Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ
: اور سنا
عَلَيْهِمْ
: انہیں
نَبَاَ
: خبر
ابْنَيْ اٰدَمَ
: آدم کے دو بیٹے
بِالْحَقِّ
: احوال واقعی
اِذْ قَرَّبَا
: جب دونوں نے پیش کی
قُرْبَانًا
: کچھ نیاز
فَتُقُبِّلَ
: تو قبول کرلی گئی
مِنْ
: سے
اَحَدِهِمَا
: ان میں سے ایک
وَلَمْ يُتَقَبَّلْ
: اور نہ قبول کی گئی
مِنَ الْاٰخَرِ
: دوسرے سے
قَالَ
: اس نے کہا
لَاَقْتُلَنَّكَ
: میں ضرور تجھے مار ڈالونگا
قَالَ
: اس نے کہا
اِنَّمَا
: بیشک صرف
يَتَقَبَّلُ
: قبول کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
مِنَ
: سے
الْمُتَّقِيْنَ
: پرہیزگار (جمع)
اور سنا ان کو حال واقعی آدم کے دو بیٹوں کا جب نیاز کی دونوں نے کچھ نیاز اور مقبول ہوئی ایک کی اور نہ مقبول ہوئی دوسرے کی۔ کہا میں تجھ کو مار ڈالوں گا وہ بولا اللہ قبول کرتا ہے تو پرہیزگاروں سے
خلاصہ تفسیر
اور (اے محمد ﷺ آپ ان اہل کتاب کو (حضرت) آدم ؑ کے دو بیٹوں کا (یعنی ہابیل و قابیل کا) قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنائیے (تاکہ ان کو انتساب بالصٰلحین کا گھمنڈ جاتا رہے، جس کا نحن ابناء اللہ میں اظہار ہو رہا ہے، اور وہ قصہ اس وقت ہوا تھا) جب کہ دونوں نے (اللہ تعالیٰ کے نام کی) ایک ایک نیاز پیش کی اور ان میں سے ایک کی (یعنی ہابیل کی) تو مقبول ہوگئی اور دوسرے کی (یعنی قابیل کی) مقبول نہ ہوئی (کیونکہ جس معاملہ کے فیصلہ کے لئے یہ نیاز چڑھائی گئی تھی اس میں ہابیل حق پر تھا، اس لئے اس کی نیاز قبول ہوگئی اور قابیل حق پر نہ تھا اس کی قبول نہ ہوئی، ورنہ پھر فیصلہ نہ ہوتا، بلکہ اور خلط و اشتباہ ہوجاتا جب) وہ دوسرا (یعنی قابیل اس میں بھی ہارا تو جھلا کر) کہنے لگا کہ میں تجھ کو ضرور قتل کروں گا، اس ایک نے (یعنی ہابیل نے) جواب دیا (کہ تیرا ہارنا تو تیری ہی ناحق پرستی کی وجہ سے ہے میری کیا خطا، کیونکہ) خدا تعالیٰ متقیوں ہی کا عمل قبول کرتے ہیں (میں نے تو تقویٰ اختیار کیا اور خدا کے حکم پر رہا، خدائے تعالیٰ نے میری نیاز قبول کی، تو نے تقویٰ چھوڑ دیا اور خدا کے حکم سے منہ موڑا تیری نیاز قبول نہیں کی، سو اس میں تیری خطا ہے یا میری انصاف کر، لیکن اگر پھر بھی تیرا یہی ارادہ ہے تو تو جان، میں نے تو پختہ قصد کرلیا ہے) اگر تو مجھ پر میرے قتل کرنے کے لئے دست درازی کرے تو تب بھی میں تجھ پر تیرے قتل کرنے کے لئے ہرگز دست درازی کرنے والا نہیں (کیونکہ) میں تو خدائے پروردگار عالم سے ڈرتا ہوں (کہ باوجود یہ کہ تیرے جواز قتل کا بظاہر ایک سبب موجود ہے، یعنی یہ کہ تو مجھ کو قتل کرنا چاہتا ہے، مگر اس وجہ سے کہ یہ جواز اب تک کسی نص جزئی سے مجھ کو محقق نہیں ہوا، اس لئے اس کے ارتکاب کو احتیاط کے خلاف سمجھتا ہوں، اور اس شبہ کی وجہ سے خدا سے ڈرتا ہوں، اور یہ ہمت تجھی کو ہے کہ باوجود یہ کہ میرے جواز قتل کا کوئی امر مقتضی نہیں بلکہ مانع موجود ہے لیکن پھر بھی خدا سے نہیں ڈرتا) میں یوں چاہتا ہوں کہ (مجھ سے کوئی گناہ کا کام نہ ہو گو تو مجھ پر کتنا ہی ظلم کیوں نہ کرے جس سے کہ) تو میرے گناہ اور اپنے گناہ سب اپنے سر رکھ لے، پھر تو دوزخیوں میں شامل ہوجاوے اور یہی سزا ہوتی ہے ظلم کرنے والوں کی سو (یوں تو پہلے ہی سے قتل کا ارادہ کرچکا تھا یہ جو سنا کہ مدافعت بھی نہ کرے گا، چاہئے تو تھا کہ گداختہ ہوجاتا مگر بےفکر ہو کر اور بھی) اس کے جی نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا (پھر) آخر اس کو قتل ہی کر ڈالا جس سے (کمبخت) بڑے نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوگیا (دنیا میں تو یہ نقصان کہ اپنا قوت بازو اور راحت روح گم کر بیٹھا، اور آخرت میں یہ نقصان کہ سخت عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اب جب قتل سے فارغ ہوا تو اب حیران ہے کہ لاش کو کیا کروں جس سے یہ راز پوشیدہ رہے کچھ سمجھ میں نہ آیا تو) پھر (آخر) اللہ تعالیٰ نے ایک کوّا (وہاں) بھیجا کہ وہ (چونچ اور پنجوں سے) زمین کو کھودتا تھا (اور کھود کر ایک دوسرے کوّے کو کہ وہ مرا ہوا تھا اس گڑھے میں دھکیل کر اس پر مٹی ڈالتا تھا) تاکہ وہ (کوا) اس (قابیل) کو تعلیم کردے کہ اپنے بھائی (ہابیل) کی لاش کو کس طریقہ سے چھپاوے (قابیل یہ واقعہ دیکھ کر اپنے جی میں بڑا ذلیل ہوا کہ مجھ کو کوّے کے برابر بھی فہم نہیں، اور غایت حسرت سے) کہنے لگا کہ افسوس میری حالت پر کیا میں اس سے بھی گیا گزرا کہ اس کوّے ہی کے برابر ہوتا اور اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا (سو اس بدحالی پر) بڑا شرمندہ ہوا، اسی (واقعہ کی) وجہ سے (جس سے قتل ناحق کے مفاسد ثابت ہوتے ہیں) ہم نے (تمام مکلّفین پر عموماً اور) بنی اسرائیل پر (خصوصاً) یہ (حکم) لکھ دیا (یعنی مقرر کردیا) کہ (قتل ناحق اتنا بڑا گناہ ہے کہ) جو شخص کسی شخص کو بلامعاوضہ دوسرے شخص کے (جو ناحق مقتول ہوا ہو) یا بدون کسی (شر) فساد کے جو زمین میں اس سے پھیلا ہو (خواہ مخواہ) قتل کر ڈالے تو اس کو بعض اعتبار سے ایسا گناہ ہوگا کہ) گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا، (وہ بعض اعتبار یہ ہے کہ اس گناہ پر جرأت کی، خدائے تعالیٰ کی نافرمانی کی، خدائے تعالیٰ اس سے ناراض ہوئے دنیا میں مستحق قصاص ہوا، آخرت میں مستحق دوزخ ہوا، یہ امور ایک کے اور ہزار کے قتل کرنے میں مشترک ہیں، گوشدت و اشدّیت کا تفاوت ہو، اور یہ دو قیدیں اس لئے لگائیں کہ قصاص میں قتل کرنا جائز ہے، اسی طرح دوسرے اسباب جواز قتل سے بھی جس میں قطع طریق جو آگے مذکور ہے، اور کفر حربی جس کا ذکر احکام جہاد میں آچکا ہے سب داخل ہیں، قتل کرنا جائز بلکہ بعض صورتوں میں واجب ہے) اور (یہ بھی لکھ دیا تھا کہ جیسا ناحق قتل کرنا گناہ عظیم ہے، اسی طرح کسی کو قتل غیر واجب سے بچا لینا اس میں ثواب بھی ایسا ہی عظیم ہے کہ) جو شخص کسی شخص کو بچا لے تو (اس کو ایسا ثواب ملے گا کہ) گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچا لیا، (غیر واجب کی قید اس لئے لگائی کہ جس شخص کا قتل شرعاً واجب ہو اس کی امداد یا سفارش حرام ہے، اور اس مضمون احیاء کے لکھنے سے بھی تشدید قتل کی ظاہر ہوگئی کہ جب احیاء ایسا محمود ہے تو ضرور قتل مذموم ہوگا، اس لئے اس کا ترتب و تسبّب بھی بواسطہ عطف کے (آیت) من اجل ذلک۔ پر صحیح ہوگیا) اور بنی اسرائیل کے پاس (اس مضمون کے لکھ دینے کے بعد) ہمارے بہت سے پیغمبر بھی دلائل واضح (نبوت کے) لے کر آئے (اور وقتاً فوقتاً اس مضمون کی تاکید کرتے رہے) مگر پھر اس (تاکید و اہتمام) کے بعد بھی بہتیرے ان میں سے دنیا میں زیادتی کرنے والے ہی رہے (اور ان پر کچھ اثر نہ ہوا حتیٰ کہ بعض نے خود ان انبیاء ہی کو قتل کردیا)۔
معارف و مسائل
قصہ ہابیل و قابیل
ان آیات میں حق تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ آپ ﷺ اہل کتاب کو یا پوری امت کو حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح صحیح سنا دیجئے۔ قرآن مجید پر نظر کرنے والے جانتے ہیں کہ قرآن کریم کوئی قصہ کہانی یا تاریخ کی کتاب نہیں جس کا مقصد کسی واقعہ کو اول سے آخر تک بیان کرنا ہو، لیکن واقعات ماضیہ اور گزشتہ اقوام کی سرگزشت اپنے دامن میں بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں رکھتی ہے، وہی تاریخ کی اصلی روح ہے، اور ان میں بہت سے حالات و واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں، جن پر مختلف احکام شرعیہ کی بنیاد ہوتی ہے، انہی فوائد کے پیش نظر قرآن کریم کا اسلوب ہر جگہ یہ ہے کہ موقع بہ موقع کوئی واقعہ بیان کرتا ہے، اور اکثر پورا واقعہ بھی ایک جگہ بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے جتنے حصہ سے اس جگہ کوئی مقصد متعلق ہوتا ہے اس کا وہی ٹکڑا یہاں بیان کردیا جاتا ہے۔
حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں کا یہ قصہ بھی اسی اسلوب حکیم پر نقل کیا جا رہا ہے، اس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے بہت سی عبرتیں اور مواعظ ہیں، اور اس کے ضمن میں بہت سے احکام شرعیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اب پہلے الفاظ قرآن کی تشریح اور اس کے تحت میں اصل قصہ دیکھئے، اس کے بعد اس کے متعقہ
احکام و مسائل
کا بیان ہوگا۔
اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل کو حکم جہاد اور اس میں ان کی کم ہمتی اور بزدلی کا ذکر تھا، اس قصہ میں اس کے بالمقابل قتل ناحق کی برائی اور اس کی تباہ کاری کا بیان کرکے قوم کو اس اعتدال پر لانا مقصود ہے کہ جس طرح حق کی حمایت اور باطل کو مٹانے میں قتل و قتال سے دم چرانا غلطی ہے، اسی طرح ناحق قتل و قتال پر اقدام دین و دنیا کی تباہی ہے۔
پہلی آیت میں ابن آدم (کا لفظ مذکور ہے، یوں تو ہر انسان، آدمی اور آدم کی اولاد ہے، ہر ایک کو ابن آدم کہا جاسکتا ہے، لیکن جمہور علماء تفسیر کے نزدیک اس جگہ ابن آدم سے حضرت آدم ؑ کے دو صلبی اور حقیقی بیٹے مراد ہیں، یعنی ہابیل و قابیل، ان دونوں کا قصہ بیان کرنے کے لئے ارشاد ہوا۔
تاریخی روایات کی نقل میں احتیاط اور سچائی واجب ہے
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بالْحَقِّ۔ یعنی ان لوگوں کو آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح صحیح واقعہ کے مطابق سنا دیجئے۔ اس میں بالحق کے لفظ سے تاریخی روایات کی نقل میں ایک اہم اصول کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ تاریخی روایات کی نقل میں بڑی احتیاط لازم ہے، جس میں نہ کوئی جھوٹ ہو نہ کوئی تلبیس اور دھوکہ اور نہ اصل واقعہ میں کسی قسم کی تبدیلی یا کمی زیادتی (ابن کثیر)۔
قرآن کریم نے صرف اسی جگہ نہیں بلکہ دوسرے مواقع میں بھی اس اصول پر قائم رہنے کی ہدایات دی ہیں، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) ان ھذا لھو القصص الحق۔ ، دوسری جگہ ارشاد ہے (آیت) نحن نقص علیک نباھم بالحق۔ ، تیسری جگہ ارشاد ہے (آیت) ذلک عیسیٰ ابن مریم قول الحق۔ ان تمام مواقع میں تاریخی واقعات کے ساتھ لفظ حق لاکر اس بات کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے کہ نقل واقعات میں حق و صدق کی رعایت لازمی ہے، روایات و حکایات کی بناء پر جس قدر مفاسد دنیا میں ہوتے ہیں ان سب کی بنیاد عام طور پر نقل واقعات میں بےاحتیاطی ہوتی ہے، ذرا سا لفظ اور عنوان بدل دینے سے واقعہ کی حقیقت مسخ ہوجاتی ہے، پچھلی اقوام کے مذاہب و شرائع اسی بےاحتیاطی کی راہ سے ضائع ہوگئے، اور ان کی مذہبی کتابیں چند بےسند و بےتحقیق کہانیوں کا مجموعہ بن کر رہ گئیں، اس جگہ ایک لفظ بالحق کا اضافہ کرکے اس اہم مقصد کی طرف اشارہ فرما دیا گیا۔
اس کے علاوہ اسی لفظ میں قرآن کریم کے مخاطبین کو اس طرف بھی رہنمائی کرنا ہے کہ رسول کریم ﷺ جو امی محض ہیں، اور ہزاروں سال پہلے کے واقعات بالکل سچے اور صحیح بیان فرما رہے ہیں تو اس کا سبب بجز وحی الہٰی اور نبوت کے کیا ہوسکتا ہے۔
اس تمہید کے بعد ان دونوں بیٹوں کا واقعہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمایاۘاِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ، یعنی ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی اپنی قربانی پیش کی، مگر ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔
لفظ قربان، عربی لغت کے اعتبار سے اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کو کسی کے قرب کا ذریعہ بنایا جائے، اور اصلاح شرع میں اس ذبیحہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔
اس قربانی کے پیش کرنے کا واقعہ جو صحیح اور قوی سندوں کے ساتھ منقول ہے اور ابن کثیر نے اس علماء سلف و خلف کا متفقہ قول قرار دیا ہے یہ ہے کہ جب حضرت آدم اور حواء (علیہما السلام) دنیا میں آئے اور توالد و تناسل کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر ایک حمل سے ان کے دو بچے توام پیدا ہوئے، ایک لڑکا اور دوسری لڑکی، اس وقت جبکہ آدم ؑ کی اولاد میں بجز بہن بھائیوں کے کوئی اور نہ تھا، اور بھائی بہن کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا تو اللہ جل شانہ نے اس وقت کی ضرورت کے لحاظ سے شریعت آدم ؑ میں یہ خصوصی حکم جاری فرما دیا تھا کہ ایک حمل سے جو لڑکا اور لڑکی پیدا ہو وہ تو آپس میں حقیقی بہن بھائی سمجھے جائیں، اور ان کے درمیان نکاح حرام قرار پائے، لیکن دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکے کے لئے پہلے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی حقیقی بہن کے حکم میں نہیں ہوگی، بلکہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج و مناکحت جائز ہوگا۔
لیکن ہوا یہ کہ پہلے لڑکے قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ حسین و جمیل تھی اور دوسرے لڑکے ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی بدشکل تھی، جب نکاح کا وقت آیا تو حسب ضابطہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بدشکل لڑکی قابیل کے حصہ میں آئی اس پر قابیل ناراض ہو کر ہابیل کا دشمن ہوگیا، اور اس پر اصرار کرنے لگا کہ میرے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی ہے وہی میرے نکاح میں دی جائے، حضرت آدم ؑ کو یقین تھا کہ قربانی اسی کی قبول ہوگی جس کا حق ہے، یعنی ہابیل کی۔
اس زمانہ میں قربانی قبول ہونے کی ایک واضح اور کھلی ہوئی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آتی اور قربانی کو کھا جاتی تھی، اور جس قربانی کو آگ نہ کھائے تو یہ علامت اس کے نامقبول ہونے کی ہوتی تھی۔
اب صورت یہ پیش آئی کہ ہابیل کے پاس بھیڑ بکریاں تھیں، اس نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی کی، قابیل کاشتکار آدمی تھا، اس نے کچھ غلہ، گندم وغیرہ قربانی کے لئے پیش کیا، اور ہوا یہ کہ حسب دستور آسمان سے آگ آئی، ہابیل کی قربانی کو کھا گئی، اور قابیل کی قربانی جوں کی توں پڑی رہ گئی، اس پر قابیل کو اپنی ناکامی کے ساتھ رسوائی کا غم و غصہ اور بڑھ گیا، تو اس سے رہا نہ گیا، اور کھلے طور پر اپنے بھائی سے کہہ دیا میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔
ہابیل نے اس وقت بھی غصہ کی بات کا جواب غصہ کے ساتھ دینے کے بجائے ایک ٹھنڈی اور اصولی بات کہی، جس میں اس کی ہمدردی و خیر خواہی بھی تھی کہاِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ”یعنی اللہ تعالیٰ کا دستور یہی ہے کہ متقی پرہیزگار کا عمل قبول فرمایا کرتے ہیں“۔ اگر تم تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرتے تو تمہاری قربانی بھی قبول ہوتی، تم نے ایسا نہیں کیا تو قربانی قبول نہ ہوئی، اس میں میرا کیا قصور ہے ؟
اس کلام میں حاسد کا علاج بھی ذکر کردیا گیا ہے، کہ حاسد کو جب یہ نظر آئے کہ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے کوئی خاص نعمت عطا فرمائی ہے جو اس کو حاصل نہیں تو اس کو چاہیے کہ اپنی محرومی کو اپنی عملی کوتاہی اور گناہوں کے سبب سے سمجھ کر ان سے تائب ہونے کی فکر کرے، نہ یہ کہ دوسرے سے اس نعمت کے زوال کی فکر میں پڑجائے، کیونکہ یہ اس کے فائدہ کے بجائے ضرر کا سبب ہے، کیونکہ مقبولیت عند اللہ کا مدار تقویٰ پر ہے (مظہری)۔
قبولیت عمل کا مدار اخلاص وتقویٰ پر ہے
یہاں ہابیل و قابیل کی باہمی گفتگو میں ایک ایسا جملہ آگیا جو ایک اہم اصول کی حیثیت رکھتا ہے، کہ اعمال و عبادات کی قبولیت تقویٰ اور خوف خدا پر موقوف ہے، جس میں تقویٰ نہیں اس کا عمل مقبول نہیں، اسی وجہ سے علمائے سلف نے فرمایا ہے کہ یہ آیت عبادت گزاروں اور عمل کرنے والوں کے لئے بڑا تازیانہ ہے، یہی وجہ تھی کہ حضرت عامر بن عبداللہ اپنی وفات کے وقت رو رہے تھے، لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو عمر بھر اعمال صالحہ اور عبادات میں مشغول رہے، پھر رونے کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایاتم یہ کہتے ہو، اور میرے کانوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گونج رہا ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ، مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میری کوئی عبادت قبول بھی ہوگی یا نہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اگر مجھے یہ یقین ہوجائے کہ میرا کوئی عمل اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا تو یہ وہ نعمت ہے کہ ساری زمین سونا بن کر اپنے قبضہ میں آجائے تو بھی اس کے مقابلہ میں کچھ نہ سمجھوں۔
اسی طرح حضرت ابو الدرداء ؓ نے فرمایا کہ اگر یہ بات یقینی طور پر طے ہوجائے کہ میری ایک نماز اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہوگئی تو میرے لئے وہ ساری دنیا اور اس کی نعمتوں سے زیادہ ہے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے ایک شخص کو خط میں یہ نصائح لکھیں کہ
”میں تجھے تقویٰ کی تاکید کرتا ہوں جس کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا، اور اہل تقویٰ کے سوا کسی پر رحم نہیں کیا جاتا، اور اس کے بغیر کسی چیز پر ثواب نہیں ملتا، اس بات کا وعظ کہنے والے تو بہت ہیں مگر عمل کرنے والے بہت کم ہیں“۔
اور حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے فرمایا کہ تقویٰ کے ساتھ کوئی چھوٹا سا عمل بھی چھوٹا نہیں ہے، اور جو عمل مقبول ہوجائے وہ چھوٹا کیسے کہا جاسکتا ہے۔ (ابن کثیر)
Top