Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 8
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ١٘ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا١ؕ اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
كُوْنُوْا
: ہوجاؤ
قَوّٰمِيْنَ
: کھڑے ہونے والے
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
شُهَدَآءَ
: گواہ
بِالْقِسْطِ
: انصاف کے ساتھ
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ
: اور تمہیں نہ ابھارے
شَنَاٰنُ
: دشمنی
قَوْمٍ
: کسی قوم
عَلٰٓي
: پر
اَلَّا تَعْدِلُوْا
: کہ انصاف نہ کرو
اِعْدِلُوْا
: تم انصاف کرو
هُوَ
: وہ (یہ)
اَقْرَبُ
: زیادہ قریب
لِلتَّقْوٰى
: تقوی کے
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
خَبِيْرٌ
: خوب باخبر
بِمَا
: جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
اے ایمان والو کھڑے ہوجایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو عدل کرو یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقوٰی سے اور ڈرتے رہو اللہ سے اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو اللہ تعالیٰ (کی خوشنودی) کے لئے (احکام کی) پوری پابندی کرنے والے (اور شہادت کی نوبت آوے تو) انصاف کی شہادت ادا کرنے والے رہو، اور کسی خاص گروہ کی عداوت تم کو اس پر باعث نہ ہوجاوے کہ تم (ان کے معاملات میں) عدل نہ کرو (ضرور ہر معاملہ میں) عدل کیا کرو وہ (یعنی عدل کرنا) تقویٰ سے زیادہ قریب ہے (یعنی اس سے تقویٰ کے ساتھ موصوف کہلاتا ہے) اور (تقویٰ اختیار کرنا تم پر فرض ہے، چناچہ حکم ہوا ہے کہ) اللہ تعالیٰ (کی مخالفت) سے ڈرو (یہی حقیقت ہے تقویٰ کی پس عدل جو کہ اس فرض تقویٰ کا موقوف علیہ ہے نیز فرض ہوگا) بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی تمہارے سب اعمال کی پوری اطلاع ہے (پس مخالفین احکام کو سزا ہوجاوے تو بعید نہیں) اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے جو ایمان لے آئے اور (انہوں نے) اچھے کام کئے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور ثواب عظیم ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہمارے احکام کو جھوٹا بتلایا ایسے لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں۔
معارف و مسائل
مذکورہ تین آیتوں میں سے پہلی آیت کا مضمون تقریباً ان ہی الفاظ کے ساتھ سورة نساء میں بھی گذر چکا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں کونوا قوامین بالقسط شھداءللہ ارشاد ہوا تھا اور یہاں کونوا قومین للہ شھداء بالقسط فرمایا گیا ہے۔ ان دونوں آیتوں میں الفاظ کے تقدم اور تاخر کی ایک لطیف وجہ ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں ذکر کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
انسان کو عدل و انصاف سے روکنے اور ظلم وجود میں مبتلا کرنے کے عادتاً دو سبب ہوا کرتے ہیں ایک اپنے نفس یا اپنے دوستوں، عزیزوں کی طرف داری، دوسرے کسی شخص کی دشمنی و عداوت۔ سورة نساء کی آیت کا روئے سخن پہلے مضمون کی طرف ہے اور سورة مائدہ کی اس آیت کا روئے سخن دوسرے مضمون کی طرف۔
اسی لئے سورة نساء میں اس کے بعد ارشاد ہے ولو علی انفسکم اوالوالدین و الاقربین یعنی عدل و انصاف پر قائم رہو، چاہے وہ عدل و انصاف کا حکم خود تمہارے نفوس یا تمہارے والدین اور عزیزوں و دوستوں کے خلاف پڑے۔ اور سورة مائدہ کی اس آیت میں جملہ مذکور کے بعد یہ ارشاد ہے ولا یجرمنکم شنان قوم علی الا تعدلوا۔ یعنی کسی قوم کی عداوت و دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف کے خلاف کرنے لگو۔
یہی وجہ ہے کہ سورة نساء کی آیت میں قسط یعنی انصاف کو مقدم کرکے ارشاد فرمایاکونوا قوامین بالقسط شھداء للہ اور سورة مائدہ کی آیت میں للہ کو مقدم کرکے ارشاد فرمایا کونوا قومین للّٰہ شھداء بالقسط۔ اگرچہ انجام اور نتیجہ کے اعتبار سے یہ دونوں عنوان ایک ہی مقصد کو ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ جو شخص انصاف پر کھڑا ہوگا، وہ اللہ ہی کے لئے کھڑا ہوگا۔ اور جو شخص اللہ ہی کے لئے کھڑا ہوا ہے وہ ضرور انصاف ہی کرے گا۔ لیکن اپنے نفس اور دوستوں عزیزوں کی رعایت کے مقام میں یہ خیال گزر سکتا ہے کہ ان تعلقات کی رعایت بھی تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ اس لئے وہاں لفظ قسط کو مقدم لا کر اس کی طرف ہدایت کردی کہ وہ رعایت اللہ کے لئے نہیں ہو سکتی جو عدل و انصاف کے خلاف ہو۔ اور سورة مائدہ میں دشمنوں کے ساتھ عدل و انصاف برتنے کا حکم دینا تھا تو وہاں لفظ للہ کو مقدم لاکر انسانی فطرت کو جذبات میں مغلوب ہونے سے نکال دیا۔ کہ تم لوگ اللہ کے لئے کھڑے ہو جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرو۔
خلاصہ یہ ہے کہ سورة نساء اور مائدہ کی دونوں آیتوں میں دو چیزوں کی طرف ہدایت ہے۔ ایک یہ کہ خواہ معاملہ دوستوں سے ہو یا دشمنوں سے عدل و انصاف کے حکم پر قائم رہو۔ نہ کسی تعلق کی رعایت سے اس میں کمزوری آنی چاہیے اور نہ کسی دشمنی و عداوت سے۔ دوسری ہدایت ان دونوں آیتوں میں اس کی بھی ہے کہ سچی شہادت اور حق بات کے بیان کرنے سے پہلو تہی نہ کی جائے۔ تاکہ فیصلہ کرنے والوں کو حق اور صحیح فیصلہ کرنے میں دشواری پیش نہ آئے۔
قرآن کریم نے اس مضمون پر کئی آیتوں میں مختلف عنوانات سے زور دیا ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے کہ لوگ سچی گواہی دینے میں کوتاہی اور سستی نہ برتیں۔ ایک آیت میں نہایت صراحت و وضاحت کے ساتھ یہ حکم دیا۔
ولا تکتموا الشھادۃ تا اثم قلبہ۔ یعنی گواہی کو چھپاؤ نہیں اور جو شخص چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہوگا۔ جس سے سچی گواہی دینا واجب اور اس کا چھپانا شخت گناہ ثابت ہوا۔
لیکن اس کے ساتھ ہی قرآن حکیم نے اس پر بھی نظر رکھی ہے کہ لوگوں کو سچی گواہی دینے سے روکنے والی چیز دراصل یہ ہے کہ گواہ کو بار بار عدالتوں کی حاضری اور فضول قسم کی وکیلانہ جرح سے سابقے پڑتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کا نام کسی گواہی میں آگیا وہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوگیا۔ اپنے کاروبار سے گیا اور مفت کی زحمت میں مبتلا ہوا۔
اس لئے قرآن کریم نے جہاں سچی گواہی دینے کو لازم و واجب قرار دیا، وہیں یہ بھی ارشاد فرمایا دیاولا یضار کاتب ولا شھید۔ یعنی معاملہ کی تحریر لکھنے والوں اور گواہوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔
آج کی عدالتوں اور ان میں پیش ہونے والے مقدمات کی اگر صحیح تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ موقع پر موجود اور سچے گواہ شاذونادر کہیں ملتے ہیں۔ سمجھ دار شریف آدمی جہاں کوئی ایسا واقع دیکھتا ہے وہاں سے بھاگتا ہے کہ کہیں گواہی میں نام نہ آجائے۔ پولیس ادھر ادھر کے گواہوں سے خانہ پری کرتی ہے اور نتیجہ اس کا وہی ہوسکتا ہے جو رات و دن مشاہدہ میں آرہا ہے کہ فیصد دس پانچ مقدمات میں بھی حق و انصاف پر فیصلہ نہیں ہوسکتا اور عدالتیں بھی مجبور ہیں، جیسی شہادتیں ان کے پاس پہنچتی ہیں وہ انہی کے ذریعہ کوئی نتیجہ نکال سکتی ہیں اور انہیں کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتی ہیں۔
مگر اس بنیادی غلطی کو کوئی نہیں دیکھ سکتا کہ اگر گواہوں کے ساتھ شریفانہ معاملہ کیا جائے اور ان کو بار بار پریشان نہ کیا جائے تو اچھے بھلے نیک اور سچے آدمی قرآنی تعلیمات کے پیش نظر گواہی میں آنے سے باز نہ رہیں گے۔ مگر جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ معاملہ کی ابتدائی تحقیق جو پولیس کرتی ہے وہ ہی با ربار بلا کر گواہ کو اتنا پریشان کردیتی ہے کہ وہ آئندہ اپنی اولاد کو کہہ کر مرتا ہے کہ کبھی کسی معاملہ کے گواہ نہ بننا۔ پھر اگر معاملہ عدالت میں پہنچتا ہے تو وہاں تاریخوں پر تاریخیں لگتی ہیں۔ ہر تاریخ پر اس ناکردہ گناہ کو حاضری کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ اس طولانی ضابطہ کاروائی نے جو انگریز اپنی یادگار چھوڑ گیا ہے، ہماری ساری عدالتوں اور محکموں کو گندہ کیا ہوا ہے۔ قدیم سادہ طرز پر جو آج بھی حجاز اور بعض دوسرے ممالک میں رائج ہے نہ مقدمات کی اتنی کثرت ہو سکتی ہے اور نہ ان میں اتنا طول ہوسکتا ہے نہ گواہوں کو گواہی دینا مصیبت بن سکتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ضابطہ شہادت اور ضابطہ کاروائی اگر قرآنی تعلیمات کے مطابق بنایا جائے تو اس کی برکات آج بھی آنکھوں سے مشاہدہ ہونے لگیں۔ قرآن نے ایک طرف واقعہ سے باخبر لوگوں پر سچی شہادت ادا کرنے کو لازم و واجب قرار دے دیا ہے تو دوسری طرف لوگوں کو ایسی ہدایتیں دے دی ہیں کہ گواہوں کو بلاوجہ پریشان نہ کیا جائے۔ کم سے کم وقت میں ان کا بیان لے کر فارغ کردیا جائے۔
امتحانات کے نمبر، سند و سرٹیفکٹ اور انتخابات کے ووٹ سب شہادت کے حکم میں داخل ہیں۔
آخر میں ایک اور اہم بات بھی یہاں جاننا ضروری ہے، وہ یہ کہ لفظ شہادت اور گواہی کا جو مفہوم آج کل عرف میں مشہور ہوگیا ہے وہ تو صرف مقدمات و خصومات میں کسی حاکم کے سامنے گواہی دینے کے لئے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ مگر قرآن و سنت کی اصطلاح میں لفظ شہادت اس سے زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ مثلاً کسی بیمار کو ڈاکٹری سرٹیفیکٹ دینا کہ یہ ڈیوٹی ادا کرنے کے قابل نہیں یا نوکری کرنے کے قابل نہیں۔ یہ بھی ایک شہادت ہے۔ اگر اس میں واقعہ کے خلاف لکھا گیا تو وہ جھوٹی شہادت ہو کر گناہ کبیرہ ہوگیا۔
اسی طرح امتحانات میں طلباء کے پرچوں پر نمبر لگانا بھی ایک شہادت ہے۔ اگر جان بوجھ کر یا بےپراوئی سے نمبروں میں کمی بیشی کردی تو وہ بھی جھوٹی شہادت ہے۔ اور حرام اور سخت گناہ ہے۔
کامیاب ہونے والے فارغ التحصیل طلباء کو سند یا سرٹیفکٹ دینا اس کی شہادت ہے کہ وہ متعلقہ کام کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر وہ شخص واقع میں ایسا نہیں ہے تو اس سرٹیفیکٹ یا سند پر دستخط کرنے والے سب کے سب شہادت کا ذبہ کے مجرم ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح اسمبلیوں اور کونسلوں وغیرہ کے انتخاب میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے۔ جس میں ووٹ دہندہ کی طرف سے اس کی گواہی ہے کہ ہمارے نزدیک یہ شخص اپنی استعداد اور قابلیت کے اعتبار سے بھی اور دیانت و امانت کے اعتبار سے بھی قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے۔
اب غور کیجئے کہ ہمارے نمائندوں میں کتنے ایسے ہوتے ہیں جن کے حق میں یہ گواہی سچی اور صحیح ثابت ہوسکے۔ مگر ہمارے عوام ہیں کہ انہوں نے اس کو محض ہار جیت کا کھیل سمجھ رکھا ہے۔ اس لئے ووٹ کا حق کبھی پیسوں کے عوض میں فروخت ہوتا ہے، کبھی کسی دباؤ کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، کبھی ناپائدار دوستوں اور ذلیل وعدوں کے بھروسہ پر اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔
اور تو اور لکھے پڑھے دینددار مسلمان بھی نااہل لوگوں کو ووٹ دیتے وقت کبھی یہ محسوس نہیں کرتے کہ ہم یہ جھوٹی گواہی دے کر مستحق لعنت و عذاب بن رہے ہیں۔
نمائندوں کے انتخاب کے لئے ووٹ دینے کی ازروئے قرآن ایک دوسری حیثیت بھی ہے جس کو شفاعت یا سفارش کہا جاتا ہے کہ ووٹ دینے والا گویا یہ سفارش کرتا ہے فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے۔ اس کا حکم قرآن کریم کے الفاظ میں پہلے بیان ہوچکا ہے۔ ارشاد ہے۔
ومن یشفع شفاعة حسنة یکن لہ نصیب منھا تا کفل منھا۔
یعنی جو شخص اچھی اور سچی سفارش کرے گا، تو جس کے حق میں سفارش کی ہے اس کے نیک عمل کا حصہ اس کو بھی ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرتا ہے، یعنی کسی نااہل اور برے شخص کو کامیاب بنانے کی سعی کرتا ہے اس کو اس کے برے اعمال کا حصہ ملے گا۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ امیدوار اپنی کارکردگی کے پنج سالہ دور میں غلط اور ناجائز کام کرے گا، ان سب کا وبال ووٹ دینے والے کو بھی پہنچے گا۔
ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لئے وکیل بناتا ہے۔ لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں۔ کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لئے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لئے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔
خلاصہ یہ کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔ ایک شہادت، دوسرے شفاعت اور تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک صالح قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثواب عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں۔ اسی طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری شفاعت بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔
اس لئے ہر مسلمان ووٹر پر فرض ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرلے کہ جس کو ووٹ دے رہا ہے وہ کام کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں اور دیانت دار ہے یا نہیں، محض غفلت و بےپرواہی سے بلاوجہ ان عظیم گناہوں کا مرتکب نہ ہو۔
Top