Maarif-ul-Quran - Al-Ghaafir : 36
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰهَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَۙ
وَقَالَ : اور کہا فِرْعَوْنُ : فرعون يٰهَامٰنُ : اے ہامان ابْنِ لِيْ : بنادے میرے لئے صَرْحًا : ایک (بلند) محل لَّعَلِّيْٓ : شاید کہ میں اَبْلُغُ : پہنچ جاؤں الْاَسْبَابَ : راستے
اور بولا فرعون کہ اے ہامان بنا میرے واسطے ایک اونچا محل شاید میں جا پہنچوں رستوں میں
(آیت) وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰهَامٰنُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا۔ صرح کے معنی بلند تعمیر کے ہیں۔ ظاہر اس کا یہ ہے کہ فرعون نے اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ ایسی بلند تعمیر بناؤ جو آسمان کے قریب تک چلی جائے جس پر جا کر میں خدا کو جھانک کر دیکھ لوں۔ یہ احمقانہ خیال جو کوئی ادنیٰ سمجھ کا آدمی بھی نہیں کرسکتا سلطنت مصر کے مالک فرعون کا یا تو واقعی ہے جو اس کی انتہائی بےوقوفی اور حماقت کی دلیل ہے اور وزیر نے اگر اس کی تعمیل کی تو وزیرے چنین شہریارے چنین کا مصداق ہے۔ مگر کسی بھی والئی ملک سے ایسے احمقانہ تصور کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے بعض حضرات مفسرین نے کہا کہ یہ تو وہ بھی جانتا تھا کہ کتنی ہی بلند تعمیر بنا لے وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتا۔ مگر اپنے لوگوں کو بیوقوف بنانے اور دکھانے کے لئے یہ حرکت کی تھی۔ پھر کسی صحیح اور قوی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ ایسا کوئی محل عالیشان بلند تعمیر ہوا یا نہیں۔ قرطبی نے نقل کیا ہے کہ یہ بلند تعمیر کرائی گئی تھی جو بلندی پر پہنچتے ہی منہدم ہوگئی۔
دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس مولانا محمد یعقوب صاحب کے شاگرد خاص میرے والد ماجد مولانا محمد یٰسین صاحب نے اپنے استاد موصوف سے نقل کر کے فرمایا کہ اس قصر بلند کے منہدم ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی آسمانی عذاب آیا ہو بلکہ ہر تعمیر کی بلندی اس کی بنیادوں کے تحمل پر موقوف ہوتی ہے اس نے کتنی بھی گہری بنیاد رکھی ہو مگر ایک حد تک ہی گہری ہوگی جب اس کے اوپر تعمیر چڑھاتا ہی چلا گیا تو لازم تھا کہ جب اس کی بنیادوں کے تحمل سے زیادہ ہوجائے تو منہدم ہوجائے اس سے فرعون و ہامان کی دوسری بےوقوفی ثابت ہوئی۔ واللہ اعلم۔
Top