Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 67
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠   ۧ
اَلْاَخِلَّآءُ : دوست يَوْمَئِذٍۢ : آج کے دن بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے لیے عَدُوٌّ : دشمن ہوں گے اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ : مگر تقوی والے
جتنے دوست ہیں اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر جو لوگ ہیں ڈر والے
معارف و مسائل
دوستی درحقیقت وہی ہے جو اللہ کے لئے ہو
(آیت) اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ (تمام دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے بجز خدا سے ڈرنے والوں کے) اس آیت نے یہ بات کھول کر بتادی کہ یہ دوستانہ تعلقات جن پر انسان دنیا میں ناز کرتا ہے اور جن کی خاطر حلال و حرام ایک کر ڈالتا ہے قیامت کے روز صرف یہ کہ کچھ کام نہ آئیں گی بلکہ عداوت میں تبدیل ہوجائیں گی۔ چناچہ حافظ ابن کثیر نے اس آیت کے تحت حضرت علی کا یہ ارشاد مصنف عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم کی روایت سے نقل کیا ہے کہ دو دوست مومن تھے اور دو کافر، مومن دوستوں میں سے ایک کا انتقال ہوا اور اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی تو اسے اپنا دوست یاد آیا۔ اس نے دعا کی کہ یا اللہ، میرا فلاں دوست مجھے آپ کی اور آپ کے رسول کی اطاعت کی تاکید کرتا، بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا تھا اور یہ یاد لاتا رہتا تھا کہ مجھے ایک دن آپ کے پاس حاضر ہونا ہے، لہٰذا یا اللہ، اس کو میرے بعد گمراہ نہ کیجئے گا تاکہ وہ بھی (جنت کے) وہ مناظر دیکھ سکے جو آپ نے مجھے دکھائے ہیں، اور آپ جس طرح مجھ سے راضی ہوئے ہیں اسی طرح اس سے بھی راضی ہوجائیں۔ اس دعا کے جواب میں اس سے کہا جائے گا کہ جاؤ، اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ میں نے تمہارے اس دوست کے لئے کیا اجر وثواب رکھا ہے تو تم رؤو کم اور ہنسو زیادہ۔ اس کے بعد جب دوسرے دوست کی وفات ہوچکے گی تو دونوں کی ارواح جمع ہوں گی، باری تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ تم میں سے ہر شخص دوسرے کی تعریف کرے، تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بارے میں یہ کہے گا کہ وہ بہترین بھائی، بہترین ساتھی اور بہترین دوست ہے۔
اس کے برخلاف جب دو کافر دوستوں میں سے ایک کا انتقال ہوگا اور اسے بتایا جائے گا کہ اس کو جہنم میں ڈالا جائے گا تو اسے بھی اپنا دوست یاد آئے گا اس وقت وہ یہ دعا کرے گا کہ یا اللہ، میرا فلاں دوست مجھے آپ کی اور آپ کے رسول کی نافرمانی کرنے کا حکم دیتا تھا، برائی کی تاکید کرتا اور بھلائی سے روکتا تھا، اور مجھ سے کہا کرتا تھا کہ میں کبھی آپ کے حضور حاضر نہ ہوں گا، لہٰذا یا اللہ، اس کو میرے بعد ہدایت نہ دیجئے گا، تاکہ وہ بھی (دوزخ کے) وہ مناظر دیکھے جو آپ نے مجھے دکھائے ہیں، اور آپ جس طرح مجھ سے ناراض ہوئے ہیں اسی طرح اس سے بھی ناراض ہوں۔ اس کے بعد دوسرے دوست کا بھی انتقال ہوجائے گا تو دونوں کی روحیں جمع کی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ تم میں سے ہر شخص اپنے ساتھی کی تعریف کرے، تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بارے میں کہے گا کہ یہ بدترین بھائی، بدترین ساتھی اور بدترین دوست ہے۔ (ابن کثیر 134 ج 4) اسی لئے دنیا و آخرت دونوں کے لحاظ سے بہترین دوستی وہ ہے جو اللہ کے لئے ہو۔ جن دو مسلمانوں میں صرف اللہ کے لئے محبت ہو ان کے بڑے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میدان حشر میں یہ لوگ اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے۔ اور اللہ کے لئے محبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے سے اس بنا پر تعلق ہو کہ وہ اللہ کے دین کا سچا پیرو ہے۔ چناچہ علوم دین کے استاذ، شیخ و مرشد، علماء اور اہل اللہ سے نیز عالم اسلام کے تمام مسلمانوں سے بےلوث محبت اس میں داخل ہے۔
Top