Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 79
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ١٘ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ١ؕ وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا
مَآ : جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ حَسَنَةٍ : کوئی بھلائی فَمِنَ اللّٰهِ : سو اللہ سے وَمَآ : اور جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ سَيِّئَةٍ : کوئی برائی فَمِنْ نَّفْسِكَ : تو تیرے نفس سے وَاَرْسَلْنٰكَ : اور ہم نے تمہیں بھیجا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے رَسُوْلًا : رسول وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
جو پہنچے تجھ کو کوئی بھلائی سو اللہ کی طرف سے ہے، اور جو تجھ کو برائی پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے اور ہم نے تجھ کو بھیجا پیغام پہنچانے والا لوگوں کو اور اللہ کافی ہے سامنے دیکھنے والا۔
پختہ مضبوط گھر تعمیر کرنا توکل کے خلاف نہیں
ولوکنتم فی بروج مشیدة اس آیت میں کہا گیا کہ موت تم کو بہرکیف پہنچ کر رہے گی، اگرچہ تم مضبوط محلوں میں ہی کیوں نہ ہو اس سے معلوم ہوا کہ رہنے سہنے اور مال و اسباب کی حفاظت کے لئے مضبوط و عمدہ گھر تعمیر کرنا نہ خلاف توکل ہے اور نہ خلاف شرع ہے۔ (قرطبی)
انسان کو نعمت محض اللہ کے فضل سے ملتی ہے۔ ما اصابک من حسنة فمن اللہ یہاں حسنتہ سے مراد نعمت ہے۔ (مظہری)
اس آیت سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ انسان کو جو نعمت ملتی ہے وہ کوئی اس کا حق نہیں ہوتا، بلکہ محض اللہ کا فضل ہوتا ہے، انسان خواہ کتنی ہی عبادت کرے، اس سے وہ نعمت کا مستحق نہیں ہوسکتا اس لئے عبادت کی توفیق بھی تو اللہ ہی کی جانب سے ہوتی ہے پھر اللہ کی نعمتیں تو بےحساب ہیں، ان کو محدود عبادات اور اطاعات سے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے ؟ خصوصاً جب کہ ہماری عبادت بھی رب العلمین کی بادشاہت کے شایان شان نہ ہو۔
چنانچہ ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں
”یعنی سوائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا، راوی نے عرض کیا آپ بھی نہیں جائیں گے ؟ فرمایا ہاں میں بھی نہیں۔“
مصیبت انسان کے شامت اعمال کا نتیجہ ہے۔ وما اصابک من سیئة فمن نفسک یہاں سیئة سے مراد مصیبت ہے (مظہری)
مصیبت کی تخلیق اگرچہ اللہ ہی کرتا ہے، لیکن اس کا سبب خود انسان کے اعمال بد ہوتے ہیں، اب اگر یہ انسان کافر ہے تو اس کے لئے دنیا میں جو مصیبت پیش آتی ہے یہ اس کے لئے اس عذاب کا ایک معمولی سا نمونہ ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ ہے اور اگر وہ مومن ہے تو اس کے لئے مصائب و تکالیف اس کے گناہوں کا کفارہ ہو کر نجات آخرت کا سبب ہوجاتی ہیں، چناچہ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا
”یعنی کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو کسی مسلمان کو پہنچے، مگر وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے یہاں تک کہ کانٹا جو اس کے پاؤں میں چبھتا ہے۔“
”حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندے کو جو کوئی ہلکی یا سخت مصیبت پیش آتی ہے تو وہ اس کے گناہ کا نتیجہ ہوتی ہے، اور بہت گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔“
آپ کی رسالت تمام عالم کے لئے عام ہے۔ وارسلنک للناس رسولاً اس سے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کو تمام لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، آپ محض عربوں کے لئے ہی رسول نہیں تھے، بلکہ آپ کی رسالت پورے عالم کے انسانوں کے لئے عام ہے۔ خواہ اس وقت موجود ہوں یا آئندہ تاقیامت پیدا ہوں (مظہری)
Top