کے زمانہ میں کسب کیا تھا، اس کے مسلمان وارثوں کو ملے گا اور جو ارتداد کے بعد کمایا ہو وہ بیت المال میں جمع کردیا جائے گا۔
لیکن اگر عورت مرتد ہوگئی تو اس کا کل مال خواہ زمانہ اسلام میں حاصل ہوا ہو یا زمانہ ارتداد میں، اس کے مسلمان وارثوں کو ملے گا لیکن خود مرتد مرد ہو یا عورت اس کو نہ کسی مسلمان سے میراث ملے گی نہ کسی مرتد سے۔
قاتل کی میراث۔
اگر کوئی شخص ایسے آدمی کو قتل کر دے جس کے مال میں اس کو میراث پہنچتی ہو تو یہ قاتل اس شخص کی میراث سے محروم ہوگا۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے
القاتل لایرث (مشکوة، ص 362) ”یعنی قاتل وارث نہیں ہوگا۔“ البتہ قتل خطا کی بعض صورتیں اس سے مستثنی ہیں (تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے۔)
پیٹ میں جو بچہ ہے اس کی میراث۔
اگر کسی شخص نے اپنی کچھ اولاد چھوڑی اور بیوی کے پیٹ میں بھی بچہ ہے۔ تو یہ بچہ بھی وارثوں کی فہرست میں آئے گا، لیکن چونکہ یہ پتہ چلانا دشوار ہے کہ پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکیاں یا ایک سے زیادہ بچے ہیں اس لئے بچہ پیدا ہونے تک تقسیم میراث ملتوی رکھنا مناسب ہوگا اور اگر تقسیم کرنا ضروری ہی ہو تو سردست ایک لڑکا یا ایک لڑکی فرض کر کے دونوں کے اعتبار سے دو صورتیں فرض کی جائیں، ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت میں ورثاء کو کم ملتا ہو وہ ان میں تقسیم کردیا جائے اور باقی اس حمل کے لئے رکھا جائے۔
معتدہ کی میراث۔
جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور طلاق رجعی ہے، پھر طلاق سے رجوع اور عدت ختم ہونے سے پہلے وفات پا گیا، تو یہ عورت میراث میں حصہ پاوے گی، اس لئے کہ نکاح باقی ہے۔
اور اگر کسی شخص نے مرض الوفات میں بیوی کو طلاق دی، اگرچہ طلاق بائن یا مغلظہ ہی ہو اور عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مرے گا، تب بھی وہ عورت اس کی وارث ہوگی اور عورت کو وارث بنانے کی وجہ سے دو عدتوں میں سے جو سب سے زیادہ دراز ہو اسی کو اختیار کیا جائے گا، جس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ
عدت طلاق تین حیض ہے اور عدت وفات چار مہینہ دس دن ہے، ان دونوں میں عدت زیادہ دنوں کی ہو اسی کو عدت قرار دیا جائے گا، تاکہ جہاں تک ممکن ہو عورت کا حصہ مل سکے۔
اور اگر کسی شخص نے مرض الوفات سے پہلے بائن یا مغلظہ طلاق دی اور اس کے چند دن بعد عورت کی عدت میں وہ فوت ہوگیا، تو اس صورت میں اس کو میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا، البتہ اگر طلاق رجعی دی ہے تو وہ وارث ہوگی۔
مسئلہ۔ اگر کسی عورت نے شوہر کے مرض وفات میں خود سے خلع کرلیا تو وارث نہیں ہوگی، اگرچہ اس کا شوہر اس کی عدت کے دوران مر جائے۔
عصبات کی میراث۔
فرائض کے مقررہ حصے بارہ ورثاء کے لئے طے شدہ ہیں اور ان وارثوں کو اصحاب الفروض کہا جاتا ہے، جن کی تفصیل کسی قدر اوپر گذر چکی، اگر اصحاب الفروض میں سے کوئی نہ ہو، یا اصحاب الفروض کے حصے دیدینے کے بعد کچھ مال بچ جائے تو وہ عصبہ کو دے دیا جائے گا، اور بعض مرتبہ ایک ہی شخص کو دونوں حیثیتوں سے مال مل جاتا ہے، بعض صورتوں میں میت کی اولاد اور میت کا والد بھی عصبہ ہوجاتے ہیں، دادا کی اولاد یعنی چچا اور باپ کی اولاد یعنی بھائی بھی عصبہ رہ جاتے ہیں۔
عصبات کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیلات فرائض کی کتابوں میں موجود ہیں، یہاں ایک مثال لکھی جاتی ہے، مثلاً زید فوت ہوگیا اور اس نے اپنے پیچھے چار وارث چھوڑے، بیوی لڑکی، ماں اور چچا، تو اس کے مال کے کل چوبس حصے کئے جائیں گے، جن میں سے آدھا یعنی بارہ حصے لڑکی کو 8/1 کے حساب سے تین حصے بیوی کو 6/1 کے حساب سے چار حصے ماں کو اور بقیہ پانچ حصے جو بچے وہ عصبہ ہونے کی حیثیت سے چچا کو ملیں گے۔
مسئلہ۔ عصباب اگر نہ ہوں تو اصحاب فرائض سے جو مال بچے وہ ان کے حصوں کے مطابق انہی کو دے دیا جاتا ہے اور وہ اس کو علم فرائض کی اصطلاح میں رد کہتے ہیں۔ البتہ شوہر اور بیوی پر رد نہیں ہوتا، کسی حال میں ان کو مقررہ حصے سے زیادہ نہیں دیا جاتا۔
مسئلہ۔ اگر اصحاب فروض میں سے کوئی نہ ہو اور عصبات میں بھی کوئی نہ ہو تو ذوی الارحام کو میراث پہنچ جاتی ہے، ذوی الارحام کی فہرست طویل ہے، نو اسے، نواسیاں، بہنوں کی اولاد، پھوپھیاں، ماموں، خالہ، یہ لوگ ذوی الارحام کی فہرست طویل ہے، نواسے، نواسیاں، بہنوں کی اولاد، پھوپھیاں، ماموں، خالہ، یہ لوگ ذوی الارحام کی فہرست میں آتے ہیں اور اس مسئلہ میں تفصیل ہے، جس کا یہ محل نہیں، یہاں نہیں، یہاں اسی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
Top