Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اے ایمان والو حلال نہ سمجھو اللہ کی نشانیوں کو اور نہ ادب والے مہینہ کو اور نہ اس جانور کو جو نیاز کعبہ کی ہو اور نہ جن کے گلے پٹا ڈال کر لیجائیں کعبہ کو اور نہ آنیوالوں کو حرمت والے گھر کی طرف جو ڈھونڈھتے ہیں فضل اپنے رب کا اور اس کی خوشی اور جب احرام سے نکلو تو شکار کرلو اور باعث نہ ہو تم کو اس قوم کی دشمنی جو کہ تم کو روکتی تھی حرمت والی مسجد سے اس پر کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور ظلم پر اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
آیت نمبر 2
ربط آیات
سورة مائدہ کی پہلی آیت میں معاہدات کے پورا کرنے کی تاکید تھی۔ ان معاہدات میں سے ایک معاہدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حلال و حرام کی پابندی کی جائے۔ اس دوسری آیت میں اس معاہدہ کی دو اہم دفعات کا بیان ہے۔ ایک شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کی بیحرمتی سے بچنے کی ہدایت، دوسرے اپنے اور غیر دوست اور دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ اور ظلم کا بدلہ ظلم سے لینے کی ممانعت۔
اس آیت کے نزول کا سبب چند واقعات ہیں۔ پہلے ان کو سن لیجئے تاکہ آیت کا مضمون پوری طرح دلنشیں ہوسکے۔ ایک واقعہ حدیبیہ کا ہے جس کی تفصیل قرآن نے دوسری جگہ بیان فرمائی ہے۔ وہ یہ کہ ہجرت کے چھٹے سال میں رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام نے ارادہ کیا کہ عمرہ کریں۔ آنحضرت ﷺ ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ساتھ احرام عمرہ باندھ کر بقصد مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ مکہ کے قریب مقام حدیبیہ میں پہنچ کر مکہ والوں کو اطلاع دی کہ ہم کسی جنگ یا جنگی مقصد کے لئے نہیں بلکہ صرف عمرہ کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔ ہمیں اس کی اجازت دو۔ مشرکین مکہ نے اجازت نہ دی۔ اور بڑی سخت اور کڑی شرطوں کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ اس وقت سب اپنے احرام کھول دیں اور واپس جائیں۔ آئندہ سال عمرہ کے لئے اس طرح آئیں کہ ہتھیار ساتھ نہ ہوں۔ صرف تین روز ٹھہریں۔ اور عمرہ کرکے چلے جائیں۔ اور بھی بہت سی ایسی شرائط تھیں جن کا تسلیم کرلینا بظاہر مسلمانوں کے وقار و عزت کے منافی تھا۔ رسول کریم ﷺ کے حکم پر سب مطمئن ہو کر واپس ہوگئے۔ پھر 7 ھ میں دوبارہ ماہ ذی قعدہ میں انہیں شرائط کی پابندی کے ساتھ یہ عمرہ قضا کیا گیا۔ بہر حال واقعہ حدیبیہ اور ان توہین آمیز شرائط نے صحابہ کے قلوب میں مشرکین مکہ کی طرف سے انتہائی نفرت و بغض کا بیج بو دیا تھا۔ دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ مشرکین مکہ میں سے حطیم بن ہند اپنا مال تجارت لے کر مدینہ طیبہ آیا اور مال فروخت کرنے کے بعد اپنا سامان اور آدمی مدینہ سے باہر چھوڑ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور منافقانہ طور پر اپنا ارادہ اسلام لانے کا ظاہر کیا تاکہ مسلمان اس سے مطمئن ہوجائیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے اس کے آنے سے پہلے ہی بذریعہ وحی خبر پاکر صحابہ کرام کو بتلا دیا تھا کہ ہمارے پاس ایک شخص آنے والا ہے جو شیطان کی زبان سے کلام کرے گا۔ اور جب یہ واپس گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ شخص کفر سے آیا اور دھوکہ و غداری کے ساتھ لوٹا ہے، یہ شخص آنحضرت ﷺ کی مجلس سے نکل کر سیدھا مدینہ سے باہر پہنچا۔ جہاں اہل مدینہ کے جانور چر رہے تھے ان کو ہنکا کر ساتھ لے گیا۔ صحابہ کرام کو اس کی اطلاع کچھ دیر میں ہوئی۔ تعاقب کے لئے نکلے تو وہ ان کی زد سے باہر جا چکا تھا۔ پھر جب ہجرت کے ساتویں سال آنحضرت ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ حدیبیہ کی قضا کے لئے جا رہے تھے تو دور سے تلبیہ کی آواز سنی اور دیکھا کہ یہی حطیم بن ہند اہل مدینہ کے ان جانوروں کو جو مدینہ سے لایا تھا بطور قربانی کے اپنے ساتھ لئے ہوئے عمرہ کرنے جا رہا ہے۔ اس وقت صحابہ کرام کا قصد ہوا کہ اس پر حملہ کرکے اپنے جانور چھین لیں اور اس کو یہیں ختم کردیں۔
تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ ہجرت کے آٹھویں سال رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ فتح ہوا، اور تقریباً پورے عرب پر اسلامی قبضہ ہوگیا۔ اور مشرکین مکہ کو رسول کریم ﷺ نے بغیر کسی انتقام کے آزاد فرما دیا۔ وہ آزادی کے ساتھ اپنے سب کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے جاہلانہ طرز پر حج وعمرہ کی رسوم بھی ادا کرتے رہے۔ اس وقت بعض صحابہ کرام کے دلوں میں واقعہ حدیبہ کا انتقام لینے کا خیال آیا کہ انہوں نے ہمیں جائز اور حق طریقہ پر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، ہم ان کو ناجائز اور غلط طریق کے عمرہ و حج کو کیوں آزاد چھوڑیں، ان پر حملہ کریں، ان کے جانور چھین لیں اور ان کو ختم کردیں۔
یہ واقعات ابن جریر نے بروایت عکرمہ و سدّی نقل کئے ہیں۔ یہ چند واقعات تھے کہ جن کی بنا پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی کہ شعائر اللہ کی تعظیم تمہارا اپنا فرض ہے۔ کسی دشمن کے بغض و عداوت کی وجہ سے اس میں خلل ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں۔ اشہر حرم میں قتل و قتال بھی جائز نہیں۔ قربانی کے جانوروں کو حرم تک جانے سے روکنا یا ان کا چھین لینا بھی جائز نہیں اور جو مشرکین احرام باندھ کر اپنے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل و رضا حاصل کرنے کے قصد سے چلے ہیں۔ (اگرچہ بوجہ کفر ان کا یہ خیال خام ہے تاہم، شعائر اللہ کی حفاظت و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے کوئی مزاحمت نہ کی جائے۔ نیز وہ لوگ جنہوں نے تمہیں عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ ان کے بغض و عداوت کا انتقام اس طرح لینا جائز نہیں کہ مسلمان ان کو مکہ میں داخل ہونے یا شعائر حج ادا کرنے سے روک دیں۔ کیونکہ یہ ان کے ظلم کے بدلہ میں ہماری طرف سے ظلم ہوجائے گا، جو اسلام میں روا نہیں۔ اب آیت کی پوری تفسیر دیکھئے۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو بےحرمتی نہ کرو خدا تعالیٰ (کے دین) کی نشانیوں کی (یعنی جن چیزوں کے ادب کی حفاظت کے واسطے خدا تعالیٰ نے کچھ احکام مقرر کئے ہیں۔ ان احکام کے خلاف کرکے ان کی بےادبی نہ کرو، مثلاً حرم اور احرام کا یہ ادب مقرر کیا ہے کہ اس میں شکار نہ کرو تو شکار کرنا بےادبی اور حرام ہوگا) اور نہ حرمت والے مہینے کی (بےادبی کرو کہ اس میں کافروں سے لڑنے لگو) اور نہ حرم میں قربانی ہونے والے جانور کی (بےادبی کرو کہ اس سے تعرض کرنے لگو) اور نہ ان جانوروں کی (بےادبی کرو) جن کے گلے میں (اس نشانی کے لئے) پٹے پڑے ہوں (کہ یہ اللہ کی نیاز ہیں حرم میں ذبح ہوں گے) اور نہ ان لوگوں کی (بےحرمتی کرو) جو کہ بیت الحرام (یعنی بیت اللہ) کے قصد سے جا رہے ہوں (اور) اپنے رب کے فضل اور رضا مندی کے طالب ہوں (یعنی ان چیزوں کے ادب سے کافروں کے ساتھ بھی تعرض مت کرو) اور (اوپر کی آیت میں جو احرام کے ادب سے شکار کو حرام فرمایا گیا ہے وہ احرام ہی تک ہے ورنہ) جس وقت تم احرام سے باہر آجاو تو (اجازت ہے کہ) شکار کیا کرو (بشرطیکہ وہ شکار حرم میں نہ ہو) اور (اوپر جن چیزوں کے تعرض سے منع کیا گیا ہے اس میں) ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم سے جو اس سبب سے بغض ہے کہ انہوں نے (تم کو سال حدیبیہ میں) مسجد حرام (میں جانے) سے روک دیا تھا (مراد کفار قریش ہیں) وہ (بغض) تمہارے لئے اس کا باعث ہوجاوے کہ تم (شرع کی) حد سے نکل جاو۔ (یعنی احکام مذکورہ کے خلاف کر بیٹھو، ایسا نہ کرنا) اور نیکی اور تقویٰ (کی باتوں میں) ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو (مثلاً یہ احکام ہیں کہ ان میں دوسروں کو بھی عمل کرنے کی ترغیب دو) اور گناہ اور زیادتی (کی باتوں میں) ایک دوسرے کی اعانت مت کرو (مثلاً یہی احکام ہیں اگر کوئی ان کے خلاف کرنے لگے تو تم اس کی اعانت مت کرو) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو (کہ اس سے سب احکام کی پابندی سہل ہوجاتی ہے) بلاشبہ اللہ تعالیٰ (احکام کی مخالفت کرنے والے کو) سخت سزا دینے والے ہیں۔
معارف و مسائل
آیت کے پہلے جملے میں ارشاد ہے یا ایھا الذین آمنوا لاتحلوا شعائر اللہ یعنی اے ایمان والو اللہ کی نشانیوں کی بےحرمتی نہ کرو۔ اس میں شعائر جس کا ترجمہ نشانیوں سے کیا گیا ہے شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت، اسی لئے شعائر اور شعیرہ اس محسوس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی علامت ہو۔ شعائر اسلام ان اعمال و افعال کو کہا جائے گا جو عرفاً مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور محسوس و مشاہد ہیں جیسے نماز، اذان، حج، ختنہ اور سنت کے موافق داڑھی وغیرہ۔ شعائر اللہ کی تفسیر اس آیت میں مختلف الفاظ سے منقول ہے مگر صاف بات وہ ہے جو بحر محیط اور روح المعانی میں حضرت حسن بصری اور عطاء رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے اور امام جصاص نے اس کو تمام اقوال کے لئے جامع فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ شعائر اللہ سے مراد تمام شرائع اور دین کے مقرر کردہ واجبات و فرائض اور ان کی حدود ہیں۔ اس آیت میں لا تحلوا شعائر اللہ کے ارشاد کا یہی حاصل ہے کہ اللہ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو۔ اور شعائر اللہ کی بےحرمتی ایک تو یہ ہے کہ سرے سے ان احکام کو نظر انداز کردیا جائے۔ دوسرے یہ ہے کہ ان پر عمل تو کریں مگر ادھورا کریں، پورا نہ کریں۔ تیسرے یہ کہ مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرکے آگے بڑھنے لگیں۔ لا تحلوا شعائر اللہ میں ان تینوں صورتوں سے منع فرمایا گیا ہے۔
یہی ہدایت قرآن کریم نے دوسرے عنوان سے اس طرح ارشاد فرمائی ہے ومن یعظم تقوی القلوب۔ یعنی جو شخص اللہ کی حرمات کی تعظیم کرے تو وہ دلوں کے تقویٰ کا اثر ہے۔ آیت کے دوسرے جملہ میں شعائر اللہ کی ایک خاص قسم یعنی شعائر حج کی کچھ تفصیلات بتائی گئی ہیں۔
ارشاد ہےولا الشھر الحرام ورضواناً۔ یعنی شہر حرام میں قتل و قتال کرکے اس کی بےحرمتی نہ کرو۔ اشہر حُرُم وہ چار مہینے ہیں جن میں باہمی جنگ کرنا شرعاً حرام تھا۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب بعد میں یہ حکم جمہور علماء کے نزدیک منسوخ ہوگیا، نیز حرم مکہ میں قربان ہونے والے جانور اور خصوصاً وہ جن کے گلے قربانی کی علامت کے طور پر قلادہ ڈالا گیا ہے، ان کی بےحرمتی نہ کرو۔ ان جانوروں کی بےحرمتی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ان کو حرام تک پہنچنے سے روک دیا جائے یا چھین لیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ان سے قربانی کے علاوہ کوئی دوسرا کام سواری یا دودھ حاصل کرنے وغیرہ کا لیا جائے۔ آیت نے ان سب صورتوں کو ناجائز قرار دے دیا۔
پھر فرمایاولا امین البیت ورضواناً یعنی ان لوگوں کی بےحرمتی نہ کرو جو حج کے لئے مسجد الحرام کا قصد کرکے گھر سے نکلے ہیں۔ اور اس سفر سے ان کا مقصود یہ ہے کہ وہ اپنے رب کا فضل اور رضا حاصل کریں۔ ان لوگوں کی بےحرمتی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سفر میں ان سے مزاحمت نہ کی جائے۔ نہ کوئی تکلیف پہنچائی جائے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایاواذا حللتم فاصطادوا یعنی پہلی آیت میں بحالت احرام شکار کی جو ممانعت کی گئی ہے، اس کی حد بتلا دی گئی کہ جب تم احرام سے فارغ ہوجاؤ تو شکار کرنے کی ممانعت ختم ہوگئی۔ اب شکار کرسکتے ہو۔
آیت متذکرہ میں اس معاہدہ کے اہم جزء کا بیان ہو رہا ہے جو ہر انسان اور رب العالمین کے درمیان ہے۔ اس کے چند اجزاء کا یہاں تک بیان ہوا ہے۔ جس میں اول مطلقاً شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کی بےحرمتی سے بچنے کی ہدایت ہے اور پھر خاص طور پر ان شعائر اللہ کی کچھ تفصیلات ہیں جو حج سے متعلق ہیں۔ ان میں بقصد حج آنے والے مسافروں اور ان کے ساتھ آنے والے قربانی کے جانوروں سے کسی قسم کی مزاحمت نہ کرنے اور ان کی بےحرمتی سے بچنے کی ہدایت کی ہے۔
اس کے بعد معاہدہ کا دوسرا جز اس طرح ارشاد فرمایاولا یجر منکم شنان قوم ان صدوکم عن المسجدالحرام۔ یعنی جس قوم نے تم کو واقعہ حدیبیہ کے وقت مکہ میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ اور تم سخت غم و غصہ کے ساتھ ناکام واپس آرہے تھے۔ اب جبکہ تم کو قوت اور قدرت حاصل ہے تو ایسا نہ ہونا چاہیے کہ پچھلے واقعہ کے غم و غصہ اور بغض کا انتقام اس طرح لیا جائے کہ تم ان کو بیت اللہ اور مسجد حرام میں داخل ہونے اور حج کرنے سے روکنے لگو۔ کیونکہ یہ ظلم ہے۔ اور اسلام ظلم کا انتقام ظلم سے لینا نہیں چاہتا۔ بلکہ ظلم کے بدلہ میں انصاف کرنا اور انصاف پر قائم رہنا سکھلاتا ہے۔ انہوں نے اپنی قوت و اقتدار کے وقت مسلمانوں کو مسجد حرام میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے ظلماً روک دیا تھا۔ تو اس کا جواب یہ نہ ہونا چاہیے کہ اب مسلمان اپنے اقتدار کے وقت ان کو ان افعال حج سے روک دیں۔
قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ عدل و انصاف میں دوست و دشمن سب برابر ہونے چاہئیں تمہارا دشمن کیسا ہی سخت ہو اور اس نے تمہیں کیسی ہی ایذا پہنچائی ہو اس کا معاملہ بھی انصاف ہی کرنا تمہارا فرض ہے۔
یہ اسلام ہی کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ دشمنوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ان کے ظلم کا جواب ظلم سے نہیں بلکہ انصاف سے دینا سکھاتا ہے۔
باہمی تعاون و تناصر کا قرآنی اصول
ولا تعاونوا علی البر تا واللہ شدید العقاب۔ یہ سورة مائدہ کی دوسری آیت کا آخری جملہ ہے۔ اس میں قرآن حکیم نے ایک ایسے اصولی اور بنیادی مسئلہ کے متعلق ایک حکیمانہ فیصلہ دیا ہے جو پورے نظام عالم کی روح ہے۔ اور جس پر انسان کی ہر اصلاح و فلاح بلکہ خود اس کی زندگی اور بقا موقوف ہے وہ مسئلہ ہے باہمی تعاون و تناصر کا۔ ہر ذی ہوش انسان جانتا ہے کہ اس دنیا کا پورا انتظام انسانوں کے باہمی تعاون و تناصر پر قائم ہے۔ اگر ایک انسان دوسرے انسان کی مدد نہ کرے تو کوئی اکیلا انسان خواہ وہ کتنا ہی عقلمند یا کتنا ہی زور آور یا مالدار ہو، اپنی ضرورت زندگی کو تنہا حاصل نہیں کرسکتا۔ اکیلا انسان نہ اپنی غذا کے لئے غلہ اگانے سے لے کر کھانے کے قابل بنانے تک کے تمام مراحل کو طے کرسکتا ہے۔ نہ لباس وغیرہ کے لئے روئی کی کاشت سے لے کر اپنے بدن کے موافق کپڑا تیار کرنے تک بیشمار مسائل کا حل کرسکتا ہے اور نہ اپنے بوجھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتا ہے۔ غرض ہر انسان اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں دوسرے ہزاروں، لاکھوں انسانوں کا محتاج ہے۔ ان کے باہمی تعاون و تناصر سے ہی سارا دنیا کا نظام چلتا ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو یہ تعاون دنیوی زندگی ہی میں ضروری نہیں۔ مرنے سے لے کر قبر میں دفن ہونے تک کے سارے مراحل بھی اسی تعاون کے محتاج ہیں۔ بلکہ اس کے بعد بھی اپنے پیچھے رہنے والوں کی دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا محتاج رہتا ہے۔
حق جل شانہ، نے اپنی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ سے اس جہان کا ایسا محکم نظام بنایا ہے کہ ہر انسان کو دوسرے کا محتاج بنادیا۔ غریب آدمی پیسوں کے لئے مالدار کا محتاج ہے تو بڑے سے بڑا مالدار بھی محنت و مشقت کے لئے غریب مزدور کا محتاج ہے۔ سوداگر گاہکوں کا محتاج ہے۔ اور گاہک سوداگروں کا۔ مکان بنانے والا معمار، لوہار، بڑھئی کا محتاج ہے اور یہ سب اس کے محتاج ہیں۔ اگر یہ ہمہ گیر احتیاج نہ ہوئی اور تعاون محض اخلاقی برتری پر رہ جاتا تو کون کس کا کام کرتا۔ اس کا وہی حشر ہوتا جو عام اخلاقی قدروں کا اس دنیا میں ہو رہا ہے اور اگر یہ تقسیم کار کسی حکومت یا بین الاقوامی ادارہ کی طرف سے بصورت قانون کر بھی دی جاتی تو اس کا بھی وہی انجام ہوتا جو آج پوری دنیا کے قانون کا ہو رہا ہے کہ قانون ایکٹیوں میں محفوظ ہے۔ اور بازار اور دفاتر میں رشوت، بےجا رعایت، فرض ناشناسی اور بےعملی کا قانون چل رہا ہے۔ یہ محض حکیم الحکماء، قادر مطلق کا الہیٰ نظام ہے کہ مختلف لوگوں کے دلوں میں مختلف کاروبار کی امنگ اور صلاحیت پیدا کردی۔ انہوں نے اپنی اپنی زندگی کا محور اسی کام کو بنا لیا
ہر یکے رابہر کارے ساختند
میل اور ادریش انداختند !
ورنہ اگر کوئی بین الاقوامی ادارہ یا کوئی حکومت لوگوں میں تقسیم کار کرتی اور کسی جماعت کو بڑھئی کے کام کے لئے، کسی کو لوہار کے کام کے لئے، کسی کو خاکروب کے کام کے لئے، کسی کو پانی کے لئے، کسی کو خوراک کے لئے مقرر کرتی، تو کون اس کے حکم کی ایسی اطاعت کرتا کہ دن کا چین اور رات کی نیند خراب کرکے اس کام میں لگ جاتا۔
اللہ تعالیٰ جل شانہ، نے ہر انسان کو جس کام کے لئے پیدا کیا ہے اس کام کی رغبت اس کے دل میں ڈال دی۔ وہ بغیر کسی قانونی مجبوری کے اس خدمت ہی کو اپنی زندگی کا کام سمجھتا ہے اس کے ذریعہ اپنی روزی حاصل کرتا ہے۔ اس نظام محکم کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان کی ساری ضروریات چند ٹکے خرچ کرنے سے بآسانی حاصل ہوجاتی ہے۔ پکا پکایا کھانا، سلا سلایا کپڑا، بنا بنایا فرنیچر، تیار شدہ مکان سب کچھ ایک انسان کچھ پیسے خرچ کرکے حاصل کرلیتا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہوتا تو ایک کروڑ پتی انسان اپنی پوری دولت لٹا کر بھی گندم کا ایک دانہ حاصل نہ کرسکتا۔ اسی قانونی نظام کا نتیجہ ہے کہ آپ ہوٹل میں قیام پذیر ہو کر جس جس چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں اگر ان کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آٹا امریکہ کا، گھی پنجاب کا، گوشت سندھ کا، مصالحے مختلف ملکوں کے، برتن اور فرنیچر مختلف ملکوں کا، کام کرنے والے بیرے باورچی مختلف شہروں کے آپ کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اور ایک لقمہ جو آپ کے منہ تک پہنچا ہے اس میں لاکھوں مشینوں، جانوروں اور انسانوں نے کام کیا ہے۔ تب یہ آپ کے ذائقہ کو سنوار سکا ہے۔ آپ صبح گھر سے نکلے تین چار میل جانا ہے جس کی طاقت یا فرصت آپ کو نہیں۔ آپ کو اپنے کسی قریبی مقام میں ٹیکسی اور رکشہ یا بس کھڑی ہوئی ملے گی۔ جس کا لوہا آسٹریلیا کا، لکڑی برما کی، مشینری امریکہ کی، ڈرائیور فرنٹیر کا، کنڈکٹر یوپی کا۔ یہ کہاں کہاں کے سامان اور کہاں کہاں کی مخلوق آپ کی خدمت کے لئے کھڑی ہے کہ صرف چند پیسے دے کر آپ ان سب سے خدمت لے لیں۔ ان کو کس حکومت نے مجبور کیا ہے یا کس نے پابند کیا ہے کہ یہ ساری چیزیں آپ کے لئے مہیا کردیں۔ سوائے اس قانون قدرت کے جو قلوب کے مالک نے تکوینی طور پر ہر ایک کے دل پر جاری فرما دیا ہے۔
آج کل سوشلسٹ ممالک نے اس قدرتی نظام کو بدل کر ان چیزوں کو حکومت کی ذمہ داری بنا لیا۔ کہ کون انسان کیا کام کرے۔ اس کے لئے ان کو سب سے پہلے جبرو ظلم کے ذریعہ انسانی آزادی سلب کرنا پڑی جس کے نتیجہ میں ہزاروں انسانوں کو قتل کیا گیا۔ ہزاروں کو قید کیا گیا۔ باقی ماندہ انسانوں کو شدید جبروظلم کے ذریعہ مشین کے پرزوں کی طرح استعمال کیا۔ جس کے نتیجہ میں اگر کسی جگہ کچھ اشیاء کی پیداوار بڑھ بھی گئی تو انسانوں کی انسانیت ختم کرکے بڑھی۔ تو یہ سودا سستا نہیں پڑا۔ قدرتی نظام میں ہر انسان آزاد بھی ہے اور قدرتی تقسیم طبائع کی بنا پر خاص خاص کاموں کے لئے مجبور بھی اور وہ مجبوری بھی چونکہ اپنی طبیعت سے ہے۔ اس لئے اس کو کوئی بھی جبر محسوس نہیں کرتا۔ سخت سے سخت محنت اور ذلیل سے ذلیل کام کے لئے خود آگے بڑھنے والے اور کوشش کرکے حاصل کرنے والے ہر جگہ ہر زمانے میں ملتے ہیں۔ اور اگر کوئی حکومت ان کو اس کام کے لئے مجبور کرنے لگے تو یہ سب اس سے بھاگنے لگیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ساری دنیا کا نظام باہمی تعلق پر قائم ہے۔ لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ اگر جرائم، چوری، ڈاکہ، قتل و غاریگری وغیرہ کے لئے یہ باہمی تعاون ہونے لگے۔ چور اور ڈاکوؤں کی بڑی بڑی اور منظم قوی جماعتیں بن جائیں تو یہی تعاون و تناصر اس عالم کے سارے نظام کو درہم برہم بھی کرسکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ باہمی تعاون ایک دو دھاری تلوار ہے جو اپنے اوپر بھی چل سکتی ہے۔ اور نظام عالم کو برباد بھی کرسکتی ہے۔ اور یہ عالم چونکہ خیروشر اور اچھے برے، نیک و بد کا ایک مرکب معجون ہے۔ اس لئے اس میں ایسا ہونا کچھ بعید بھی نہیں تھا کہ جرائم اور قتل و غارت یا نقصان رسانی کے لئے باہمی تعاون کی قوت استعمال کرنے لگیں۔ اور یہ صرف احتمال نہیں بلکہ واقعہ بن کر دنیا کے سامنے آگیا۔ تو اس کے رد عمل کے طور پر عقلائے دنیا نے اپنے تحفظ کے لئے مختلف نظریوں پر خاص خاص جماعتوں یا قوموں کی بنیاد ڈالی۔ کہ ایک جماعت یا ایک قوم کے خلاف جب کوئی دوسری جماعت یا قوم حملہ آور ہو تو یہ سب ان کے مقابلہ میں باہمی تعاون کی قوت کو استعمال کرکے مدافعت کرسکیں۔
قومیتوں کی تقسیم
عبد الکریم شہرستانی کی ملل و نحل میں ہے کہ شروع میں جب تک انسانی آبادی زیادہ نہیں تھی تو دنیا کے چار سمتوں کے اعتبار سے چار قومیں بن گئیں۔ مشرقی، مغربی، جنوبی، شمالی۔ ان میں سے ہر ایک سمت کے لوگ اپنے آپ کو ایک قوم اور دوسروں کو دوسری قوم سمجھنے لگے۔ اور اسی بنیاد پر تعاون و تناصر قائم کرلیا۔ اس کے بعد جب آبادی زیادہ پھیلی تو ہر سمت کے لوگوں میں نسبی اور خاندانی بنیادوں پر قومیت اور اجتماعیت کا تصور ایک اصول بن گیا۔ عرب کا سارا نظام اسی نسبی اور قبائلی بنیاد پر تھا۔ اسی پر جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ بنوہاشم ایک قوم، بنو تمیم دوسری قوم، بنو خزاعہ تیسری قوم۔ ہندوستان کے ہندوؤں میں تو آج تک اونچی ذات اور نیچی ذات کی تفریق اسی طرح چل رہی ہے۔
یورپین اقوام کے دور جدید نے نہ کوئی اپنا نسب باقی رکھا۔ نہ دنیا کے انساب کو کچھ سمجھا، جب دنیا میں ان کا عروج ہوا تو نسبی اور قبائلی قومیتیں اور تقسیمیں ختم کرکے پھر علاقائی اور صوبائی، وطنی اور لسانی بنیادوں پر انسانیت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے الگ الگ قومیں کھڑی کردی گئیں۔ اور آج یہی سکہ تقریباً ساری دنیا میں چل رہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ جادو مسلمانوں پر بھی چل گیا۔ عربی، ترکی، عراقی، سندھی کی تقسیمیں ہی نہیں بلکہ ان میں بھی تقسیم در تقسیم ہو کر مصری، شامی، حجازی، نجدی اور پنچابی، بنگالی، سندھی، ہندی وغیرہ کی الگ الگ قوم بن گئی۔ حکومت کے سب کاروبار انھیں بنیادوں پر چلائے گئے۔ یہاں تک کہ یہ صوبائی عصبیت ان کے رگ و پے میں سرایت کرگئی۔ اور ہر صوبہ کے لوگوں کا تعاون و تناصر اسی بنیاد پر ہونے لگا۔
قومیت اور اجتماعیت کے لئے قرآنی تعلیم
قرآن کریم نے انسان کو پھر بھولا ہوا سبق یار دلایا۔ سورة نساء کی شروع آیات میں یہ واضح کردیا کہ تم سب انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہو۔ رسول کریم ﷺ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے حجة الوداع کے خطبہ میں اعلان کردیا کہ کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت کا مدار صرف تقویٰ اور اطاعت خدائے تعالیٰ پر ہے۔ اس قرآنی تعلیم نے انما المؤ منون اخوة کا اعلان کرکے حبشہ کے کالے بھجنگ کو سرخ ترکی اور رومی کا، عجم کی نچلی ذات کے انسانوں کو عرب کے قریشی اور ہاشمی کا بھائی بنادیا۔ قومیت اور برادری اس بنیاد پر قائم کی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ماننے والے ایک قوم۔ اور نہ ماننے والے دوسری قوم ہیں۔ یہی وہ بنیاد تھی جس نے ابوجہل اور ابولہب کے خاندانی رشتوں کو رسول کریم ﷺ سے توڑ دیا۔ اور بلال حبشی اور صہیب رومی کا رشتہ جوڑ دیا۔
حسن زبصرہ بلال زحبش صہیب ازروم
زخاک مکہ ابو جہل ایں چہ بوابعجی ست
حتی کہ قرآن کریم نے اعلان کردیا خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤ من۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم سب کو پیدا کیا۔ پھر تم دو حصوں میں بٹ گئے۔ کچھ کافر ہوگئے۔ کچھ مؤ من، بدر واحد اور احزاب و حنین کے معرکوں میں اسی قرآنی تقسیم کا عملی مظاہرہ ہوا تھا کہ نسبی بھائی جب خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے باہر ہوا تو مسلمان بھائی کا رشتہ اخوت و تعاون اس سے کٹ گیا اور وہ اس کی تلوار کی زد میں آگیا۔ نسبی بھائی تلوار لے کر مقابلہ پر آیا تو اسلامی بھائی امداد کے لئے پہنچا۔ غزوہ بدر واحد اور خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں
ہزار خویش کہ بیگانہ از خدا باشد
فدائی یک تن بیگانہ کہ آشنا باشد
آیت مذکورہ میں قرآن حکیم نے تعاون و تناصر کا یہی معقول اور صحیح اصول بتلایا ہے۔ وتعاونوا علی البر والعدوان۔ یعنی نیکی اور خدا ترسی پر تعاون کرو۔ بدی اور ظلم پر تعاون نہ کرو۔
غور کیجئے کہ اس میں قرآن کریم نے یہ عنوان بھی اختیار نہیں فرمایا کہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعاون کرو اور غیروں کے ساتھ نہ کرو۔ بلکہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے کی جو اصل بنیاد ہے، یعنی نیکی اور خدا ترسی اسی کو تعاون کرنے کی بنیاد قرار دیا۔
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھائی بھی اگر حق کے خلاف یا ظلم و جور کی طرف چل رہا ہو تو ناحق اور ظلم پر اس کی بھی مدد نہ کرو۔ بلکہ اس کی کوشش کرو کہ ناحق اور ظلم سے اس کا ہاتھ روکو۔ کیونکہ در حقیقت یہی اس کی صحیح امداد ہے تاکہ ظلم وجور سے اس کی دنیا اور آخرت تباہ نہ ہو۔
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاانصراخاک ظالماً اومظلوماً۔ یعنی اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ کرام ؓ جو قرآنی تعلیم میں رنگے جا چکے تھے، انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ مظلوم بھائی کی امداد تو ہم سمجھ گئے مگر ظالم کی امداد کا کیا مطلب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو ظلم سے روکو۔ یہی اس کی امداد ہے۔
قرآن کریم کی اس تعلیم نے برّ وتقویٰ یعنی نیکی اور خدا ترسی کو اصل معیار بنایا۔ اسی پر مسلم قومیت کی تعمیر کھڑی کی۔ اس پر تعاون و تناصر کی دعوت دی۔ اس کے بالمقابل اثم وعدوان کو سخت جرم قرار دیا۔ اس پر تعاون کرنے سے روکا۔ بر وتقوی کے دو لفظ اختیار فرمائے۔ جمہور مفسرین نے برّ کے معنی اس جگہ فعل الخیرات یعنی نیک عمل قرار دیے ہیں اور تقویٰ کے معنی ترک المنکرات یعنی برائیوں کا ترک بتلائے ہیں۔ اور لفظ اثم مطلق گناہ اور معصیت کے معنی میں ہے۔ خواہ وہ حقوق سے متعلق ہو یا عبادات سے اور عدوان کے لفظی معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ مراد اس سے ظلم و جور ہے۔
برّ وتقویٰ پر تعاون اور امداد کرنے کے لئے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاالدال علی الخیر کفاعلہ۔ یعنی جو شخص کسی کو نیکی کا راستہ بتادے تو اس کا ثواب ایسا ہی ہے جیسے اس نیکی کو اس نے خود کیا ہو۔ یہ حدیث ابن کثیر نے بحوالہ بزار نقل فرمائی ہے۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کو ہدایت اور نیکی کی طرف دعوت دے تو جتنے آدمی اس کی دعوت پر نیک عمل کریں گے، ان سب کی برابر اس کو بھی ثواب ملے گا۔ بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ثواب میں سے کچھ کم کیا جائے۔ اور جس شخص نے لوگوں کو کسی گمراہی یا گناہ کی طرف بلایا۔ تو جتنے لوگ اس کے بلانے سے گناہ میں مبتلا ہوئے ان سب کے گناہوں کی برابر اس کو بھی گناہ ہوگا۔ بغیر اس کے کہ ان گناہوں میں کچھ کمی کی جائے۔
اور ابن کثیر نے بروایت طبرانی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی ظالم کے ساتھ اس کی مدد کرنے کے لئے چلا وہ اسلام سے نکل گیا۔ اسی پر سلف صالحین نے ظالم بادشاہوں کی ملازمت اور کوئی عہدہ قبول کرنے سے سخت احتراز کیا ہے۔ کہ اس میں ان کے ظلم کی امداد و اعانت ہے۔ تفسیر روح المعانی میں آیت کریمہ فلن اکون ظہیرا للمجرمین کے تحت یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز آواز دی جائے گی کہ کہاں ہیں ظالم لوگ اور ان کے مددگار یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے ظالموں کے دوات، قلم کو درست کیا ہے۔ وہ بھی سب ایک لوہے کے تابوت میں جمع کر کے جہنم میں پھینک دیے جائیں گے۔
یہ ہے قرآن و سنت کی وہ تعلیم جس نے دنیا میں نیکی، انصاف، ہمدردی اور خوشی خلقی پھیلانے کے لئے ملت کے ہر فرد کو ایک داعی بنا کر کھڑا کردیا تھا۔ اور جرائم و ظلم و جور کے انسداد کے لئے ہر فرد ملت کو ایک ایک ایسا سپاہی بنادیا تھا جو خفیہ اور علانیہ اپنی ڈیوٹی بجا لانے پر خوف خدا تعالیٰ کی وجہ سے مجبور تھا۔ اسی حکیمانہ تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا جو دنیا نے صحابہ وتابعین کے قرن میں دیکھا۔ آج بھی جب کسی ملک میں جنگ کا خطرہ لاحق ہوتا ہے تو شہری دفاع کے محکمے قائم کرکے ہر فرد قوم کو کچھ فنون کی تعلیم کا تو اہتمام کیا جاتا ہے مگر جرائم کے انسداد کے لئے اس کا کہیں اہتمام نہیں ہے کہ لوگوں کو خیرکا داعی اور شر کو روکنے والا سپاہی بنانے کی کوشش کریں۔ اور ظاہر ہے کہ اس کی مشق نہ فوجی پریڈ سے ہوتی ہے نہ شہری دفاع کے طریقوں سے۔ یہ ہنر تو تعلیم گاہوں میں سیکھنے سکھانے کا ہے جو آج کل بدقسمتی سے ان چیزوں کے نام سے ناآشنا ہے۔ برّ وتقویٰ اور ان کی تعلیمات کا داخلہ آج کل کی عام تعلیم گاہوں میں ممنوع ہے۔ اور اثم وعدوان کا ہر راستہ کھلا ہوا ہے۔ پھر یہ بیچاری پولیس کہاں تک جرائم کی روک تھام کرے۔ جب ساری قوم حلال و حرام اور حق و ناحق سے بیگانہ ہو کر جرائم پیشہ بن جائے۔ آج جو جرائم کی کثرت چوری، ڈاکہ، فحاشی، قتل و غارت گری کی فراوانی ہر جگہ اور ہر ملک میں روزبروز زیادہ تر ہوتی جاتی ہیں اور قانونی مشینری ان کے انسداد سے عاجز ہے۔
اس کے یہی دو سبب ہیں کہ ایک طرف تو حکومتیں اس قرآنی نظام سے دور ہیں، ان کے ارباب اقتدار اپنی زندگی کو برّ وتقویٰ کے اصول پر ڈالتے ہوئے جھجکتے ہیں۔ اگرچہ اس کے نتیجہ میں ہزاروں تلخیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ کاش وہ اس تلخ گھونٹ کو ایک دفعہ تجربہ کے لئے ہی پی جائیں، اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا تماشہ دیکھیں کہ کس طرح ان کو اور عوام کو امن و سکون اور چین و راحت کی حیات طیبہ عطا ہوتی ہے۔
دوسری طرف عوام نے یہ سمجھ لیا کہ انسداد جرائم صرف حکومت کا کام ہے۔ وہ ہر جرائم پیشہ کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ محض احقاق حق اور انسداد جرائم کے لئے سچی شہادت سے گریز کرنا جرم کی اعانت ہے جو ازروئے قرآن کریم حرام اور سخت گناہ ہے۔ اور ولا تعاونوا والعدوان کے حکم سے بغاوت ہے۔
Top