Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو کوئی آنکھیں چرائے رحمن کی یاد سے ہم اس پر مقرر کردیں ایک شیطان پھر وہ رہے اس کا ساتھی
خلاصہ تفسیر
اور جو شخص اللہ کی نصیحت (یعنی قرآن اور وحی) سے (جان بوجھ کر) اندھا بن جاوے (جیسے یہ کفار ہیں کہ کافی شافی دلائل کے ہوتے ہوئے تجاہل سے کام لیتے ہیں) ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں، سو وہ (ہر وقت) اس کے ساتھ رہتا ہے اور وہ (ساتھ رہنے والے شیاطین) ان (قرآن سے اعراض کرنے والوں) کو (برابر) راہ (حق) سے روکتے رہتے ہیں (اور تسلط کا یہی اثر ہے) اور یہ لوگ (باوجود راہ حق سے دور ہونے کے) یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (یعنی ہم) راہ (راست) پر ہیں (سو جس کی گمراہی کی یہ صورت اور یہ حالت ہو اس کے راہ پر آنے کی کیا امید ہے۔ سو غم کیوں کیا جائے اور یہ بھی تسلی رکھئے کہ ان کا یہ تغافل جلدی ہی ختم ہوگا اور جلد ہی ان کو اپنی غلطی ظاہر ہوجائے گی کیونکہ یہ تغافل صرف دنیا ہی دنیا تک ہے) یہاں تک کہ جب ایسا شخص ہمارے پاس آوے گا (اور اس کی غلطی ظاہر ہوگی) تو (اس شیطان قرین سے) کہے گا کہ کاش میرے اور تیرے درمیان میں (دنیا میں) مشرق ومغرب کے برابر فاصلہ ہوتا (کیوں) کہ (تو تو) برا ساتھی تھا (کہ تو نے مجھ کو گمراہ کیا، مگر یہ حسرت اس وقت کام نہ آئے گی) اور (نیز ان سے کہا جائے گا کہ) جب کہ تم (دنیا میں) کفر کرچکے تھے تو (جس طرح آج حسرت تمہارے کام نہیں آئی اسی طرح) آج یہ بات (بھی) تمہارے کام نہ آوے گی کہ تم (اور شیاطین) سب عذاب میں شریک ہو (جیسے دنیا میں بعض اوقات دوسرے کو شریک مصیبت دیکھ کر ایک گونہ تسلی ہوجاتی ہے وہاں چونکہ عذاب بہت زیادہ شدید ہوگا اس لئے دوسرے کی طرف التفات بھی نہ ہوگا، ہر شخص اپنے حال میں مبتلا ہوگا اور اپنے ہی کو سب سے زیادہ مبتلا سمجھے گا) سو (آپ کو جب ان کی یہ حالت معلوم ہوگئی کہ ان کی ہدایت کی کوئی امید نہیں تو) کیا آپ (ایسے) بہروں کو سنا سکتے ہیں یا (ایسے) اندھوں کو اور ان لوگوں کو جو کہ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں راہ پر لا سکتے ہیں (یعنی ان کی ہدایت آپ کے اختیار سے خارج ہے آپ درپے نہ ہوں) پھر (ان کی یہ سرکشی خالی جانے والی نہیں، بلکہ اس پر ضرور سزا مرتب ہونے والی ہے خواہ آپ کی حیات میں ہو خواہ آپ کی وفات کے بعد ہو، پس) اگر ہم (دنیا سے) آپ کو اٹھا لیں تو بھی ہم ان (کافروں) سے بدلہ لینے والے ہیں یا اگر ان سے جو ہم نے عذاب کا وعدہ کر رکھا ہے وہ (آپ کی حیات میں ان پر نازل کر کے) آپ کو (بھی) دکھلا دیں تب بھی (کچھ بعید نہیں کیونکہ) ہم کو ان پر ہر طرح کی قدرت ہے (مطلب یہ ہے کہ عذاب ضرور ہوگا خواہ کب ہی ہو اور جب یہ بات ہے) تو آپ (تسلی رکھئے اور اطمینان سے) اس قرآن پر قائم رہئے جو آپ پر وحی کے ذریعہ سے نازل کیا گیا ہے (کیونکہ) آپ بیشک سیدھے رستہ پر ہیں (مطلب یہ کہ اپنا کام کئے جائیے اور دوسروں کے کام کا غم نہ کیجئے) اور یہ قرآن (جس پر قائم رہنے کو ہم کہتے ہیں) آپ کے لئے اور آپ کی قوت کے لئے بڑے شرف کی چیز ہے (آپ کے لئے تو اس لئے کہ آپ بلاواسطہ مخاطب ہیں اور قوم کے لئے اس واسطے کہ وہ بالواسطہ مخاطب ہیں، عام بادشاہوں سے ہم کلامی بڑا شرف سمجھی جاتی ہے چہ جائیکہ ملک الموت کا مخاطب بننا) اور عنقریب (قیامت کے دن) تم سب (اپنے اپنے ذمہ کے واجب حقوق سے) پوچھے جاؤ گے (پس آپ سے صرف تبلیغ کے متعلق سوال ہوگا جس کو آپ خوب ادا کرچکے ہیں اور عمل کے متعلق ان سے سوال ہوگا، پس جب آپ سے ان کے اعمال کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی تو آپ غم کیوں کرتے ہیں) اور (ہم نے جو آپ پر نازل ہونے والی وحی کو حق قرار دیا ہے اس میں کفار کو سب سے بڑا اعتراض عقیدہ توحید پر ہے جس کے حق ہونے میں ان کو بڑا کلام ہے، سو درحقیقت وہ ایسا امر حق ہے کہ اس پر تمام انبیاء (علیہم السلام) کا اجماع ہے اور چونکہ انبیاء عقلی و نقلی دلائل کے جامع ہیں اس لئے گویا اس پر ہزاروں عقلی و نقلی دلائل قائم ہیں، چناچہ اگر آپ کا جی چاہے تو) آپ ان سب پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے پوچھ لیجئے (یعنی ان کی کتابوں اور صحیفوں سے جن کا کچھ بقیہ موجود ہے، تحقیق کرلیجئے) کہ کیا ہم نے خدائے رحمان کے سوا (کبھی بھی) دوسرے معبود ٹھہرا دیئے تھے کہ ان کی عبادت کی جاوے (اس سے دوسروں کو سنانا منظور ہے کہ جس کا جی چاہے تحقیق کرلے اور کتابوں میں دیکھنے کو رسولوں سے پوچھنا مجازاً کہہ دیا)

معارف و مسائل
یاد خدا سے اعراض بری صحبت کا سبب ہے
(آیت) وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ الخ۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی نصیحت یعنی قرآن اور وحی سے جان بوجھ کر اعراض کرے تو ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو دنیا میں بھی اس کے ساتھ لگا رہتا ہے اور اسے نیکیوں سے روک کر برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے اور آخرت میں بھی جب یہ شخص قبر سے اٹھے گا تو یہ شیطان اس کے ساتھ ساتھ ہوگا یہاں تک کہ دونوں جہنم میں داخل ہوجائیں۔ (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی یاد سے اعراض کی اتنی سزا دنیا میں مل جاتی ہے کہ انسان کی صحبت خراب ہوجاتی ہے اور شیاطین، خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنات میں سے، اس کو بھلائیوں سے دور اور برائیوں سے قریب کرتے رہتے ہیں وہ کام سارے گمراہی کے کرتا ہے مگر سمجھتا یہ ہے کہ بہت اچھا کر رہا ہے (قرطبی) اور یہاں جس شیطان کو مسلط کرنے کا ذکر ہے وہ اس شیطان کے علاوہ ہے جو ہر مومن و کافر کے ساتھ لگایا گیا ہے کیونکہ مومن سے خاص اوقات میں ہٹ بھی جاتا ہے، اور یہ ہمیشہ ساتھ لگا رہے گا۔ (بیان القرآن)۔
Top