Maarif-ul-Quran - Al-Hujuraat : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُنَادُوْنَكَ : آپ کو پکارتے ہیں مِنْ وَّرَآءِ : باہر سے الْحُجُرٰتِ : حجروں اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
جو لوگ پکارتے ہیں تجھ کو دیوار کے پیچھے سے وہ اکثر عقل نہیں رکھتے۔
(آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ، اس آیت میں نبی کریم ﷺ کا ایک تیسرا ادب سکھلایا گیا ہے کہ جس وقت آپ اپنے مکان اور آرام گاہ میں تشریف فرما ہوں اس وقت باہر کھڑے ہو کر آپ کو پکارنا خصوصاً گنوارپن کے ساتھ کہ نام لے کر پکارا جائے یہ بےادبی ہے عقل والوں کے لیے یہ کام نہیں۔ حجرات، حجرہ کی جمع ہے اصل لغت میں حجرہ ایک چار دیواری سے گھرے ہوئے مکان کو کہتے ہیں جس میں کچھ صحن ہو کچھ مسقف عمارت ہو۔ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات مدینہ طیبہ میں نو تھیں ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک حجرہ الگ الگ تھا جن میں آپ باری باری تشریف فرما ہوتے تھے۔
حجرات امہات المومنین
ابن سعد نے بروایت عطا خراسانی لکھا ہے کہ یہ حجرات کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے اور ان کے دروازوں پر موٹے سیاہ اون کے پردے پڑے ہوئے تھے۔ امام بخاری نے ادب المفرد میں اور بیہقی نے داؤد بن قیس سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان حجرات کی زیارت کی ہے میرا گمان یہ ہے کہ حجرہ کے دروازہ سے مسقف بیت تک چھ سات ہاتھ ہوگا اور بیت (کمرہ) دس ہاتھ اور چھت کی اونچائی سات آٹھ ہاتھ ہوگی۔ یہ حجرات امہات المومنین ولید بن عبدالملک کی حکومت میں ان کے حکم سے مسجد نبوی میں شامل کردیئے گئے۔ مدینہ میں اس روز لوگوں پر گریہ و وبکا طاری تھی۔
سبب نزول
امام بغوی نے بروایت قتادہ ذکر کیا ہے کہ قبیلہ بنو تمیم کے لوگ جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جن کا ذکر اوپر آیا ہے۔ یہ دوپہر کے وقت مدینہ میں پہنچے جبکہ آپ کسی حجرہ میں آرام فرما رہے تھے۔ یہ لوگ اعراب آداب معاشرت سے ناواقف تھے۔ انہوں نے حجرات کے باہر ہی سے پکارنا شروع کردیا، اخرج الینا یا محمد اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اس طرح پکارنے کی ممانعت اور انتظار کرنے کا حکم دیا گیا۔ مسند احمد۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت مختلف الفاظ سے آئی ہے (مظہری)
تنبیہ
صحابہ وتابعین نے اپنے علماء و مشائخ کے ساتھ بھی اسی ادب کا استعمال کیا ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ جب میں کسی عالم صحابی سے کوئی حدیث دریافت کرنا چاہتا تھا تو ان کے مکان پر پہنچ کر ان کو آواز یا دروازہ پر دستک دینے سے پرہیز کرتا اور دروازہ کے باہر بیٹھ جاتا تھا کہ جب وہ خود ہی باہر تشریف لاویں گے اس وقت ان سے دریافت کروں گا، وہ مجھے دیکھ کر فرماتے کہ اے رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی، آپ نے دروازہ پر دستک دے کر کیوں نہ اطلاع کردی تو ابن عباس نے فرمایا کہ عالم اپنی قوم میں مثل نبی کے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے نبی کی شان میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ان کے باہر آنے کا انتظار کیا جائے۔ حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا کہ میں نے کبھی کسی عالم کے دروازہ پر جا کر دستک نہیں دی بلکہ اس کا انتظار کیا کہ وہ خود ہی جب باہر تشریف لاویں گے اس وقت ملاقات کروں گا (روح المعانی)
مسئلہآیت مذکورہ میں حتی تخرج الیہم میں الیہم کی قید بڑھانے سے یہ ثابت ہوا کہ صبر و انتظار اس وقت تک کرنا ہے جب تک کہ آپ لوگوں سے ملاقات و گفتگو کے لئے باہر تشریف لائیں، اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا باہر تشریف لانا کسی دوسری ضرورت سے ہو اس وقت بھی آپ سے اپنے مطلب کی بات کرنا مناسب نہیں بلکہ اس کا انتظار کریں کہ جب آپ ان کی طرف متوجہ ہوں اس وقت بات کریں
Top