Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 118
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ١ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
اِنْ : اگر تُعَذِّبْهُمْ : تو انہیں عذاب دے فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عِبَادُكَ : تیرے بندے وَاِنْ : اور اگر تَغْفِرْ : تو بخشدے لَهُمْ : ان کو فَاِنَّكَ : تو بیشک تو اَنْتَ : تو الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ بندے ہیں تیرے اور اگر تو ان کو معاف کر دے تو تو ہی ہے زبردست حکمت والا۔
قولہ تعالیٰ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ یعنی آپ اپنے بندوں پر ظلم اور بیجا سختی نہیں کرسکتے، اس لئے اگر ان کو سزا دیں گے تو عین عدل و حکمت پر مبنی ہوگی، اور فرض کیجئے معاف کردیں تو یہ معافی بھی ازراہ عجز نہ ہوگی، کیونکہ آپ عزیز (زبردست اور غالب) ہیں، اس لئے کوئی مجرم آپ کے قبضہ قدرت سے نکل کر بھاگ نہیں سکتا، کہ اس پر آپ قابو نہ پاسکیں، اور چونکہ حکیم (حکمت والے) ہیں، اس لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی مجرم کو یونہی بےموقع چھوڑ دیں، بہر حال جو فیصلہ آپ ان مجرمین کے حق میں کریں گے وہ بالکل حکیمانہ اور قادرانہ ہوگا۔ حضرت مسیح ؑ کا یہ کلام چونکہ محشر میں ہوگا جہاں کفار کے حق میں کوئی شفاعت اور استدعاء رحم وغیرہ نہیں ہو سکتی، اس لئے حضرت مسیح نے ”عزیر حکیم“ کی جگہ ”غفور رحیم“ وغیرہ صفات کو اختیار نہیں فرمایا، برخلاف اس کے حضرت ابراہیم ؑ نے دنیا میں اپنے پروردگار سے عرض کیا تھا، (آیت) رب انھن اضللن ، (اے پروردگار ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو گمراہ کردیا تو جو ان میں سے میرے تابع ہوا وہ میرا آدمی ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو پھر تو غفور رحیم ہے) یعنی ابھی موقع ہے کہ تو اپنی رحمت سے آئندہ ان کو توبہ اور رجوع الی الحق کی توفیق دے کر پچھلے گناہوں کو معاف فرما دے (فوائد عثمانی)
ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے بروایت ابوذر ؓ نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک مرتبہ پوری رات ایک ہی آیت پڑھتے رہے، اور وہ آیت اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ، ہے پھر جب صبح ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ یہی آیت پڑھتے رہے، رکوع اسی سے اور سجدے اسی سے کرتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، تو فرمایا کہ میں نے اپنے پروردگار سے اپنے واسطے شفاعت کی درخواست کی تو مجھے عطا فرمائی، اور وہ انشاء اللہ تعالیٰ ملنے والی ہے، ایسے شخص کے واسطے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو۔
دوسری روایت میں آتا ہے کہ آپ نے مذکورہ آیت پڑھ کر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور کہا اللھم امتی یعنی میرے پاک پروردگار میری امت کی طرف نظر رحمت فرما، اور آپ رونے لگے، اس پر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ جبرئیل امین رونے کی وجہ دریافت فرمائی، تو آپ ﷺ نے جبرئیل امین کو اپنے مذکورہ قول سے آگاہ کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل سے فرمایا کہ پھر جاؤ اور (حضرت) محمد ﷺ سے کہہ دو کہ ہم عنقریب تیری امت کے بارے میں تم کو رضا مند کردیں گے، اور تم کو ناخوش نہ کریں گے۔
Top