Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 155
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ وَ كُفْرِهِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ قَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ قَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَیْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا۪
فَبِمَا : بسبب نَقْضِهِمْ : ان کا توڑنا مِّيْثَاقَهُمْ : اپنا عہد و پیمان وَكُفْرِهِمْ : اور ان کا انکار کرنا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات وَقَتْلِهِمُ : اور ان کا قتل کرنا الْاَنْۢبِيَآءَ : نبیوں (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل (جمع) غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ طَبَعَ اللّٰهُ : مہر کردی اللہ نے عَلَيْهَا : ان پر بِكُفْرِهِمْ : ان کفر کے سبب فَلَا يُؤْمِنُوْنَ : سو وہ ایمان نہیں لاتے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : کم
ان کو جو سزا ملی سو ان کی عہد شکنی پر اور منکر ہونے پر اللہ کی آیتوں سے اور خون کرنے پر پیغمبروں ؑ کا ناحق اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے سو یہ نہیں بلکہ اللہ نے مہر کردی ان کے دل پر کفر کے سبب سو ایمان نہیں لاتے مگر کم،
ربط آیات۔
ماقبل کی آیات میں بھی یہود کی شرارتوں کا ذکر تھا اور ان شرارتوں کی وجہ سے ان پر لعن، طعن اور سزا کا بیان ہوا تھا، ان آیات میں بھی یہود کے بعض جرائم کی تفصیل مذکور ہے، اس کے ضمن میں حضرت عیسیٰ کے متعلق ان کے باطل خیال کی تردید کی گئی ہے، اور یہ واضح کردیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے ظلم و ستم سے بچا کر زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہے، یہ لوگ جو دعوی ہے جس شخص کو انہوں نے قتل کیا تھا وہ عیسیٰ ؑ نہیں تھے، بلکہ ان کے ہمشکل ایک دوسرا شخص تھا جس کو قتل کر کے یہ لوگ یوں سمجھنے لگے کہ ہم نے عیسیٰ ؑ کو قتل کردیا۔
خلاصہ تفسیر
سو ہم نے (ان کی حرکتوں کی وجہ سے) سزائے لعنت و غضب و ذلت و مسخ وغیرہ) میں مبتلا کیا (یعنی) ان کی عہد شکنی کی وجہ سے اور ان کے کفر و (انکار) کی وجہ سے احکام الہیہ کے ساتھ اور ان کے قتل کرنے کی وجہ سے انبیاء (علیہم السلام) کو (جوان کے نزدیک بھی ناحق (تھا) اور ان کے اس مقولہ کی وجہ سے کہ ہمارے قلوب (ایسے) محفوظ ہیں (کہ ان میں مخالف مذہب یعنی اسلام کا اثر نہیں ہوتا تو مذہب پر ہم خوب پختہ ہیں، حق تعالیٰ اس پر رد فرماتے ہیں کہ یہ مضبوطی اور پختگی نہیں ہے) بلکہ ان کے کفر کے سبب ان کے قلوب پر اللہ تعالیٰ نے بند لگا دیا ہے (کہ حق بات کی ان میں تاثیر نہیں ہوتی) سو ان میں ایمان نہیں مگر قدرے قلیل (اور قدرے قلیل ایمان مقبول نہیں پس کافر ہی ٹھہرے) اور (ہم نے ان کو سزائے لعنت وغیرہ میں ان جو وہ سے بھی مبتلا کیا یعنی) ان کے (ایک خاص) کفر کی وجہ سے اور (تفصیل اس کی یہ ہے کہ) حضرت مریم (علیہا السلام) پر ان کے بڑا بھاری بہتان دھرنے کی وجہ سے (جس سے تکذیب عیسیٰ ؑ کی بھی لازم آتی ہے، کیونکہ عیسیٰ ؑ اپنے معجزہ سے ان کی برات ظاہر فرما چکے ہیں) اور (نیز بطور تفاخر کے) ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو جو کہ رسول ہیں اللہ تعالیٰ کے قتل کردیا (یہ کہنا خود دلیل ہے عداوت کی اور عداوت انبیاء کے ساتھ کفر ہے، نیز اس میں دعوی ہے قتل کا، اور قتل نبی بھی کفر ہے اور دعویٰ کفر کا بھی کفر ہے) حالانکہ (علاوہ کفر ہونے کے خود ان کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کیونکہ) انہوں نے (یعنی یہود نے) نہ ان کو (یعنی (عیسی ؑ کو) قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا، لیکن ان کو (یعنی یہود کو) اشتباہ ہوگیا اور جو لوگ (اہل کتاب میں سے) ان کے (یعنی عیسیٰ ؑ کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ غلط خیال میں (مبتلا) ہیں، ان کے پاس اس پر کوئی (صحیح) دلیل (وجود) نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے سے اور انہوں نے (یعنی یہود نے) ان کو (یعنی عیسیٰ ؑ کو) یقینی باتوں پر عمل کرنے کے اور انہوں نے (یعنی یہود نے) ان کو (یعنی عیسیٰ ؑ کو) یقینی بات ہے کہ قتل نہیں کیا (جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں) بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف (یعنی آسمان پر) اٹھا لیا (اور ایک شخص کو ان کا ہمشکل بنادیا اور وہ مصلوب و مقتول ہوا اور یہی سبب ہوا یہود کے اشتباہ کا اور اس اشتباہ نے اہل کتاب میں اختلاف پیدا کیا) اور اللہ تعالیٰ بڑے زبردست (یعنی قدرت والے) حکمت والے ہیں (کہ اپنی قدرت و حکمت سے حضرت عیسیٰ ؑ کو بچا لیا اور اٹھا لیا اور یہود کو بوجہ تشبیہ کے پتہ بھی نہ لگا) اور (یہود کو اپنا کذب و بطلان انکار نبوت عیسویہ میں بہت جلد دنیا ہی میں ظاہر ہوجائے گا، کیونکہ وقت نزول آیت سے لے کر کسی زمانہ میں) کوئی شخص اہل کتاب (یعنی یہود میں) سے (باقی) نہ رہے گا، مگر وہ عیسیٰ ؑ (کی نبوت) کی اپنے مرنے سے (ذرا) پہلے (جب کہ عالم برزخ نظر آنے لگتا ہے) ضرور تصدیق کرلے گا (گو اس وقت کی تصدیق نافع نہیں، مگر ظہور بطلان کے لئے تو کافی ہے تو اس سے اگر اب ہی ایمان لے آویں تو نافع ہوجاوے) اور (جب عالم دنیا اور عالم برزخ دونوں ختم ہو چکیں گے یعنی) قیامت کے روز وہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) ان (منکرین کے انکار) پر گواہی دیں گے۔
Top