Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 28
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَجَعَلَهَا : اور اس نے بنادیا اس کو كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً : ایک بات باقی رہنے والی فِيْ : میں عَقِبِهٖ : اس کی اولاد میں۔ اس کے پیچھے لَعَلَّهُمْ : شاید کہ وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ لوٹ آئیں
اور یہی بات پیچھے چھوڑ گیا اپنی اولاد میں تاکہ وہ رجوع رہیں
(آیت) وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ (اور وہ اس کو اپنی اولاد میں ایک قائم رہنے والی بات کر گئے) مطلب یہ ہے کہ اپنے عقیدہ توحید و انہوں نے اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ اپنی اولاد کو بھی اسی عقیدے پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی۔ چناچہ آپ کی اولاد میں ایک بڑی تعداد موحدین کی ہوئی اور خود مکہ مکرمہ اور اس کے گرد و نواح میں آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت تک ایسے سلیم الفطرت حضرات موجود تھے جو صدیاں گزرنے کے بعد بھی حضرت ابراہیم ؑ کے اصلی دین پر ہی قائم رہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی ذات کے علاوہ اپنی اولاد کو دین صحیح پر کاربند کرنے اور رکھنے کی فکر بھی انسان کے فرائض میں داخل ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) میں سے حضرت ابراہیم ؑ کے علاوہ حضرت یعقوب ؑ کے بارے میں بھی قرآن کریم نے بتایا ہے کہ انہوں نے وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو صحیح دین پر قائم رہنے کی وصیت کی تھی۔ لہٰذا جس صورت سے ممکن ہو اولاد کے اعمال و اخلاق کی اصلاح میں اپنی پوری کوشش صرف کردینا ضروری بھی ہے اور انبیاء کی سنت بھی۔ اور یوں تو اولاد کی اصلاح کے بہت سے طریقے ہیں جنہیں حسب موقع اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن حضرت شیخ عبدالوہاب شعرانی ؒ نے لطائف المنن والاخلاق میں لکھا ہے کہ اولاد کی اصلاح کے لئے زیادہ کارگر عمل یہ ہے کہ والدین ان کی دینی اصلاح کے لئے دعا کا اہتمام کریں۔ افسوس ہے کہ اس آسان تدبیر سے آج کل غفلت عام ہوتی جا رہی ہے۔ اور اس کے انجام بد کا مشاہدہ خود والدین کرتے رہتے ہیں۔
Top