Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 100
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہدیجئے لَّا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْخَبِيْثُ : ناپاک وَالطَّيِّبُ : اور پاک وَلَوْ : خواہ اَعْجَبَكَ : تمہیں اچھی لگے كَثْرَةُ : کثرت الْخَبِيْثِ : ناپاک فَاتَّقُوا : سو ڈرو اللّٰهَ : اللہ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
تو کہہ دے کہ برابر نہیں ناپاک اور پاک اگرچہ تجھ کو بھلی لگے ناپاک کی کثرت سو ڈرتے رہو اللہ سے اے عقلمندو تاکہ تمہاری نجات ہو۔
چوتھی آیت میں ارشاد فرمایاقُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ ، عربی زبان میں طیّب اور خبیث دو متقابل لفظ ہیں، طیّب ہر چیز کے عمدہ اور جیّد کو اور خبیث ہر چیز کے ردی اور خراب کو کہا جاتا ہے، اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک خبیث سے مراد حرام یا ناپاک ہے، اور طیّب سے مراد حلال اور پاک، معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلکہ ہر عقل سلیم کے نزدیک پاک و ناپاک یا حلال و حرام برابر نہیں ہوسکتے۔
اس جگہ لفظ خبیث اور طیّب اپنے عموم کے اعتبار سے حرام و حلال مال و دولت کو بھی شامل ہے، اور اچھے برے انسانوں کو بھی، اور بھلے برے اعمال و اخلاق کو بھی، مطلب آیت کا واضح ہے کہ کسی عقل سلیم کے نزدیک نیک و بد اور بھلا برا برابر نہیں ہوتا اسی فطری قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال و حرام یا پاک و ناپاک چیزیں برابر نہیں اسی طرح اچھے اور برے اعمال و اخلاق برابر نہیں، اسی طرح نیک و بد انسان برابر نہیں۔
آگے ارشاد فرمایا وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ ، یعنی اگرچہ دیکھنے والوں کو بعض اوقات خراب اور خبیث چیزوں کی کثرت مرعوب کردیتی ہے، اور گردوپیش میں خبیث و خراب چیزوں کے پھیل جانے اور غالب آجانے کے سبب انہی کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں، مگر یہ انسانی علم و شعور کی بیماری اور احساس کا قصور ہوتا ہے۔
آیت کا شان نزول
آیت کے شان نزول کے متعلق بعض روایات میں ہے کہ جب اسلام میں شراب کو حرام اور اس کی خریدو فروخت کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا تو ایک شخص نے جس کا کاروبار شراب فروشی کا تھا، اور اس ذریعہ سے اس نے کچھ مال جمع کر رکھا تھا، آنحضرت ﷺ سے سوال کیا، کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ مال جو شراب کی تجارت سے میرے پاس جمع ہوا ہے اگر میں اس کو کسی نیک کام میں خرچ کروں تو کیا وہ میرے لئے مفید ہوگا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اس کو حج یا جہاد وغیرہ میں خرچ کروگے تو وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی قیمت نہ رکھے گا، اللہ تعالیٰ پاک اور حلال چیز کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں فرماتے۔
حرام مال کی یہ بےتوقیری تو آخرت کے اعتبار سے ہوئی اور اگر گہری نظر سے معائنہ کیا جائے اور سب کاموں کے آخری انجام کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے کاروبار میں بھی حلال و حرام مال برابر نہیں ہوتے، حلال سے جتنے فوائد اور اچھے نتائج اور حقیقی آرام و راحت نصیب ہوتی ہے وہ کبھی حرام سے نہیں ہوتی۔
تفسیر درمنثور میں بحوالہ ابن ابی حاتم نقل کیا ہے کہ زمانہ تابعین کے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے جب سابق امراء کے زمانہ کے عائد کئے ہوئے ناجائز ٹیکس بند کئے، اور جن لوگوں سے ناجائز طور پر اموال لئے گئے وہ واپس کئے اور سرکاری بیت المال خالی ہوگیا اور آمدنی بہت محدود ہوگئی، تو ایک صوبہ کے گورنر نے ان کی خدمت میں خط لکھا کہ بیت المال کی آمدنی بہت گھٹ گئی ہے، فکر ہے کہ حکومت کے کاروبار کس طرح چلیں گے، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے جواب میں یہی آیت تحریر فرما دی، لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ اور لکھا کہ تم سے پہلے لوگوں نے ظلم و جور کے ذریعہ جتنا خزانہ بھرا تھا تم اس کے بالمقابل عدل و انصاف قائم کرکے اپنے خزانہ کو کم کرلو اور کوئی پرواہ نہ کرو ہماری حکومت کے کام اسی کم مقدار سے پورے ہوں گے۔
یہ آیت اگرچہ ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے کہ اعداد و شمار کی کمی زیادتی کوئی چیز نہیں، کثرت و قلت سے کسی چیز کی اچھائی یا برائی کو نہیں جانچا جاسکتا، انسانوں کے سر پر ہاتھ شمار کرکے اکیاون (51) ہاتھوں کو اننچاس (49) کے مقابلہ میں حق و صداقت کا معیار نہیں کہا جاسکتا۔
بلکہ اگر دنیا کے ہر طبقہ کے حالات پر ذرا بھی نظر ڈالی جائے تو سارے عالم میں بھلائی کی مقدار اور تعداد کم اور برائی کی تعداد میں کثرت نظر آئے گی، ایمان کے مقابلہ میں کفر، تقویٰ و طہارت اور دیانت و امانت کے مقابلہ میں فسق و فجور، عدل و انصاف کے مقابلہ میں ظلم و جور، علم کے مقابلہ میں جہل، عقل کے مقابلہ میں بےعقلی کی کثرت کا مشاہدہ ہوگا، جس سے اس کا یقین لازمی ہوجاتا ہے کہ کسی چیز یا کسی جماعت کی تعدادی کثرت اس کے اچھے یا حق پر ہونے کی قطعاً دلیل نہیں ہوسکتی، بلکہ کسی چیز کی اچھائی اور بہتری اس چیز اور اس جماعت کے ذاتی حالات و کیفیات پر دائر ہوتی ہے، حالات و کیفیات اچھی ہیں تو وہ اچھی اور بری ہیں تو بری ہیں، قرآن کریم نے اسی حقیقت کو وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ کے الفاظ میں واضح فرما دیا ہے۔
ہاں عدد کی کثرت کو اسلام نے بھی بعض مواقع میں فیصلہ کن قرار دیا ہے وہ اس جگہ جہاں قوت دلیل اور ذاتی خوبیوں کے موازنہ کا فیصلہ کرنے والا کوئی صاحب اقتدار حاکم نہ ہو، ایسے موقع پر عوام کا جھگڑا چکانے کے لئے عددی کثرت کو ترجیح دے دیجاتی ہے، جیسے نصب امام کا مسئلہ ہے، وہاں کوئی امام و امیر فیصلہ کرنے والا موجود نہیں، اس لئے کثرت رائے کو بعض دفعہ قطع نزاع کے لئے ترجیح دے دیگئی، یہ ہرگز نہیں کہ جس چیز کو زیادہ تعداد کے لوگوں نے اختیار کرلیا وہی چیز حلال اور جائز اور حق ہے۔
آخر آیت میں ارشاد فرمایا فاتَّقُوا اللّٰهَ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ، یعنی اے عقل والو اللہ سے ڈرو، جس میں اشارہ فرما دیا کہ کسی چیز کی تعدادی کثرت کا مرغوب ہونا یا کثرت کو بمقابلہ قلت کے حق و صحیح کا معیار قرار دینا عقلاء کا کام نہیں، اسی لئے عقلاء کو خطاب کرکے ان کو اس غلط رویہ سے روکنے کے لئے فاتقوا اللّٰہ کا حکم دیا گیا۔
Top