Maarif-ul-Quran - Al-Ghaafir : 51
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَنَنْصُرُ : ضرور مدد کرتے ہیں رُسُلَنَا : اپنے رسول (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَوْمَ : اور جس دن يَقُوْمُ : کھڑے ہوں گے الْاَشْهَادُ : گواہی دینے والے
ہم مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگانی میں اور جب کھڑے ہوں گے گواہ
خلاصہ تفسیر
ہم اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی دنیوی زندگانی میں بھی مدد کرتے ہیں (جیسا اوپر موسیٰ ؑ کے قصہ سے معلوم ہوا) اور اس روز بھی جس میں گواہی دینے والے (فرشتے جو کہ نامہ اعمال لکھتے تھے اور قیامت کے روز اس بات کی گواہی دیں گے کہ رسولوں نے عمل تبلیغ کیا اور کفار نے عمل تکذیب، غرض وہ فرشتے گواہی کے لئے) کھڑے ہوں گے (مراد اس سے قیامت کا دن ہے، وہاں کی مدد کا حال ابھی کفار کے معذب بالنار ہونے سے معلوم ہوچکا ہے، آگے اس دن کا بیان ہے یعنی جس دن کو ظالموں (یعنی کافروں) کو ان کی معذرت کچھ نفع نہ دے گی (یعنی اول تو کوئی معتدبہ معذرت نہ ہوگی اور اگر کچھ حرکت مذبوحی کی طرح ہوئی تو وہ نافع نہ ہوگی) اور ان کے لئے لعنت ہوگی اور ان کے لئے اس عالم میں خرابی ہوگی (پس اس طرح آپ اور آپ کے اتباع بھی منصور ہوں گے اور مخالفین ذلیل و مقہور ہوں گے تو آپ تسلی رکھئے) اور (آپ کے قبل) ہم موسیٰ ؑ کو ہدایت نامہ (یعنی توریت) دے چکے ہیں اور (پھر) ہم نے وہ کتاب بنی اسرائیل کو پہنچائی تھی کہ وہ ہدایت اور نصیحت (کی کتاب) تھی، اہل عقل (سلیم) کے لئے (بخلاف بےعقلوں کے کہ وہ اس سے منتفع نہ ہوئے۔ اسی مثل موسیٰ ؑ کے آپ بھی صاحب رسالت و صاحب وحی ہیں اور اسی طرح مثل بنی اسرائیل کے آپ کے متبعین آپ کی کتاب کی خدمت کریں گے اور جیسے ان میں اہل عقل تصدیق کرنے والے اور متبع تھے اور بےعقل لوگ منکر و مخالف اسی طرح آپ کی امت میں بھی دونوں طرح کے لوگ ہوں گے) سو (اس سے بھی) آپ (تسلی حاصل کیجئے اور کفار کی ایذواؤں پر) صبر کیجئے بیشک اللہ کا وعدہ (جس کا اوپر لننصر الخ میں ذکر ہوا ہے بالکل) سچا ہے اور (اگر کبھی کمال صبر میں کچھ کمی ہوگئی ہو جو حسب قواعد شرعیہ واقع میں تو گناہ نہیں، مگر آپ کے رتبہ عالی کے اعتبار سے وجوب تدارک میں مثل گناہ ہی کے ہے، اس کا تدارک کیجئے وہ تدارک یہ ہے کہ) اپنے (اس) گناہ کی (جس کو مجازاً آپ کی شان عالی کے اعتبار سے گناہ کہہ دیا گیا ہے) معافی مانگئے اور (ایسے شغل میں لگے رہیئے کہ غمگین و خریں کرنے والی چیزوں کی طرف التفات ہی نہ ہو، وہ شغل یہ ہے کہ) شام اور صبح (یعنی علی الدوام) اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے رہیئے (یہ مضمون تو آپ کی تسلی کے متعلق ہوگیا، آگے منکرین و مجادلین پر توبیخ اور رد ہے یعنی) جو لوگ بلا کسی سند کے ان کے پاس موجود ہو، خدا کی آیتوں میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں (ان کو کوئی وجہ اشتباہ کی نہیں ہے کہ وہ جدال کا سبب ہو بلکہ) ان کے دلوں میں نری بڑائی (ہی بڑائی) ہے کہ وہ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں (اور وہ بڑائی سبب جدال کا ہے کیونکہ وہ اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں اتباع سے عار آتا ہے وہ خود اوروں ہی کو اپنا تابع بنانے کی ہوس رکھتے ہیں۔ لیکن ان کو یہ بڑائی نصیب نہ ہوگی بلکہ جلد ہی ذلیل و خوار ہوں گے۔ چناچہ بدر وغیرہ میں مسلمانوں سے مغلوب ہوئے) سو (جب یہ خود بڑائی چاہتے ہیں تو آپ سے حسد و عداوت سب کچھ کریں گے لیکن) آپ (اندیشہ نہ کیجئے بلکہ ان کے شر سے) اللہ کی پناہ مانگتے رہیئے، بیشک وہی ہے سب کچھ سننے والا سب کچھ دیکھنے والا (تو وہ اپنی صفات کمال سے اپنی پناہ میں آئے ہوئے لوگوں کو محفوظ رکھے گا یہ جدال تو آپ کو رسول ماننے میں تھا۔ آگے ان کا جدال قیامت کے متعلق مع رد مذکور ہے یعنی وہ لوگ جو آدمیوں کے دوبارہ پیدا ہونے کے منکر ہیں بڑے کم عقل ہیں، اس واسطے کہ) بالیقین آسمانوں اور زمین کا (ابتداً) پیدا کرنا آدمیوں کے (دوبارہ) پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے (جب بڑے کام پر قدرت ثابت ہوگئی تو چھوٹے پر بدرجہ اولیٰ ثابت ہے اور یہ دلیل ثبوت کے لئے کافی شافی ہے) لیکن اکثر آدمی (اتنی بات) نہیں سمجھتے (کیونکہ وہ غور ہی نہیں کرتے اور بعضے ایسے بھی ہیں جو غور بھی کرتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں، اس طرح قرآن کو سننے والوں کی دو قسم ہوگئیں، ایک اس کو سمجھنے اور ماننے والے یہ صاحب بصیرت اور صاحب ایمان ہیں۔ دوسرے نہ سمجھنے اور نہ ماننے والے یہ مثل نابینا اور بد عمل کے ہیں) اور (ان دونوں قسموں کے آدمی یعنی ایک) بینا (دوسرا) نابینا اور (ایک) وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور (دوسرے) بدکار باہم برابر نہیں ہوتے (اس میں آپ کی تسلی بھی ہے کہ ہر قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں، سب کیسے سمجھنے لگیں اور منکرین پر عذاب قیامت کی وعید بھی ہے کہ ہم سب کو برابر نہ رکھیں گے۔ آگے منکرین کو یعنی ان لوگوں کو جو مثل نابینا کے اور بدعمل ہیں بطور التفات کے زجر ہے فرماتے ہیں کہ) تم لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہو (ورنہ اعمیٰ اور بدعمل نہ رہتے۔ اور قیامت کے متعلق جدال کا جواب دے کر آگے اس کے واقع ہونے کی خبر دیتے ہیں کہ) قیامت تو ضرور ہی آ کر رہے گی اس (کے آنے) میں کسی طرح کا شک ہے ہی نہیں مگر اکثر لوگ (بوجہ عدم تدبر فی الدلائل کے اس کو) نہیں مانتے اور (ایک جدال ان کا توحید میں تھا کہ خدا کے ساتھ شریک کرتے تھے آگے اس کے متعلق کلام ہے یعنی) تمہارے پروردگار نے فرما دیا ہے کہ (غیروں کو حوائج کے لئے مت پکارو بلکہ) مجھ کو پکارو میں (باستثناء نامناسب معروض کے) تمہاری (ہر) درخواست قبول کروں گا (دعا کے متعلق آیت قرآنی (آیت) فیکشف ماتدعون الیہ ان شاء کا یہی مطلب ہے کہ نامناسب درخواست و دعا کو رد کردیا جاوے گا) جو لوگ (صرف) میری عبادت سے (جس میں مجھ سے دعا مانگنا بھی داخل ہے) سرتابی کرتے ہیں (اور غیروں کو پکارنے اور ان کی عبادت کرتے ہیں، حاصل یہ ہوا کہ جو لوگ توحید سے اعراض کر کے شرک کرتے ہیں) وہ عنقریب (مرتے ہی) ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

معارف و مسائل
(آیت) اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور مومنین کی مدد کیا کرتے ہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور ظاہر یہ ہے کہ یہ مدد بمقابلہ مخالفین اور اعداء کے مقصود ہے۔ اکثر انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق تو اس کا وقوع ظاہر ہے مگر بعض انبیاء (علیہم السلام) جیسے یحییٰ و زکریا و شعیب (علیہم السلام) جن کو دشمنوں نے شہید کردیا یا بعض کو وطن چھوڑ کر دوسری جگہ ہجرت کرنا پڑی جیسے ابراہیم ؑ اور خاتم الانبیاء ﷺ ان کے متعلق شبہ ہوسکتا ہے۔
ابن کثیر نے بحوالہ ابن جریر اس کا جواب دیا ہے کہ آیت میں نصرت سے مراد انتصار اور دشمنوں سے انتقام لینا ہے خواہ ان کی موجودگی میں ان کے ہاتھوں سے یا ان کی وفات کے بعد۔ یہ معنی تمام انبیاء و مومنین پر بلا کسی استثناء کے صادق ہیں جن لوگوں نے اپنے انبیاء کو قتل کیا پھر وہ کیسے کیسے عذابوں میں گرفتار کر کے رسوا کئے گئے، اس سے تاریخ لبریز ہے۔ حضرت یحییٰ ، زکریا اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کے قاتلوں پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کو ذلیل و خوار کر کے قتل کیا۔ نمرود کو اللہ نے کیسے عذاب میں پکڑا۔ عیسیٰ ؑ کے دشمنوں پر اللہ تعالیٰ نے روم کو مسلط کردیا۔ جنہوں نے ان کو ذلیل و خوار کیا اور پھر قیامت سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ ان کو دشمنوں پر غالب فرمائیں گے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کو تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں زیر کیا ان کے سرکش سردار مارے گئے۔ کچھ قید کر کے لائے گئے، باقی ماندہ فتح مکہ میں گرفتار کر کے لائے گئے جن کو رسول اللہ ﷺ نے آزاد کردیا۔ آپ کا کلمہ دنیا میں بلند ہوا اور وہی سب ادیان پر غالب آیا، پورے جزیرة العرب پر آپ کے زمانے ہی میں اسلام کی حکومت قائم ہوگئی۔
(آیت) وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ۔ یعنی جس دن کھڑے ہوں گے گواہ، مراد یوم قیامت ہے، وہاں تو انبیاء و مومنین کے لئے نصرت الٰہیہ کا خصوصی ظہور ہوگا۔
Top