Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 8
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَاِذَا : اور جب حَضَرَ : حاضر ہوں الْقِسْمَةَ : تقسیم کے وقت اُولُوا الْقُرْبٰي : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم وَالْمَسٰكِيْنُ : اور مسکین فَارْزُقُوْھُمْ : تو انہیں کھلادو (دیدو) مِّنْهُ : اس سے وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی
اور جب حاضر ہوں تقسیم کے وقت رشتہ دار اور یتیم اور محتاج تو ان کو کچھ کھلا دو اس میں سے اور کہہ دو ان کو بات معقول،
اب قرآنی نظام کی خوبی و خوش اسلوبی کو دیکھئے کہ ایک طرف تو خود قرآن ہی کا بتایا ہوا عادلانہ ضابطہ یہ ہے کہ اقرب کے مقابل ہمیں ابعد کو محروم کیا جائے۔ دوسری طرف محروم ہونے والے ابعد کی حسرت اور دل شکنی بھی گوارا نہیں کی جاتی، اس کے لئے ایک مستقل آیت میں یہ ہدایت کی گئی
واذا حضرالقسمة الوالقربی والیتمی والمسکین فارزقوھم منہ و قولوالھم قولاً معروفاً ”یعنی جو دور کے رشتہ دار اور یتیم مسکین میراث میں حصہ پانے سے محرم ہو رہے ہوں، اگر وہ تقسیم میراث کے وقت آموجود ہوں تو میراث پانے والوں کا اخلاقی فرض ہے کہ اس مال میں سے با اختیار خود کچھ حصہ ان کو بھی دیدیں جو ان کے لئے ایک قسم کا صدقہ اور موجب ثواب ہے، اور ایسے وقت میں جب کہ ایک مال بغیر کسی سعی و عمل کے محض اللہ تعالیٰ کے دین سے انہیں مل رہا ہو تو صدقہ خیرات فی سبیل اللہ کا خود بھی داعیہ دل میں ہونا چاہئے“ جیسا کہ اس کی ایک نظیر دوسری آیت میں مذکور ہے، کلوا من ثمرہ اذا اثمر واتواحقہ یوم حصادہ ”یعنی اپنے باغ کا پھل کھاؤ جب کہ وہ پھل دینے لگے اور جس روز پھل کاٹو تو اس کا حق نکال کر فقراء و مساکین کو دیدو۔“ (یہ آیت سورة انعام 241 میں آ رہی ہے)
خلاصہ یہ ہے کہ میراث کی تقسیم کے قوت اگر کچھ دور کے رشتہ دار یتیم، مسکین وغیرہ جمع ہوجائیں جن کا کوئی حصہ ضابطہ شرعی سے اس میراث میں نہیں ہے تو ان کے جمع ہوجانے سے تم تنگدل نہ ہو، بلکہ جو مال اللہ تعالیٰ نے تمہیں بلا محنت عطا فرمایا ہے اس میں سے بطور شکرانہ کچھ عطا کردو اور غنیمت جانو کہ خرچ کا ایک اچھا موقع مل رہا ہے اس موقع پر ان لوگوں کو کچھ نہ کچھ دیدینے سے ان دور کے رشتہ داروں کی دل شکنی اور حسرت کا ازالہ ہوجائے گا، اس میں مرنے والے کا محروم الارث پوتا بھی آ گیا، اس کے چچاؤں اور پھوپھیوں کو چاہئے کہ اس کو اپنے اپنے حصہ سے بخوشی کچھ دیدیں۔
آخر آیت میں فرمایا وقولوالھم قولاً معروفاً ، اگر یہ لوگ اس طرح تھوڑا سا دینے پر بھی راضی نہ ہوں بلکہ دوسروں کے برابر حصہ کا مطالبہ کرنے لگیں تو چونکہ ان کا یہ مطالبہ قانون شرع کے خلاف اور غیر منصفانہ ہے، اس لئے ان کا مطالبہ پورا کرنے کی تو گنجائش نہیں، لیکن اس پر بھی ان کو کوئی ایسی بات نہیں کہی جائے جس سے ان کی دل شکنی ہو، بلکہ معقول طور پر ان کو سمجھایا جائے کہ شرعی قاعدہ سے میراث میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، ہم نے جو کچھ دیا ہے وہ محض تبرعاً دیا ہے اور ایک بات یہ معلم کرلینا ضروری ہے کہ ان لوگوں کو تبرعاً جو دیا جائے گا مجموعی مال میں سے نہیں، بلکہ بالغین ورثاء میں سے جو حاضر ہوں وہ اپنے حصہ میں سے دیں، نابالغ اور غائب کے حصہ میں سے دینا درست نہیں۔
Top