Maarif-ul-Quran - Al-Ghaafir : 60
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہا رَبُّكُمُ : تمہارے رب نے ادْعُوْنِيْٓ : تم دعا کرو مجھ سے اَسْتَجِبْ : میں قبول کروں گا لَكُمْ ۭ : تمہاری اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرتے ہیں عَنْ عِبَادَتِيْ : میری عبادت سے سَيَدْخُلُوْنَ : عنقریب وہ داخل ہوں گے جَهَنَّمَ : جہنم دٰخِرِيْنَ : خوار ہوکر
اور کہتا ہے تمہارا رب مجھ کو پکارو کہ پہنچوں تمہاری پکار کو بیشک جو لوگ تکبر کرتے ہیں میری بندگی سے اب داخل ہوں گے دوزخ میں ذلیل ہو کر۔
(آیت) وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ
دعا کی حقیقت اور اس کے فضائل و درجات اور شرط قبولیت
دعا کے لفظی معنے پکارنے کے ہیں اور اکثر استعمال کسی حاجت و ضرورت کے لئے پکارنے میں ہوتا ہے۔ کبھی مطلق ذکر اللہ کو بھی دعا کہا جاتا ہے۔ یہ آیت امت محمدیہ کا خاص اعزاز ہے کہ ان کو دعا مانگنے کا حکم دیا گیا۔ اور اس کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا۔ اور جو دعا نہ مانگے اس کے لئے عذاب کی وعید آئی ہے۔
حضرت قتادہ نے کعب احبار سے نقل کیا ہے کہ پہلے زمانے میں یہ خصوصیت انبیاء کی تھی، کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعا کریں میں قبول کروں گا۔ امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم تمام امت کے لئے عام کردیا گیا۔ (ابن کثیر)
حضرت نعمان بن بشیر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان الدعاء ھو العبادة۔ یعنی دعا عبادت ہی ہے اور پھر آپ نے استدلال میں یہ آیت فرمائی۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ
(رواہ الامام احمد والترمذی و النسائی و ابوداؤد وغیرہ۔ ابن کثیر)
تفسیر مظہر میں ہے کہ جملہ ان الدعا ھو العبادة میں بقاعدہ عربیت (قصر المسند علی المسند الیہ) یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ دعا عبادت ہی کا نام ہے یعنی ہر دعا عبادت ہی ہے اور (قصر المسند الیہ علی المسند کے طور پر) یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ہر عبادت ہی دعا ہے۔ یہاں دونوں احتمال ہیں۔ اور مراد یہاں یہ ہے کہ دعا اور عبادت اگرچہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے دونوں جدا جدا ہیں مگر مصداق کے اعتبار سے دونوں متحد ہیں کہ ہر دعا عبادت ہے اور ہر عبادت دعا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عبادت نام ہے کسی کے سامنے انتہائی تذلل اختیار کرنے کا اور ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو کسی کا محتاج سمجھ کر اس کے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا بڑا تذلل ہے جو مفہوم عبادت کا ہے۔ اسی طرح ہر عبادت کا حاصل بھی اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور جنت اور دنیا اور آخرت کی عافیت مانگنا ہے۔ اسی لئے ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص میری حمد و ثنا میں اتنا مشغول ہو کہ اپنی حاجت مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے ہیں اس کو مانگنے والوں سے زیادہ دوں گا۔ (یعنی اس کی حاجت پوری کر دوں گا) (رواہ اجزری فی النہایہ) اور ترمذی و مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ من شغلہ القرآن عن ذکری ومسئلتی اعطیتہ افضل ما اعطی السائلین۔ یعنی جو شخص تلاوت قرآن میں اتنا مشغول ہو کہ مجھ سے اپنی حاجات مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے تو میں اس کو اتنا دوں گا کہ مانگنے والوں کو بھی اتنا نہیں ملتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر عبادت بھی وہی فائدہ دیتی ہے جو دعا کا فائدہ ہے۔
اور عرفات کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عرفات میں میری دعا اور مجھ سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی دعا (یہ کلمہ ہے) لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شئی قدیر۔ (رواہ ابن ابی شیبہ۔ مظہری)
اس میں عبادت اور ذکر اللہ کو دعا فرمایا ہے، اور اس آیت میں عبادت بمعنے دعا کے ترک کرنے والوں کو جو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے وہ بصورت استکبار ہے یعنی جو شخص بطور استکبار کے اپنے آپ کو دعا سے مستغنی سمجھ کر دعا چھوڑے یہ علامت کفر کی ہے۔ اس لئے وعید جہنم کا استحقاق ہوا۔ ورنہ فی نفسہ عام دعائیں فرض و واجب نہیں، ان کے ترک سے کوئی گناہ نہیں۔ البتہ باجماع علماء مستحب اور افضل ہے۔ (مظہری) اور حسب تصریح احادیث موجب برکات ہے۔
فضائل دعا
حدیث۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز مکرم نہیں۔ (ترمذی۔ ابن ماجہ حاکم عن ابی ہریرة)
حدیث۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا الدعاء مخ العبادة یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی عن انس)
حدیث۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ سوال اور حاجت طلبی کو پسند کرتا ہے اور سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ سختی کے وقت آدمی فراخی کا انتظار کرے۔ (ترمذی عن ابن مسعود)
حدیث۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اپنی حاجت کا سوال نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کا اس پر غضب ہوتا ہے۔ (ترمذی۔ ابن حبان۔ حاکم)
ان سب روایات کو تفسیر مظہری میں نقل کر کے فرمایا کہ دعا نہ مانگنے والے پر غضب الٰہی کی وعید اس صورت میں ہے کہ نہ مانگنا تکبر اور اپنے آپ کو مستغنی سمجھنے کی بنا پر ہو جیسا کہ آیت مذکورہ ان الذین یستکبرون کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔
حدیث۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دعا سے عاجز نہ ہو کیونکہ دعا کے ساتھ کوئی ہلاک نہیں ہوتا۔ (ابن حبان۔ حاکم عن انس)
حدیث۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ (حاکم فی المستدرک عن ابی ہریرة)
حدیث۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کے لئے دعا کے دروازے کھول دیئے گئے اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا اس سے زیادہ محبوب نہیں مانگی گئی کہ انسان اس سے عافیت کا سوال کرے۔ (ترمذی۔ حاکم عن ابن عمر) لفظ عافیت بڑا جامع لفظ ہے، جس میں بلا سے حفاظت اور ہر ضرورت و حاجت کا پورا ہونا داخل ہے۔
مسئلہ
کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا مانگنا حرام ہے وہ دعا اللہ کے نزدیک قبول بھی نہیں ہوتی۔ (کما فی الحدیث عن ابی سعید الخدری)
قبولیت دعا کا وعدہ
آیت مذکورہ میں اس کا وعدہ ہے کہ جو بندہ اللہ سے دعا مانگتا ہے وہ قبول ہوتی ہے مگر بعض اوقات انسان یہ بھی دیکھتا ہے کہ دعا مانگی وہ قبول نہیں ہوئی۔ اس کا جواب ایک حدیث میں ہے جو حضرت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان جو بھی دعا اللہ سے کرتا ہے اللہ اس کو عطا فرماتا ہے۔ بشرطیکہ اس میں کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، اور قبول فرمانے کی تین صورتوں میں سے کوئی صورت ہوتی ہے ایک یہ کہ جو مانگا وہی مل گیا، دوسرے یہ کہ اس کی مطلوب چیز کے بدلے اس کو آخرت کا کوئی اجر وثواب دے دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ مانگی ہوئی چیز تو نہ ملی مگر کوئی آفت و مصیبت اس پر آنے والی تھی وہ ٹل گئی۔ (مسند احمد۔ مظہری)
قبولیت دعا کی شرائط
آیت مذکورہ میں تو بظاہر کوئی شرط نہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان ہونا بھی قبولیت دعا کی شرط نہیں ہے۔ کافر کی دعا بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ ابلیس کی دعا تا قیامت زندہ رہنے کی قبول ہوگئی۔ نہ دعا کے لئے کوئی وقت شرط نہ طہارت اور نہ باوضو ہونا شرط ہے۔ مگر احادیث معتبرہ میں بعض چیزوں کو موانع قبولیت فرمایا ہے۔ ان چیزوں سے اجتناب لازم ہے جیسا کہ حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بعض آدمی بہت سفر کرتے اور آسمان کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یا رب یا رب کہہ کر اپنی حاجت مانگتے ہیں مگر ان کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، ان کو حرام ہی سے غذا دی گئی تو ان کی دعا کہاں قبول ہوگی۔ (رواہ مسلم)
اسی طرح غفلت و بےپروائی کے ساتھ بغیر دھیان دیئے دعا کے کلمات پڑھیں تو حدیث میں اس کے متعلق بھی آیا ہے کہ ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ (ترمذی عن ابی ہریرة)
Top