Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 97
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ الْهَدْیَ وَ الْقَلَآئِدَ١ؕ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
جَعَلَ
: بنایا
اللّٰهُ
: اللہ
الْكَعْبَةَ
: کعبہ
الْبَيْتَ الْحَرَامَ
: احترام ولا گھر
قِيٰمًا
: قیام کا باعث
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ
: اور حرمت والے مہینے
وَالْهَدْيَ
: اور قربانی
وَالْقَلَآئِدَ
: اور پٹے پڑے ہوئے جانور
ذٰلِكَ
: یہ
لِتَعْلَمُوْٓا
: تاکہ تم جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
يَعْلَمُ
: اسے معلوم ہے
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
وَاَنَّ
: اور یہ کہ
اللّٰهَ
: اللہ
بِكُلِّ
: ہر
شَيْءٍ
: چیز
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اللہ نے کردیا کعبہ کو جو کہ گھر ہے بزرگی والا قیام کا باعث لوگوں کیلئے اور بزرگی والے مہینوں کو اور قربانی کو جو کہ نیاز کعبہ کی ہو اور جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر لیجاویں کعبہ کو یہ اس لئے کہ تم جان لو بیشک اللہ کو معلوم ہے جو کچھ کہ ہے آسمان اور زمین میں اور اللہ ہر چیز سے خوب واقف ہے ،
خلاصہ تفسیر
خدا تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ ادب کا مکان ہے، لوگوں (کی مصلحتوں) کے قائم رہنے کا سبب قرار دے دیا ہے اور (اسی طرح) عزت والے مہینہ کو بھی اور (اسی طرح) حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو بھی اور (اسی طرح) ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں (اس نشانی کے لئے) پٹے ہوں (کہ یہ اللہ کی نیاز ہیں حرم میں ذبح ہوں گے) یہ (قرارداد علاوہ اور دنیوی مصلحتوں کے) اس (دینی مصلحت کے) لئے (بھی) ہے تاکہ (تمہارا اعتقاد درست اور پختہ ہو اس طرح سے کہ تم ان مصالح سے استدلال کرکے) اس بات کا یقین (ابتدائً یا کمالاً) کرلو کہ بیشک اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں اور زمین کے اندر کی چیزوں کا علم (کامل) رکھتے ہیں (کیونکہ ایسا حکم مقرر کرنا جس میں آئندہ کے ایسے مصالح مرعی ہوں کہ عقول بشریہ ان کو نہ سوچ سکیں دلیل ہے کمال صفت علمیہ کی) اور (ان معلومات مذکورہ کے ساتھ تعلق علم کامل سے استدلال کرکے یقین کر لو کہ) بیشک اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو خوب جانتے ہیں، (کیونکہ ان معلومات کے علم پر کسی چیز نے مطلع نہیں کیا، معلوم ہوا کہ علم ذاتی کی نسبت جمیع معلوم کے ساتھ یکساں ہوتی ہے) تم یقین سے جان لو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والے بھی ہیں (تو ان کے احکام کی خلاف مت کیا کرو اور جو احیاناً ہوگیا ہو، موافق قواعد شرعیہ کے توبہ کرلو) رسول ﷺ کے ذمہ تو صرف پہنچانا ہے، (سو وہ خوب پہنچا چکے اب تمہارے پاس کوئی عذر و حیلہ نہیں رہا) اور اللہ تعالیٰ سب جانتے ہیں جو کچھ تم (زبان یا جوارح سے) ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ (دل میں) پوشیدہ رکھتے ہو (سو تم کو چاہیے کہ اطاعت ظاہر و باطن دونوں سے کرو) آپ (اے محمد ﷺ ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ ناپاک اور پاک (یعنی گناہ اور اطاعت یا گناہ کرنے والا اور اطاعت کرنے والا) برابر نہیں، (بلکہ خبیث مبغوض ہے اور طیب مقبول ہے، پس اطاعت کرکے مقبول بننا چاہئے، معصیت کرکے مبغوض نہ ہونا چاہئے، اگرچہ اے دیکھنے والے) تجھ کو ناپاک کی کثرت (جیسا اکثر دنیا میں یہی واقع ہوتا ہے) تعجب میں ڈالتی ہو (کہ باوجود ناپسندیدہ ہونے کے یہ کثیر کیوں ہے، مگر یہ سمجھ لو کہ کثرت جو کسی حکمت سے ہے دلیل محمود ہونے کی نہیں، جب کثرت پر مدار نہیں یا یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کے علم و عقاب پر بھی مطلع ہوگئے) تو (اس کو مت دیکھو بلکہ) خدا تعالیٰ (کے خلاف حکم کرنے) سے ڈرتے رہو تاکہ تم (پورے طور سے) کامیاب ہو (کہ وہ جنت اور رضائے حق ہے)
معارف و مسائل
امن و اطمینان کے چار ذرائع
پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے چار چیزوں کو لوگوں کے قیام وبقاء اور امن و اطمینان کا سبب بتلایا ہے۔
اول کعبہ، لفظ کعبہ عربی زبان میں ایسے مکان کو کہتے ہیں جو مربع یعنی چوکور ہو، عرب میں قبیلہ خثعم کا بنایا ہوا ایک اور مکان بھی اسی نام سے موسوم تھا، جس کو کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا، اسی لئے بیت اللہ کو اس کعبہ سے ممتاز کرنے کے لئے لفظ کعبہ کے ساتھ البیت الحرام کا لفظ بڑھایا گیا۔
لفظ قیام اور قوام اسم مصدر ہے، اس چیز کو کہا جاتا ہے جس پر کسی چیز کا قیام وبقاء موقوف ہو، اس لئے قیمٰاً للناس کے معنے یہ ہوئے کہ کعبہ اور اس کے متعلقات لوگوں کے قیام وبقاء کا سبب اور ذریعہ ہیں۔
اور لفظ ناس لغت میں عام انسانوں کے لئے بولا جاتا ہے، اس جگہ قرینہ مقام کی وجہ سے خاص مکہ والے یا اہل عرب بھی مراد ہوسکتے ہیں اور عام دنیا کے انسان بھی، اور ظاہر یہی ہے کہ پورے عالم کے انسان اس میں داخل ہیں، البتہ مکہ اور عرب والے ایک خاص خصوصیت رکھتے ہیں، اس لئے مطلب آیت کا یہ ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ بیت اللہ اور جن چیزوں کا ذکر آگے آتا ہے، ان کو پورے عالم انسانیت کے لئے قیام وبقاء اور امن و سکون کا ذریعہ بنادیا ہے، جب تک دنیا کا ہر ملک، ہر خطہ اور ہر سمت کے لوگ اس بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرتے رہیں اور بیت اللہ کا حج ہوتا رہے یعنی جن پر حج فرض ہو وہ حج ادا کرتے رہیں اس وقت تک یہ پوری دنیا قائم اور محفوظ رہے گی۔ اور اگر ایک سال بھی ایسا ہوجائے کہ کوئی حج نہ کرے یا کوئی شخص بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا نہ کرے تو پوری دنیا پر عذاب عام آجائے گا۔
بیت اللہ پورے عالم کا عمود ہے
اسی مضمون کو امام تفسیر حضرت عطار رحمة اللہ علیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہےلو ترکزہ عاماً واحدا لم ینظروا ولم یؤ خروا (بحر محیط) اس سے معلوم ہوا کہ معنوی طور پر بیت اللہ اس پورے عالم کا عمود ہے، جب تک اس کا استقبال اور حج ہوتا رہے گا دنیا قائم رہے گی، اور اگر کسی وقت بیت اللہ کا یہ احترام ختم ہوا تو دنیا بھی ختم کردی جائے گی، رہا یہ معاملہ کہ نظام عالم اور بیت اللہ میں جوڑ اور ربط کیا ہے ؟ سو اس کی حقیقت معلوم ہونا ضروری نہیں، جس طرح مقناطیس اور لوہے اور کہربا اور تنکے کے ربط باہمی کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں، مگر وہ ایک ایسی حقیقت ہے جو مشاہدہ میں آتی ہے اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، بیت اللہ اور نظام عالم کے باہمی ربط کی حقیقت کا ادراک بھی انسان کے قبضہ میں نہیں، وہ خالق کائنات کے بتلانے ہی سے معلوم ہوسکتا ہے، بیت اللہ کا پورے عالم کی بقاء کے لئے سبب ہونا تو ایک معنوی چیز ہے ظاہری نظریں اس کو نہیں پاسکتیں، لیکن عرب اور اہل مکہ کے لئے اس کا موجب امن و سلامتی ہونا طویل تجربات اور مشاہدات سے ثابت ہے۔
بیت اللہ کا وجود امن عالم کا سبب ہے
عام دنیا میں قیام امن کی صورت حکومتوں کے قوانین اور ان کی گرفت ہوتی ہے، اس کی وجہ سے ڈاکو، چور، قتل و غارت گری کرنے والے کی جرأت نہیں ہوتی، لیکن جاہلیت عرب میں نہ کوئی باقاعدہ حکومت قائم تھی، اور نہ امن عامہّ کے لئے کوئی قانون عام تھا، سیاسی نظام محض قبائلی بنیادوں پر قائم تھا۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کی جان و مال عزت و آبرو سب ہی چیزوں پر جب چاہے حملہ کرسکتا تھا، اس لئے کسی قبیلہ کے لئے کسی وقت امن و اطمینان کا موقع نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کو حکومت کے قائم مقام ذریعہ امن بنادیا جس طرح حکومت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت کوئی سمجھدار انسان نہیں کرسکتا، اسی طرح بیت اللہ شریف کی حرمت و تعظیم حق تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت میں بھی عام لوگوں کے دلوں میں اس طرح پیوست کردی تھی کہ اس کے احترام کے لئے اپنے سارے جذبات و خواہشات کو پیچھے ڈال دیتے تھے۔
عرب جاہلیت جو اپنی جنگ جوئی اور قبائلی تعصب میں پوری دنیا میں ضرب المثل تھی اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ اور اس کے متعلقات کی اتنی حرمت و تعظیم ان کے دلوں میں پیوست کردی تھی کہ ان کا کیسا بھی جانی دشمن یا سخت سے سخت مجرم ہو اگر وہ حرم شریف میں داخل ہوجائے تو انتہائی غم و غصہ کے باوجود اس کو کچھ نہ کہتے، باپ کا قاتل حرم میں بیٹے کو ملتا تو بیٹا نیچے نظریں کرکے گزر جاتا تھا۔
اسی طرح جو شخص حج وعمرہ کے لئے نکلا ہو یا جو جانور حرم شریف میں قربانی کے لئے لایا گیا ہو اس کا بھی اتنا احترام عرب میں عام تھا کہ کوئی برے سے برا شخص بھی اس کو کوئی گزند نہ پہنچاتا تھا، اور اگر وہ جانی دشمن بھی ہے تو ایسی حالت میں جبکہ اس نے حج وعمرہ کی کوئی علامت احرام یا قلادہ باندھا ہوا ہو اس کو قطعاً کچھ نہ کہتے تھے۔
سنہ 6 ہجری یعنی جب رسول کریم ﷺ صحابہ کرام کی ایک خاص جماعت کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر بقصد بیت اللہ روانہ ہوئے اور حدود حرم کے قریب مقام حدیبیہ پر قیام فرما کر حضرت عثمان غنی ؓ کو چند رفیقوں کے ساتھ مکہ بھیجا کہ مکہ کے سرداروں سے کہہ دیں کہ مسلمان اس وقت کسی جنگ کی نیت سے نہیں بلکہ عمرہ ادا کرنے کے لئے آئے ہیں اس لئے ان کی راہ میں کوئی مزاحمت نہ ہونی چاہئے۔
قریشی سرداروں نے بہت سے بحث و مباحثہ کے بعد اپنا ایک نمائندہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا، آنحضرت ﷺ نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ یہ شخص حرمات بیت اللہ کا خاص لحاظ رکھنے والا ہے، اس لئے اپنے قربانی کے جانور جن پر قربانی کا نشان کیا ہوا ہے اس کے سامنے کردو، اس نے جب یہ ہدایا (قربانی کے جانور) دیکھے تو اقرار کیا کہ بیشک ان لوگوں کو بیت اللہ سے ہرگز نہیں روکنا چاہئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ حرم محترم کا احترام زمانہ جاہلیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب میں ایسا رکھ دیا تھا کہ اس کی وجہ سے امن وامان قائم رہتا تھا، اس احترام کے نتیجہ میں صرف حرم شریف کے اندر آنے جانے والے اور وہ لوگ مامون ہوجاتے تھے جو حج وعمرہ کے لئے نکلے ہیں، اور حج کی کوئی علامت ان پر موجود ہے، اطراف عالم کے لوگوں کو اس سے کوئی نفع امن و اطمینان کا حاصل نہ ہوتا تھا، لیکن عرب میں جس طرح بیت اللہ کے مکان اور اس کے گردوپیش کے حرم محترم کا احترام عام تھا اسی طرح حج کے مہینوں کا بھی خاص احترام تھا کہ ان مہینوں کو اشہر حرم کہتے تھے، ان کے ساتھ رجب کو بھی بعض نے شامل کرلیا تھا، ان مہینوں میں حرم سے باہر بھی قتل و قتال کو تمام عرب حرام سمجھتا اور پرہیز کرتا تھا۔
اسی لئے قرآن کریم نے قیما للناس ہونے میں کعبہ کے ساتھ تین اور چیزوں کو شامل فرمایا ہے، اول اشھر الحرام یعنی عزت و عظمت کا مہینہ، یہاں چونکہ لفظ شھر مفرد لایا گیا ہے، اس لئے عام مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس جگہ ”شہر حرام“ سے مراد ماہ ذی الحجہ ہے، جس میں حج کے ارکان و اعمال ادا کئے جاتے ہیں، اور بعض نے فرمایا کہ لفظ اگرچہ مفرد ہے مگر مراد اس سے جنس ہے، اس لئے سب ہی اشہر حرم (عزت کے مہینے) اس میں داخل ہیں۔
دوسری چیز ھدی، ہے، ھدی اس جانور کا کہا جاتا ہے جس کی قربانی حرم شریف میں کی جائے، ایسے جانور جس شخص کے ساتھ ہوں عام عرب کا معمول تھا کہ اس کو کچھ نہ کہتے تھے، وہ امن و اطمینان کے ساتھ سفر کرتا اور اپنا مقصد پورا کرسکتا تھا، اس لئے ھدی بھی قیام امن کا ایک سبب ہوئی۔
تیسری چیز قلائد ہیں، قلائد قلادہ کی جمع ہے، گلے کے ہار کو کہا جاتا ہے۔ جاہلیت عرب کی رسم یہ تھی کہ جو شخص حج کے لئے نکلتا تو اپنے گلے میں ایک ہار بطور علامت کے ڈال لیتا تھا، تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ سمجھ لیں کہ یہ حج کے لئے جارہا ہے کوئی تکلیف نہ پہنچائیں، اسی طرح قربانی کے جانوروں کے گلے میں بھی اس طرح کے ہار ڈالے جاتے تھے۔ ان کو بھی قلائد کہتے ہیں، اس لئے قلائد بھی قیام امن و سکون کا ایک ذریعہ بن گئے۔
اور اگر غور کیا جائے تو یہ تینوں چیزیں شہر حرام، ھدی اور قلائد سب کے سب بیت اللہ کے متعلقات میں سے ہیں، ان کا احترام بھی بیت اللہ ہی کے احترام کا ایک شعبہ ہے، خلاصہ یہ ہے کہ بیت اللہ اور اس کے متعلقات کو اللہ تعالیٰ نے پورے عالم انسانیت کے لئے عموماً اور عرب اور اہل مکہ کے لئے خصوصاً ان کے تمام امور دین و دنیا دونوں کے لئے قیام و قوام بنادیا ہے۔
قیماً للناس کی تفسیر میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بیت اللہ اور حرم محترم سب کے لئے جائے امن بنایا گیا ہے، بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد اہل مکہ کے لئے وسعت رزق ہے، کہ باوجود اس کے کہ اس زمین میں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی، مگر اللہ تعالیٰ دنیا بھر کی چیزیں وہاں پہنچاتے رہتے ہیں۔
بعض نے کہا کہ اہل مکہ جو کہ بیت اللہ کے خادم اور محافظ کہلاتے تھے ان کو لوگ اللہ والے سمجھ کر ہمیشہ ان کیساتھ تعظیم کا معاملہ کرتے تھے، قیما للناس سے ان کا یہ خاص اعزاز مراد ہے۔
امام عبداللہ رازی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ان سب اقوال میں کوئی اختلاف نہیں لفظ قیماً للناس کے مفہوم میں یہ سب چیزیں داخل ہیں، کہ اللہ تعالیٰ کو سب لوگوں کے بقاء و قیام اور معاش و معاد کی صلاح و فلاح کا ذریعہ بنایا ہے، اور اہل عرب اور اہل مکہ کو خصوصیت کے ساتھ اس کی برکات ظاہرہ اور باطنہ سے نوازا ہے۔
آخر آیت میں ارشاد فرمایا ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ، یعنی ہم نے بیت اللہ کو اور اس کے متعلقات کو لوگوں کے لئے ذریعہ امن وامان اور قیام وبقاء بنادیا ہے، جس کا مشاہدہ اہل عرب خصوصیت کے ساتھ کرتے رہتے ہیں، یہ اس لئے کہا گیا کہ سب لوگ یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر چیز کو پورا پورا جانتے ہیں، اور وہی اس کا انتظام کرسکتے ہیں۔
Top