Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 4
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہی ہے جس نے اتارا اطمینان دل میں ایمان والوں کے تاکہ اور بڑھ جائے ان کو ایمان اپنے ایمان کے ساتھ اور اللہ کے ہیں سب لشکر آسمانوں کے اور زمین کے اور اللہ ہے خبردار حکمت والا۔
خلاصہ تفسیر
وہ خدا ایسا ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل پیدا کیا (جس کے دو اثر ہیں ایک بیعت جہاد کے وقت اس کی طرف مسابقت اور عزم و ہمت جیسا کہ بیعت رضوان کے واقعہ میں اوپر ذکر آ چکا ہے اور دوسرا اثر کفار کی بےجا ضد کے وقت اپنے جوش اور غیظ و غضب کو قابو میں رکھنا جس کا ذکر اس واقعہ کے جزو دہم میں تفصیل کے ساتھ آ چکا ہے اور آگے بھی (آیت) فانزل اللہ سکینتہ علیٰ رسولہ میں آئے گا) تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ان کا ایمان اور زیادہ ہو (کیونکہ دراصل اطاعت رسول ذریعہ ہے نور ایمان میں زیادتی کا اور اس واقعہ میں ہر پہلو سے مکمل اطاعت رسول کا امتحان ہوگیا کہ جب رسول نے دعوت جہاد کے لئے بلایا اور بیعت لی تو بڑی خوش دلی اور مسابقت کے ساتھ سب نے بیعت کی اور جہاد کے لئے تیار ہوگئے اور جب حکمت و مصلحت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے قتال سے روکا اور سب صحابہ جوش جہاد میں قتال کے لئے بےقرار تھے مگر اطاعت رسول میں سر تسلیم خم کردیا اور قتال سے باز رہے) اور آسمان و زمین کے سب لشکر (جیسے ملائکہ اور سب مخلوقات) اللہ ہی کے (لشکر) ہیں (اس لئے کفار کی شکست اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے اللہ تعالیٰ تمہارے قتال و جہاد کا محتاج نہیں وہ اگر چاہیں تو اپنے فرشتوں کے لشکر بھیج دیں جیسا کہ بدر، احزاب، حنین کے غزوات میں اس کا مشاہدہ ہوچکا اور یہ لشکر بھیجنا بھی مسلمانوں کی ہمت بڑھانے کے لئے ہے ورنہ ایک فرشتہ بھی سب کیلئے کافی ہے اس لئے تم لوگوں کو نہ تو کفار کی کثرت دیکھ کر جہاد و قتال میں کوئی تردد ہونا چاہئے اور نہ جس وقت اللہ و رسول کا حکم ترک قتال کا ہو اس وقت ترک قتال میں بھی کوئی تردد ہونا چاہئے کہ افسوس صلح ہوگئی اور کفار بچ گئے ان کو سزا نہ ہوئی اور قتال یا ترک قتال کے نتائج کو اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جانتا ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ (مصلحتوں کا) بڑا جاننے والا حکمت والا ہے (جب قتال میں حکمت ہوتی ہے اس کا حکم دیتا ہے اور جب ترک قتال میں مصلحت ہوتی ہے اس کا حکم فرماتا ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ دونوں حالتوں میں اپنے جذبات کو امر رسول کے تابع رکھیں جو سبب ہے زیادت ایمان کا آگے زیادتی ایمان کے ثمرہ کا بیان ہے یعنی) تاکہ اللہ تعالیٰ (اس اطاعت کی بدولت) مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو ایسی بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ (اس اطاعت کی بدولت) ان کے گناہ دور کر دے (کیونکہ اطاعت رسول میں گناہوں سے توبہ اور اعمال صالحہ سب داخل ہیں جو تمام سئیات اور گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں) اور یہ (جو کچھ مذکور ہوا) اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے (اس آیت میں اول قلوب مومنین پر سکینت اور تحمل نازل کرنے کا انعام ذکر فرمایا پھر یہ انعام ایمان کی زیادتی کا بذریعہ اطاعت رسول سبب بنا اور اطاعت رسول دخول جنت کا سبب بنی اس لئے یہ سب امور مومنین کے قلوب میں نزول سکینت پر مرتب ہوئے، آگے اسی سکینت پر مرتب کر کے منافقین کی اس سے محرومی) اور (اس محرومی کے سبب سے گرفتار عذاب ہونا بیان فرماتے ہیں یعنی یہ سکینت مسلمانوں کے قلوب پر نازل فرمائی اور کفار کے قلوب پر نہیں فرمائی) تاکہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو (بوجہ ان کے کفر کے) عذاب دے جو کہ اللہ کے ساتھ برے برے گمان رکھتے ہیں (اس برے گمان سے مراد باعتبار سیاق کلام کے ان لوگوں کا گمان ہے جن کو عمرہ کے لئے حدیبیہ کے سفر کی دعوت دی گئی اور انہوں نے انکار کردیا اور باہم یہ کہا کہ یہ لوگ اہل مکہ سے ہمیں لڑانا چاہتے ہیں ان کو جانے دو یہ ان کے ہاتھ سے بچ کر نہیں آویں گے ایسا کہنے والے لوگ منافقین ہی ہو سکتے ہیں اور اپنے مفہوم عام کے اعتبار سے سارے عقائد کفریہ شرکیہ اسی گمان بد میں داخل ہیں ان سب کے لئے وعید ہے کہ دنیا میں) ان پر برا وقت پڑنے والا ہے (چنانچہ چند ہی روز کے بعد مقتول اور محبوس ہوئے اور منافقین کی تمام عمر حسرت و پریشانی میں کٹی کہ اسلام بڑھتا تھا اور وہ گھٹتے جاتے تھے یہ تو دنیا میں ہوا) اور (آخرت میں) اللہ تعالیٰ ان پر غضبناک ہوگا اور ان کو رحمت سے دور کر دے گا اور ان کے لئے اس نے دوزخ تیار کر رکھی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے اور (آگے اس و عید کی تاکید ہے کہ) آسمان اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ زبردست (یعنی پوری قدرت والا ہے اگر چاہتا اپنے کسی بھی لشکر سے ان سب کی ایک دم صفائی کردیتا کہ یہ اس کے مستحق ہیں لیکن چونکہ وہ) حکمت والا ہے (اس لئے بمصلحت سزا میں مہلت دیتا ہے)
معارف و مسائل
شروع سورت کی تین آیتوں میں ان خاص انعامات کا ذکر ہے جو اس فتح مبین رسول اللہ ﷺ پر مبذول ہوئے۔ بعض صحابہ جو سفر حدیبیہ میں ساتھ تھے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ انعامات تو آپ کے لئے ہیں اللہ آپ کو مبارک فرمائے ہمارے لئے کیا ہے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ان میں اصالتہ حاضرین حدیبیہ اور بیعت رضوان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے اور چونکہ وہ انعامات ایمان اور اطاعت رسول کے سبب ملے اس حیثیت سے سب مومنین کو بھی شامل ہے کہ جو بھی ایمان اور اطاعت میں کامل ہوگا وہ ان انعامات کا مستحق ہوگا۔
Top