Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ
: دن
يَجْمَعُ
: جمع کرے گا
اللّٰهُ
: اللہ
الرُّسُلَ
: رسول (جمع)
فَيَقُوْلُ
: پھر کہے گا
مَاذَآ
: کیا
اُجِبْتُمْ
: تمہیں جواب ملا
قَالُوْا
: وہ کہیں گے
لَا عِلْمَ
: نہیں خبر
لَنَا
: ہمیں
اِنَّكَ
: بیشک تو
اَنْتَ
: تو
عَلَّامُ
: جاننے والا
الْغُيُوْبِ
: چھپی باتیں
جس دن اللہ جمع کرے گا سب پیغمبروں کو پھر کہے گا تم کو کیا جواب ملا تھا وہ کہیں گے ہم کو خبر نہیں تو ہی ہے چھپی باتوں کو جاننے والا،
ربط آیات
اوپر احکام مختلفہ کا ذکر ہوا اور درمیان میں ان پر عمل کی ترغیب اور ان کی مخالفت پر ترغیب فرمائی گئی، اسی کی تاکید کے لئے اگلی آیت میں قیامت کے ہولناک واقعات یاد دلاتے ہیں، تاکہ اطاعت کا زیادہ باعث اور مخالفت سے زیادہ مانع ہو اور اکثر طرز قرآن مجید کا یہی ہے، پھر ختم سورت میں اہل کتاب کا مکالمہ ذکر فرمایا ہے، جو ماقبل متعدد آیات میں مذکور ہوچکا، جس سے مقصد اہل کتاب کو حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق بعض مضامین سنانا ہے جن سے ان کی عبدیت کا اثبات اور الوہیت کی نفی ہے (اگرچہ اس مخاطبت کا وقوع قیامت میں ہوگا)۔
خلاصہ تفسیر
(وہ دن بھی کیسا ہولناک ہوگا) جس روز اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو (مع ان کی امتوں کے) جمع کریں گے پھر (ان امتوں میں جو عاصی ہوں گے بغرض توبیخ ان کے سنانے کو ان پیغمبروں سے) ارشاد فرمائیں گے کہ تم کو (ان امتوں کی طرف سے) کیا جواب ملا تھا، وہ عرض کریں گے کہ (ظاہری جواب تو ہم کو معلوم ہے اور اس کو بیان بھی کردیں گے، لیکن ان کے دل میں جو کچھ ہو اس کی) ہم کو کچھ خبر نہیں (اس کو آپ ہی جانتے ہیں کیونکہ) آپ بیشک پوشیدہ باتوں کے پورے جاننے والے ہیں (مطلب یہ کہ ایک دن ایسا ہوگا اور اعمال و احوال کی تفتیش ہوگی، اس لئے تم کو مخالفت و معصیت سے ڈرتے رہنا چاہیئے، اور اسی روز عیسیٰ ؑ سے ایک خاص گفتگو ہوگی) جبکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ اے عیسیٰ بن مریم میرا انعام یاد کرو (تاکہ لذت تازہ ہو) جو تم پر اور تمہاری والدہ پر (مختلف اوقات میں مختلف صورتوں سے ہوا ہے مثلاً) جب کہ میں تم کو روح القدس (یعنی جبرئیل علیہ السلام) سے امداد اور تائید دی (اور) تم آدمیوں سے (دونوں حالتوں میں یکساں) کلام کرتے تھے (ماں کی) گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی (دونوں کلاموں میں کچھ تفاوت نہ تھا) اور جب کہ میں نے تم کو (آسمانی) کتابیں اور سمجھ کی باتیں اور (بالخصوص) توریت و انجیل تعلیم کیں، اور جب کہ تم گارے سے ایک شکل بناتے تھے، جیسے پرندہ کی شکل ہوتی ہے میرے حکم سے پھر تم اس (مصنوعی ہیئت) کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ (سچ مچ کا جاندار) پرندہ بن جاتا تھا، میرے حکم سے اور تم اچھا کردیتے تھے مادرزاد اندھے کو اور برص (جذام) کے بیمار کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو (قبروں سے) نکال (اور جلا کر) کھڑا کرلیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل (میں سے جو آپ کے مخالف تھے ان) کو تم سے (یعنی تمہارے قتل و اہلاک سے) سے باز رکھا جب (انہوں نے تم کو ضرر پہنچانا چاہا جبکہ) تم ان کے پاس (اپنی نبوت کی) دلیلیں (معجزات) لے کر آئے تھے پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ (معجزات) بجز کھلے جادو کے اور کچھ بھی نہیں۔
معارف و مسائل
قیامت میں انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام سے سب سے پہلے سوال ہوگا
(قولہٰ تعالیٰ) يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ، قیامت میں اگرچہ اول سے آخر تک پیدا ہونے والے تمام انسان ایک کھلے میدان میں کھڑے ہوں گے، اور کسی خطہ، کسی ملک اور کسی زمانہ کا انسان ہو وہ اس میدان میں حاضر ہوگا۔ اور سب سے ان کے عمر بھر کے اعمال کا حساب لیا جائے گا، لیکن بیان میں خصوصیت کے ساتھ انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا گیا، يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ، یعنی اس دن کو یاد کرو، جس دن اللہ تعالیٰ سب رسولوں کو حساب کے لئے جمع فرمائیں گے، مراد یہ ہے کہ جمع تو سارے عالم کو کیا جائے گا، مگر سب سے پہلے سوال انبیاء (علیہم السلام) سے ہوگا، تاکہ پوری مخلوق دیکھ لے، کہ آج کے دن کوئی حساب اور سوال و جواب سے مستثنیٰ نہیں، پھر رسولوں سے جو سوال کیا جائے گا وہ یہ ہے کہ ماذآ اُجِبْتُمْ ، یعنی جب آپ لوگوں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے دین حق کی طرف بلایا تو ان لوگوں نے آپ کو کیا جواب دیا تھا ؟ اور کیا انہوں نے آپ کے بتلائے ہوئے احکام پر عمل کیا ؟ یا انکار و مخالفت ؟
اس سوال کے مخاطب اگرچہ انبیاء (علیہم السلام) ہوں گے، لیکن در حقیقت سنانا ان کی امتوں کو مقصود ہوگا، کہ امتوں نے جو اعمال نیک یا بد کئے ہیں ان کی شہادت سب سے پہلے ان کے رسولوں سے لی جائے گی، امتوں کے لئے یہ وقت بڑا نازک ہوگا، کہ وہ تو اس ہوش ربا ہنگامہ میں انبیاء (علیہم السلام) کی شفاعت کے متوقع ہوں گے۔ ادھر انبیاء (علیہم السلام) ہی سے ان کے متعلق یہ سوال ہوجائے گا تو ظاہر ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کوئی غلط یا خلاف واقع بات تو کہہ نہیں سکتے، اس لئے مجرموں اور گنہگاروں کو اندیشہ یہ ہوگا کہ جب خود انبیاء (علیہم السلام) ہی ہمارے جرائم کے شاہد بنیں گے، تو اب کون ہے جو کوئی شفاعت یا مدد کرسکے۔
انبیاء (علیہم السلام) اس سوال کا جواب یہ دیں گےقَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا، یعنی ہمیں ان کے ایمان و عمل کا کوئی علم نہیں، آپ خود ہی تمام غیب کی چیزوں سے پورے باخبر ہیں۔
ایک شبہ کا ازالہ
یہاں سوال یہ ہے کہ ہر رسول کی امت کے وہ لوگ جو ان کی وفات کے بعد پیدا ہوئے ان کے بارے میں تو انبیاء (علیہم السلام) کا یہ جواب صحیح اور صاف ہے، کہ ان کے ایمان و عمل سے وہ باخبر نہیں، کیونکہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں، لیکن ایک بہت بڑی تعداد امت میں ان لوگوں کی بھی تو ہے جو خود انبیاء (علیہم السلام) کی انتھک کوششوں سے انہی کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے، اور پھر ان کے احکام کی پیروی ان کے سامنے کرتے رہے، اسی طرح وہ کافر جنہوں نے انبیاء کی بات نہ مانی اور مخالفت دشمنی سے پیش آئے، ان کے بارے میں یہ کہنا کیسے صحیح ہوگا کہ ہمیں ان کے ایمان و عمل کا علم نہیں، تفسیر بحر محیط میں ہے کہ امام ابو عبداللہ رازی رحمة اللہ علیہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں، ایک علم جس کے معنی یقین کامل کے ہیں، اور دوسرے ظن یعنی غلبہ گمان، اور ظاہر ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کے سامنے ہونے کے باوجود اس کے ایمان و عمل کی گواہی اگر دے سکتا ہے تو محض ظن، یعنی غلبہ گمان کے اعتبار سے دے سکتا ہے، ورنہ دلوں کا راز اور حقیقی ایمان جس کا تعلق دل سے ہے وہ تو کسی کو یقینی طور پر بغیر وحی الٓہی کے معلوم نہیں ہوسکتا، ہر امت میں منافقین کے گروہ رہے ہیں، جو ظاہر میں ایمان بھی لاتے تھے اور احکام کی پیروی بھی کرتے تھے، مگر ان کے دلوں میں ایمان نہ تھا، اور نہ پیروی کا کوئی جذبہ، وہاں جو کچھ تھا سب ریاکاری تھی، ہاں دنیا کے تمام احکام ظاہر افعال پر دائر ہوتے تھے، جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے اور احکام خداوندی کا اتباع کرے، اور خلاف اسلام و ایمان اس سے کوئی قول و فعل ثابت نہ ہو، انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتیں اس کو مومن صالح کہنے پر مجبور تھے، خواہ وہ دل میں مومن مخلص ہو یا منافق اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا
نحن نحکم بالظواہم واللّٰہ متولی السرائر
”یعنی ہم تو ظاہر اعمال پر حکم جاری کرتے ہیں، دلوں کے مخفی رازوں کا متولی خود اللہ جل شانہ ہے“۔
اسی ضابطہ کے تحت دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائب خلفاء و علماء ظاہری اعمال پر حسن ظن کے مطابق کسی کے مومن صالح ہونے کی شہادت دے سکتے تھے لیکن آج وہ عالم دنیا جس کا سارا مدار ظن و گمان پر تھا ختم ہوچکا، یہ محشر کا میدان ہے جہاں بال کی کھال نکالی جائے گی، حقائق کو آشکار کیا جائے گا، مجرموں کے مقابلہ میں پہلے دوسرے لوگوں سے شہادتیں لی جائیں گی، ان سے اگر مجرم مطمئن نہ ہوا اور اپنے جرم کا اعتراف نہ کیا تو خاص قسم کے سرکاری گواہ برؤے کار لائے جائیں گے، ان کے منہ اور زبان پر تو مہر سکوت لگا دی جائے گی، اور مجرم کے ہاتھوں پاؤں اور کھال سے گواہی لی جائے گی، وہ ہر فعل کی پوری حقیقت بیان کردیں گے، (آیت) الیوم نختم علیٰ۔ اس وقت انسانوں کو معلوم ہوگا کہ میرے تمام اعضاء رب العالمین کی خفیہ پولیس تھے، ان کے بیان کے بعد انکار کی کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
خلاصہ یہ کہ اس عالم کا کوئی حکم محض ظن وتخمین پر نہیں چلے گا، بلکہ علم و یقین پر ہر چیز کا مدار ہوگا، اور یہ ابھی معلوم ہوچکا کہ کسی شخص کے ایمان و عمل کا حقیقی اور یقینی علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، اس لئے انبیاء (علیہم السلام) سے جب محشر میں یہ سوال ہوگا کہ ماذآ اُجِبْتُمْ ؟ تو وہ اس سوال کی حقیقت کو پہچان لیں گے کہ یہ سوال عالم دنیا میں نہیں ہو رہا جس کا جواب ظن کی بنیاد پر دیا جاسکے، بلکہ یہ سوال محشر میں ہو رہا ہے، جہاں یقین کے سوا کوئی بات چلنے والی نہیں، اس لئے ان کا یہ جواب کہ ہمیں ان کے متعلق کوئی علم نہیں، یعنی علم یقینی نہیں بالکل بجا اور درست ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب، انبیاء (علیہم السلام) کی انتہائی شفقت کا ظہور
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امتوں کے قبول و عدم قبول، اطاعت یا نافرمانی کے جو واقعات ان کے سامنے پیش آئے ان سے جس طرح کا علم بظن غالب ان کو حاصل ہوا، اس سوال کے جواب میں وہ تو بیان کردینا چاہئے تھا، صرف اس علم کے درجہ یقین کا حوالہ اللہ تعالیٰ پر کیا جاسکتا ہے، مگر یہاں انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی معلومات اور پیش آمدہ واقعات کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا، علم الٓہی کے حوالے کر کے خاموش ہوگئے۔
حکمت اس میں یہ تھی کہ انبیاء (علیہم السلام) اپنی امتوں اور عام خلق اللہ پر بےانتہا شفیق ہوتے ہیں، ان کے متعلق ایسی کوئی بات اپنی زبان سے کہنا پڑتا، یہاں علم یقین نہ ہونے کا عذر موجود تھا، اس عذر سے کام لے کر اپنی زبانوں سے اپنی امتوں کے خلاف کچھ کہنے سے بچ سکتے تھے اس طرح اس سے بچ گئے۔
محشر میں پانچ چیزوں کا سوال
خلاصہ یہ کہ اس آیت میں قیامت کے ہولناک منظر کی ایک جھلک سامنے کردی گئی ہے کہ موقف حساب میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ برگزیدہ و مقبول رسول کھڑے ہیں، اور لرز رہے ہیں تو دوسروں کا کیا حال ہوگا، اس لئے اس روز کی فکر آج سے چاہئے، اور فرصت عمر کو اس حساب کی تیاری کے لئے غنیمت سمجھنا چاہئے۔
ترمذی شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
لا تزول قدما ابن ادم۔ الخ۔
”یعنی کسی آدمی کے قدم محشر میں اس وقت تک آگے نہ سرک سکیں گے جب تک اس سے پانچ سوالوں کا جواب نہ لے لیا جائے، ایک یہ کہ اس نے اپنی عمر کے طویل و کثیر لیل و نہار کس کام میں خرچ کئے، دوسرے یہ کہ خصوصیت سے جوانی کا زمانہ جو قوت عمل کا زمانہ تھا، اس کو کن کاموں میں خرچ کیا، تیسری یہ کہ ساری عمر میں جو مال اس کو حاصل ہوا وہ کہاں اور کن حلال یا حرام طریقوں سے کمایا، چوتھے یہ کہ مال کو کن جائز یا ناجائز کاموں میں خرچ کیا، پانچویں یہ کہ اپنے علم پر کیا عمل کیا ؟“
اللہ تعالیٰ نے غایت رحمت و شفقت سے اس امتحان کا پرچہ سوالات بھی پہلے ہی نبی کریم ﷺ کے ذریعہ امت کو بتلا دیا، اب ان کا کام صرف اتنا رہ گیا کہ ان سوالات کا حل سیکھے، اور محفوظ رکھے، امتحان سے پہلے ہی سوالات بتلا دینے کے بعد بھی کوئی ان میں فیل ہوجائے تو اس سے زیادہ کون محروم ہوسکتا ہے۔
Top