Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 78
لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ
لَقَدْ جِئْنٰكُمْ : البتہ تحقیق لائے ہم تمہارے پاس بِالْحَقِّ : حق وَلٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ : لیکن اکثر تمہارے لِلْحَقِّ : حق کے لیے كٰرِهُوْنَ : ناگوار تھے
ہم لائے ہیں تمہارے پاس سچا دین پر تم بہت لوگ سچی بات سے برا مانتے ہو
خلاصہ تفسیر
(اور اوپر جن سزاؤں کا بیان ہوا ان کی وجہ یہ ہے کہ) ہم نے سچا دین (جس کا رکن اعظم توحید و رسالت کا اعتقاد ہے) تمہارے پاس پہنچایا، لیکن تم میں سے اکثر آدمی سچے دین سے نفرت رکھتے ہیں (اکثر آدمی یا تو اس لئے کہا کہ بعض لوگ آئندہ ایمان لانے والے تھے، اور یا اس لئے کہ نفرت تو صحیح معنی میں بعض ہی کو تھی، دوسرے بعض محض تقلیداً راہ حق کو چھوڑے ہوئے تھے، اور یہ نفرت شامل ہے رسولوں کی مخالفت اور توحید کی مخالفت دونوں کو۔ آگے دونوں کی تفصیل ہے کہ) ہاں کیا انہوں نے (رسول کو نقصان پہنچانے کے بارے میں) کوئی انتظام درست کیا ہے، سو ہم نے بھی ایک انتظام درست کیا ہے (اور ظاہر ہے کہ خدائی انتظام کے سامنے ان کا انتظام نہیں چل سکتا، چناچہ آپ محفوظ رہے اور وہ لوگ ناکام، اور آخر کو بدر میں ہلاک ہوئے۔ اس کا مفصل ذکر سورة انفال رکوع چہارم (آیت) واذیمکربک الذین کفروا الخ میں ہے) ہاں (یہ لوگ جو آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے خفیہ تدبیریں کرتے ہیں) کیا ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی چپکی چپکی (کہی ہوئی) باتوں کو اور ان کے (خفیہ) مشوروں کو نہیں سنتے (ورنہ اگر ہم کو سننے والا سمجھتے ہیں تو پھر ایسی جرأت کیوں کرتے ہیں ؟ آگے ان کے اس خیال کی تردید فرماتے ہیں کہ) ہم ضرور سنتے ہیں اور (اس کے علاوہ) ہمارے فرشتے (جو اعمال کو لکھنے والے ہیں) ان کے پاس ہیں وہ بھی لکھتے ہیں (اگرچہ اس کی ضرورت نہیں لیکن عام عادت یہ ہے کہ مجرم کے لئے پولیس کی لکھی ہوئی رپورٹ حاکم کے معائنہ سے زیادہ قابل ازام ہوتی ہے۔ یہ تو ان کی مخالفت رسول کا بیان ہوا، آگے توحید کی مخالفت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اے پیغمبر ﷺ آپ (ان مشرکین سے) کہئے کہ (تم جو اپنے بعض مشرکانہ اقوال میں حق تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہو تو) اگر (بفرض محال ایسا ہو یعنی) خدائے رحمن کے اولاد ہو تو سب سے اول اس کی عبادت کرنے والا میں ہوں (جس طرح تم فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھ کر ان کی عبادت کرتے ہو، اسی طرح میں بھی اس صورت میں خدا کی اولاد کی عبادت کرتا۔ مطلب یہ کہ مجھ کو تمہاری طرح حق بات کے ماننے سے انکار نہیں، تم اگر ثابت کردو تو سب سے پہلے میں اس کو مانوں، اور جب اس کو خدا کی اولاد مان لوں تو چونکہ خدا کی اولاد بھی خدا ہی ہونی چاہئے اور خدا مستحق عبادت ہے، اس لئے میں اس کی عبادت بھی کروں، مگر چونکہ یہ امر باطل محض ہے اس لئے نہ میں مانوں گا اور نہ عبادت کروں گا۔ آگے شرک سے اللہ تعالیٰ کے پاک ہونے کا بیان ہے یعنی) آسمانوں اور زمین کا مالک جو کہ عرش کا بھی مالک ہے ان باتوں سے منزہ ہے جو یہ (مشرک) لوگ (اس کی جناب میں) بیان کر رہے ہیں (جب یہ لوگ حق کے واضح ہونے کے باوجود اپنے عناد سے باز نہیں آتے) تو آپ ان کو اسی شغل اور تفریح میں رہنے دیجئے، یہاں تک کہ ان کو اپنے اس دن سے سابقہ واقع ہو جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے (اس وقت سب حقیقت معلوم ہوجائے گی اور ”رہنے دینے“ کا مطلب یہ نہیں کہ تبلیغ نہ کیجئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کی مخالفت کی طرف التفات نہ کیجئے اور ان کے ایمان نہ لانے سے غمگین نہ ہوجئے) اور وہی ذات جو آسمانوں میں بھی قابل عبادت ہے اور زمین میں بھی قابل عبادت ہے اور وہی بڑی حکمت والا اور بڑے علم والا ہے (اور کوئی علم و حکمت میں اس کا شریک نہیں، پس خدائی بھی اسی کے ساتھ خاص ہے) اور وہ ذات بڑی عالیشان ہے جس کے لئے آسمانوں کی اور زمین کی اور جو (مخلوق) ان کے درمیان میں ہے اس کی سلطنت ثابت ہے اور (علم ایسا کامل ہے کہ) اس کو قیامت کی خبر (بھی) ہے (جس کا کسی مخلوق کو پتہ نہیں) اور (جزا و سزا کا مالک بھی وہی ہے چنانچہ) تم سب اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے (اور اس کو حساب دو گے) اور (اس وقت اللہ تعالیٰ کا بلاشرکت غیرے جزا و سزا کا مالک ہونا ایسا ظاہر و باہر ہوگا کہ) خدا کے سوا جن معبودوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سفارش (تک) کا اختیار نہ رکھیں گے ہاں جن لوگوں نے حق بات (یعنی کلمہ ایمان) کا اقرار کیا تھا اور وہ (دل سے) تصدیق بھی کرتے تھے (وہ البتہ باذن الٰہی اہل ایمان کی سفارش کرسکیں گے مگر اس سے کفار کو کیا فائدہ ؟) اور (ہم نے جو اوپر توحید کا مضمون بیان کیا ہے جس میں یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں، سو اس کے مقدمات کو یہ بھی تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو (یعنی تم کو) کس نے پیدا کیا ہے تو یہی کہیں گے کہ اللہ نے (پیدا کیا ہے) سو (ظاہر ہے کہ مستحق عبادت وہی ہوسکتا ہے جو پیدا کرنے پر قادر ہو۔ پس) یہ لوگ (مقدمات کو تو مانتے ہیں مگر پھر مطلوب کے ماننے کے وقت خدا جانے) کدھر الٹے چلے جاتے ہیں (ان تمام باتوں سے واضح ہے کہ ان کافروں کے جرائم کس قدر سخت ہیں، لہٰذا سزا بھی یقینا سخت ہوگی۔ اور آگے سزا کی سختی کو اور زیادہ موکد کرنے کے لئے ایک اور بات کا بیان فرماتے ہیں کہ جس طرح خدا تعالیٰ کو قیامت کی خبر ہے اسی طرح) اس کو رسول اللہ ﷺ کے اس کہنے کی بھی خبر ہے کہ اے میرے رب یہ ایسے لوگ ہیں کہ (باوجود میری اس درجہ فہمائش کے) ایمان نہیں لاتے (اس سے سزا کی سختی اور بڑھ گئی کہ جرائم تو سخت تھے ہی ان کے ساتھ رسول کی نالش بھی موجود ہے، پس سمجھ لینا چاہئے کہ کیسا سخت عذاب ہوگا۔ اور جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ ان کا انجام یہ ہونے والا ہے) تو آپ ان سے بےرخ رہیئے (یعنی ان کے ایمان کی ایسی امید نہ رکھئے جو بعد میں موجب رنج ہو) اور (اگر وہ آپ سے مخالفت اور جہالت کی بات کریں تو آپ رفع شر کے لئے) یوں کہہ دیجئے کہ تم کو سلام کرتا ہوں (اور کچھ نہیں کہتا اور نہ کچھ واسطہ رکھتا ہوں، آگے حق تعالیٰ تسلی کیلئے فرماتے ہیں کہ آپ چندے صبر کیجئے) سو ان کو ابھی (مرتے ہی) معلوم ہوجاوے گا۔
Top