Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ : اور چور مرد وَالسَّارِقَةُ : اور چور عورت فَاقْطَعُوْٓا : کاٹ دو اَيْدِيَهُمَا : ان دونوں کے ہاتھ جَزَآءً : سزا بِمَا كَسَبَا : اس کی جو انہوں نے کیا نَكَالًا : عبرت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ سزا میں ان کی کمائی کی تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ غالب ہے حکمت والا۔
چوتھی آیت میں پھر جرائم کی سزاؤں کی طرف عود کیا گیا، اور چوری کی سزائے شرعی کا بیان فرمایا گیا، شرعی سزاؤں کی تین قسمیں جو پہلے بیان ہوچکی ہیں چوری کی سزا ان کی قسم حدود میں داخل ہے، کیونکہ قرآن کریم نے اس سزا کو خود متعین فرمایا، حکام کی صوابدید پر نہیں چھوڑا اور بطور حق اللہ کے متعین فرمایا ہے، اس لئے اس کو حد سرقہ کہا جاتا ہے، آیت میں ارشاد ہے
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ یعنی ”چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو ان کے کردار کے بدلہ میں، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے“۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قرآنی احکام میں خطاب عام طور پر مردوں کو ہوتا ہے اور عورتیں بھی اس میں تبعا شامل ہوتی ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور جملہ احکام میں قرآن و سنت کا یہی اصول ہے، لیکن چوری کی سزا اور زنا کی سزا میں صرف مردوں کے ذکر پر اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ دونوں صنفوں کو الگ الگ کرکے حکم دیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ معاملہ حدود کا ہے جن میں ذرا سا بھی شبہ پڑجائے تو ساقط ہوجاتی ہیں، اس لئے عورتوں کے لئے ضمنی خطاب پر کفایت نہیں فرمائی، بلکہ تصریح کے ساتھ ذکر فرمایا۔
دوسری بات اس جگہ قابل غور یہ ہے کہ لفظ سرقہ کا لغوی مفہوم اور شرعی تعریف کیا ہے ؟ قاموس میں ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا مال کسی محفوظ جگہ سے بغیر اس کی اجازت کے چھپ کرلے لے، اس کو سرقہ کہتے ہیں۔ یہی اس کی شرعی تعریف ہے۔ اور اس تعریف کی رو سے سرقہ ثابت ہونے کے لئے چند چیزیں ضروری ہوئیں
اول یہ کہ وہ مال کسی فرد یا جماعت کی ذاتی ملکیت ہو، چُرانے والے کی اس میں نہ ملکیت ہو نہ ملکیت کا شبہ ہو۔ اور نہ ایسی چیزیں ہوں جس میں عوام کے حقوق مساوی ہیں، جیسے رفاہ عام کے ادارے اور ان کی اشیاء اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص نے کوئی ایسی چیز لے لی جس میں اس کی ملکیت یا ملکیت کا شبہ ہے یا جس میں عوام کے حقوق مساوی ہیں تو حد سرقہ اس پر جاری نہ کی جائے گی۔ حاکم اپنی صوابدید کے موافق تعزیری سزا جاری کرسکتا ہے۔
دوسری چیز تعریف سرقہ میں مال محفوظ ہوتا ہے، یعنی مقفل مکان کے ذریعہ یا کسی نگران چوکیدار کے ذریعہ محفوظ ہونا، جو مال کسی محفوظ جگہ میں نہ ہو اس کو کوئی شخص اٹھالے تو وہ بھی حد سرقہ کا مستوجب نہیں ہوگا اور مال کے محفوظ ہونے میں شبہ بھی ہوجائے تو بھی حد ساقط ہوجائے گی۔ گناہ اور تعزیری سزا کا معاملہ جدا ہے۔
تیسری شرط بلا اجازت ہونا ہے، جس مال کے لینے یا اٹھا کر استعمال کرنے کی کسی کو اجازت دے رکھی ہو، وہ اس کو بالکل لے جائے تو حد سرقہ عائد نہیں ہوگی، اور اجازت کا شبہ بھی پیدا ہوجائے تو حد ساقط ہوجائے گی۔
چوتھی شرط چھپا کرلینا ہے کیونکہ دوسرے کا مال اعلانیہ لوٹا جائے تو وہ سرقہ نہیں بلکہ ڈاکہ ہے، جس کی سزا پہلے بیان ہوچکی ہے، غرض خفیہ نہ ہو تو حدّ سرقہ اس پر جاری نہ ہوگی۔
ان تمام شرائظ کی تفصیل سننے سے آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ ہمارے عرف میں جس کو چوری کہا جاتا ہے وہ ایک عام اور وسیع مفہوم ہے، اس کے تمام افراد پر حدّسرقہ یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا شرعاً عائد نہیں ہے، بلکہ چوری کی صرف اس صورت پر یہ حد شرعی جاری ہوگی جس میں یہ تمام شرائط موجود ہوں۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی آپ معلوم کرچکے ہیں کہ جن صورتوں میں چوری کی حد شرعی ساقط ہوجاتی ہے، تو یہ لازم نہیں ہے کہ کھلی چھٹی مل جائے، بلکہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق اس کو تعزیری سزا دے سکتا ہے جو جسمانی، کوڑوں کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ جن صورتوں میں سرقہ کی کوئی شرط مفقود ہونے کی وجہ سے حد شرعی جاری نہ ہو تو وہ شرعاً جائز و حلال ہے، کیونکہ اوپر بتلایا جا چکا ہے کہ یہاں گناہ اور عذاب آخرت کا ذکر نہیں، دنیوی سزا اور وہ بھی خاص قسم کی سزا کا ذکر ہے۔ ویسے کسی شخص کا مال بغیر اس کی خوش دلی کے کسی طرح بھی لے لیا جائے تو وہ حرام اور عذاب آخرت کا موجب ہے، جیسا کہ آیت قرآن کریم (آیت) لاتاکلوا اموالکم بالباطل۔ میں اس کی تصریح موجود ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چوری میں جو الفاظ قرآن کریم کے آتے ہیں وہی زنا کی سزا میں ہیں، مگر چوری کے معاملہ میں مرد کا ذکر پہلے عورت کا بعد میں ہے۔ اور زنا میں اس کے برعکس عورت کا ذکر پہلے کیا گیا۔ چوری کی سزا میں ارشاد ہےوَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ اور زنا کی سزا میں فرمایا ہے(آیت) الزانیة والزانی، اس عکس ترتیب کی حکمتیں حضرات مفسرین نے کئی لکھی ہیں، ان میں زیادہ دل کو لگنے والی بات یہ ہے کہ جرم مرد کے لئے بہ نسبت عورت کے زیادہ شدید ہے، کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کسب معاش کی وہ قوت بخشی ہے جو عورت کو حاصل نہیں۔ اس پر کسب معاش کے اتنے دروازے کھلے ہونے کے باوجود چوری کے ذلیل جرم میں مبتلا ہو، یہ اس کے جرم کو بڑھا دیتا ہے، اور زنا کے معاملہ میں عورت کو حق تعالیٰ طبعی حیاء و شرم کے ساتھ ایسا ماحول بخشا ہے کہ ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے اس بےحیائی پر اترنا اس کے لئے نہایت شدید جرم ہے، اس لئے چوری میں مرد کا ذکر مقدم ہے اور زنا میں عورت کا۔
آیت مذکورہ کے الفاظ میں چوری کی شرعی سزا بیان کرنے کے بعد دو جملے ارشاد فرمائے ہیں، ایک (آیت) جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا یعنی یہ سزا بدلہ ہے ان کی بدکرداری کا، دوسرا جملہ فرمایا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ اس میں دو لفظ ہیں نکال اور من اللّٰہ، لفظ ”نکال“ کے معنے عربی لغت میں ایسی سزا کے ہیں جس کو دیکھ کر دوسروں کو بھی سبق ملے، اور اقدام جرم سے باز آجائیں، اس لئے ”نکال“ کا ترجمہ ہمارے محاورہ کے موافق عبرت خیز سزا کا ہوگیا۔ اس میں اشارہ ہے کہ ہاتھ کاٹنے کی سخت سزا خاص حکمت پر مبنی ہے، کہ ایک پر سزا جاری ہوجائے، تو سب کے سب کانپ اٹھیں، اور اس جرم قبیح کا انسداد ہوجائے۔ دوسرا لفظ ”من اللہ“ کا بڑھا کر ایک اہم مضمون کی طرف اشارہ فرمایا جو یہ ہے کہ چوری کے جرم کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس نے کسی دوسرے انسان کا مال بغیر حق کے لے لیا۔ جس سے اس پر ظلم ہوا۔ دوسری یہ کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی، پہلی حیثیت سے یہ سزا مظلوم کا حق ہے۔ اور اس کا مقتضٰی یہ ہے کہ جس کا حق ہے اگر وہ سزا کو معاف کر دے تو معاف ہوجائے گی۔ جیسا قصاص کے تمام مسائل میں یہی معمول ہے۔ دوسری حیثیت سے یہ سزا حق اللہ کی خلاف ورزی کرنے کی ہے اس کا مقتضٰی یہ ہے کہ جس شخص کی چوری کی ہے، اگر وہ معاف بھی کر دے تو معاف نہ ہو۔ جب تک خود اللہ تعالیٰ معاف نہ فرما دیں۔ جس کو اصطلاح شرع میں حد یا حدود کہا جاتا ہے۔ لفظ من اللّٰہ سے اس دوسری حیثیت کو متعین کرکے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ یہ سزا حد ہے قصاص نہیں ہے، یعنی سرکاری جرم کی حیثیت سے یہ سزا دی گئی ہے، اس لئے جس کی چوری کی ہے اس کے معاف کرنے سے بھی سزا ساقط نہیں ہوگی۔
آخر آیت میں واللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ فرما کر اس شبہ کا جواب دے دیا جو آج کل عام طور پر زبان زد ہے کہ یہ سزا بڑی سخت ہے، اور بعض گستاخ یا ناواقف تو یوں کہنے سے بھی نہیں جھجکتے کہ یہ سزا وحشیانہ ہے، نعوذ باللہ منہ، اشارہ اس کی طرف فرمایا کہ اس سخت سزا کی تجویز محض اللہ تعالیٰ کے قوی اور زبردست ہونے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ان کے حکیم ہونے پر بھی مبنی ہے، جن شرعی سزاؤں کو آج کل کے عقلاء یورپ سخت اور وحشیانہ کہتے ہیں ان کی حکمت اور ضرورت اور فوائد کی بحث انہی آیات کی تفسیر کے بعد مفصل آئے گی۔
Top