Maarif-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 25
اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ١ۚ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَۚ
اِذْ دَخَلُوْا : جب وہ آئے عَلَيْهِ : اس کے پاس فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا سَلٰمًا ۭ : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ ۚ : سلام قَوْمٌ : لوگ مُّنْكَرُوْنَ : ناشناسا
جب اندر پہنچے اس کے پاس تو بولے سلام وہ بولا سلام ہے یہ لوگ ہیں اوپرے
معارف و مسائل
یہاں سے رسول اللہ ﷺ کی تسلی کے لئے گزری ہوئی امتوں میں سے چند انبیاء کے واقعات بیان کئے گئے ہیں
(آیت) فَقَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ، فرشتوں نے سلاماً کہا تھا، خلیل اللہ نے جواب میں سلام رفع کے ساتھ کہا کیونکہ مرفوع ہونے کی صورت میں یہ جملہ اسمیہ بنا جس میں دوام و استمرار اور قوت زیادہ ہے، تو جیسا قرآن کریم میں حکم ہے کہ سلام کا جواب سلام کرنے والے کے الفاظ سے بہتر الفاظ میں ہو اس کی تعمیل فرمائی
قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ ، منکر، بضم مم و فتح کاف، اوپرے اور اجنبی کو کہا جاتا ہے، چونکہ گناہ کے کام بھی اسلام میں اوپرے اور اجنبی ہوتے ہیں، اس لئے گناہ کو بھی منکر کہہ دیا جاتا ہے، مراد جملے کی یہ ہے کہ یہ حضرات فرشتے بشکل بشر آئے تھے، ابراہیم ؑ نے ان کو پہچانا نہیں، اس لئے اپنے دل میں یہ کہا کہ یہ اجنبی لوگ ہیں جن کو ہم نہیں پہچانتے اور ممکن ہے کہ خود مہمانوں کے سامنے ہی اس کا ذکر بطور استفہام کے کردیا ہو اور مقصد ان کا تعارف دریافت کرنا ہو۔
Top