Maarif-ul-Quran - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
اب تو سمجھا دے کہ تو اپنے رب کے فضل سے نہ جنوں سے خبر لینے والا ہے اور نہ دیوانہ
خلاصہ تفسیر
(جب آپ پر مضامین واجب التبلیغ کی وحی کی جاتی ہے جیسے اوپر ہی جنت و دوزخ کے مستحقین کی تفصیل کی گئی ہے) تو آپ (ان مضامین سے لوگوں کو) سمجھتے رہئے کیونکہ آپ بفضلہ تعالیٰ نہ تو کاہن ہیں اور نہ مجنون ہیں (جیسا مشرکین کا یہ قول سورة الضحیٰ کی شان نزول میں منقول ہے قد ترکک شیطانک رواہ البخاری، جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ کاہن نہیں ہو سکتے، کیونکہ کاہن شیاطین سے خبریں حاصل کرتا ہے اور آپ کا شیطان سے کوئی واسطہ نہیں اور ایک آیت میں ہے وَيَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ الآیة اس میں آپ سے جنون کی نفی کی گئی ہے، مطلب یہ کہ آپ نبی ہیں اور نبی کا کام ہمیشہ نصیحت کرتے رہنا ہے، گو لوگ کچھ ہی بکیں) ہاں کیا یہ لوگ (علاوہ کاہن اور مجنون کہنے کے آپ کی نسبت) یوں (بھی) کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں (اور) ہم ان کے بارے میں حادثہ موت کا انتظار کر رہے ہیں (جیسا در منثور میں ہے کہ قریش دار الندوہ میں مجتمع ہوئے اور آپ کے بارے میں یہ مشورہ قرار پایا کہ جیسے اور شعراء مر کر ختم ہوگئے آپ بھی ان ہی میں کے ایک ہیں، اسی طرح آپ بھی ہلاک ہوجائیں گے تو اسلام کا قصہ ختم ہوجائے گا) آپ فرما دیجئے (بہتر) تم منتظر رہو سو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں (یعنی تم میرا انجام دیکھو میں تمہارا انجام دیکھتا ہوں، اس میں اشارۃً پیشین گوئی ہے کہ میرا نجام فلاح و کامیابی ہے اور تمہارا انجام خسارہ اور ناکامی ہے اور یہ مقصود نہیں کہ تم مرو گے میں نہ مروں گا، بلکہ ان لوگوں کا جو اس سے مقصود تھا کہ ان کا دین چلے گا نہیں، یہ مر جاویں گے تو دین مٹ جاوے گا، جواب میں اس کا رد مقصود ہے، چناچہ یوں ہی ہوا اور یہ لوگ جو ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں تو) کیا ان کی عقلیں (جس کے یہ بڑے مدعی ہیں) ان کو ان باتوں کی تعلیم کرتی ہیں یا یہ ہے کہ یہ شریر لوگ ہیں (ان کا مدعی عقل و دانش ہونا ان کے اس قول سے ثابت ہے، لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ، احقاف۔ اور معالم کی نقل سے اس کی اور تائید ہوتی ہے کہ عظماء قریش لوگوں میں بڑے عقلمند مشہور تھے، پس اس آیت میں ان کی عقل کی حالت دکھلائی گئی ہے کہ کیوں صاحب بس یہی عقل ہے جو ایسی تعلیم دے رہی ہے اور اگر یہ عقل کی تعلیم نہیں ہے تو نری شرارت اور ضد ہے) ہاں کیا وہ یہ (بھی) کہتے ہیں کہ انہوں نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے (سو تحقیقی جواب تو اس کا یہ ہے کہ یہ بات نہیں ہے) بلکہ (یہ بات صرف اس وجہ سے کہتے ہیں کہ) یہ لوگ (بوجہ عناد کے اس کی) تصدیق نہیں کرتے (اور قاعدہ ہے کہ جس چیز کی آدمی تصدیق نہیں کرتا ہزار وہ حق ہو مگر اس کی ہمیشہ نفی ہی کیا کرتا ہے اور دوسرا الزامی جواب یہ ہے کہ اچھا اگر یہ ان کا بنایا ہوا ہے) تو یہ لوگ (بھی عربی اور بڑے فصیح وبلیغ اور قادر الکلام ہیں) اس طرح کا کوئی کلام (بنا کر) لے آئیں اگر یہ (اس دعوے میں) سچے ہیں (یہ سب مضامین رسالت کے متعلق ہیں آگے توحید کے متعلق گفتگو ہے کہ یہ لوگ جو توحید کے منکر ہیں تو) کیا یہ لوگ بدون کسی خالق کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں یا (یہ کہ نہ اپنے خالق ہیں اور نہ بلا خالق مخلوق ہوئے ہیں لیکن) انہوں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے (اور اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت میں شریک ہیں، حاصل یہ کہ جو شخص صفت خالقیت صرف حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہونے اور خود اپنے آپ کا بھی محتاج خالق ہونے کا اعتقاد رکھے تو عقلاً اس پر لازم ہے کہ توحید کا بھی قائل ہو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ قرار دے اور توحید کا انکار وہ شخص کرسکتا ہے جو صفت خالقیت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہ جانے یا اپنی مخلوقیت کا منکر ہو اور چونکہ یہ لوگ اپنے عدم غور و فکر کی وجہ سے یہ نہیں جانتے تھے کہ خالق جب ایک ہے تو معبود بھی ایک ہی ہونا لازم ہے، اس لئے آگے ان کے اس جہل کی طرف اشارہ ہے کہ واقع میں ایسا نہیں) بلکہ یہ لوگ (بوجہ جہل کے توحید کا) یقین نہیں لاتے (وہ جہل یہی ہے کہ اس میں غور نہیں کرتے کہ خالقیت اور معبودیت میں تلازم ہے، یہ گفتگو توحید کے متعلق ہوئی، آگے رسالت کے متعلق ان کے دوسرے مزعومات کا رد ہے، چناچہ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر نبوت ہی ملنی تھی تو فلاں فلاں رؤسا مکہ و طائف کو ملتی حق تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہیں کہ) کیا ان لوگوں کے پاس تمہارے رب (کی نعمتوں اور رحمتوں) کے (جن میں نبوت بھی داخل ہے) خزانے ہیں (کہ جس کو چاہو نبوت دیدو، کقولہ تعالیٰ اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ) یا یہ لوگ (اس محکمہ نبوت کے) حاکم ہیں ، (کہ جسے چاہیں نبوت دلوا دیں، یعنی دینے دلانے کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ مثلاً خزانہ اپنے قبضہ میں ہو، دوسری یہ کہ قبضہ میں نہ ہو مگر قابضان خزانہ اس کے محکوم ہوں کہ اس کے دستخط دیکھ کردیتے ہوں، یہاں دونوں کی نفی فرما دی، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ جو رسالت محمدیہ کے منکر ہیں اور مکہ و طائف کے رؤسا کو رسالت کا مستحق قرار دیتے ہیں ان کے پاس اس کی کوئی دلیل عقلی تو ہے نہیں بلکہ خود اس کے عکس پر دلائل عقلیہ قائم ہیں اور اسی لئے محض استفہام انکاری پر اکتفاء فرمایا، اب آگے دلیل نقلی کی نفی فرماتے ہیں یعنی) کیا ان لوگوں کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر (چڑھ کر آسمان کی) باتیں سن لیا کرتے ہیں (یعنی دلیل نقلی وحی آسمانی ہے اور اس کے علم کے دو طریقے ہیں یا تو وحی کسی شخص پر آسمان سے نازل ہو، یا صاحب وحی آسمان پر چڑھے اور دونوں کا منتفی ہونا ان لوگوں سے ظاہر ہے، آگے اس کے متعلق ایک احتمال عقلی کا ابطال فرماتے ہیں کہ اگر فرضًا یہ لوگ یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ ہم آسمان پر چڑھ جاتے اور وہاں کی باتیں سنتے ہیں) تو ان میں جو (وہاں کی) باتیں سن آتا ہو وہ (اس دعویٰ پر) کوئی صاف دلیل پیش کرے (جس سے ثابت ہو کہ یہ شخص مشرف بہ وحی ہوا ہے، جیسا ہمارے نبی اپنی وحی پر دلائل خارقہ یقینیہ رکھتے ہیں، آگے پھر توحید کے بارے میں ایک خاص مضمون کے متعلق کلام ہے، یعنی منکرین توحید جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر شرک کرتے ہیں تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ) کیا خدا کے لئے بیٹیاں (تجویز کی جاویں) اور تمہارے لئے بیٹے (تجویز ہوں یعنی اپنے لئے تو وہ چیز پسند کرتے ہو جس کو اعلیٰ درجہ کا سمجھتے ہو اور خدا کے لئے وہ چیز تجویز کرتے ہو جس کو ادنیٰ درجہ کی سمجھتے ہو، جس کا بیان سورة صافات کے اخیر میں مفصل مدلل گزرا ہے، آگے پھر رسالت کے متعلق کلام ہے کہ ان کو جو باوجود آپ کی حقانیت ثابت ہوجانے کے آپ کا اتباع اس قدر ناگوار ہے تو) کیا آپ ان سے کچھ معاوضہ (تبلیغ احکام کا) مانگتے ہیں کہ وہ تاوان ان کو گراں معلوم ہوتا ہے (وہذا کقولہ تعالیٰ ام تسئلہم خرجا الخ آگے قیامت اور جزاء کے متعلق کلام ہے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اول تو قیامت ہوگی نہیں اور اگر بالفرض ہوگی تو ہم وہاں بھی اچھے رہیں گے، کما فی قولہ (آیت) تعالیٰ وما اظن الساعة قائمتہ ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی، تو ہم اس کے متعلق ان سے پوچھتے ہیں کہ) کیا ان کے پاس غیب (کا علم) ہے کہ یہ (اس کو محفوظ رکھنے کے واسطے) لکھ لیا کرتے ہیں (یہ احقر کے نزدیک کنایہ ہے یحفظون سے کیونکہ کتابت طریقہ ہے حفظ کا، پس حاصل یہ ہوا کہ جس امر پر اثباتاً یا نفیاً کوئی دلیل عقلی قائم نہ ہو وہ غیب محض ہے، اس کا دعویٰ اثباتاً یا نفیاً وہ کرے جس کو کسی واسطہ سے اس غیب پر مطلع کیا جاوے اور پھر مطلع ہونے کے بعد وہ اس کو محفوظ بھی رکھے، اس لئے کہ اگر معلوم ہونے کے بعد محفوظ نہ ہو تب بھی حکم اور دعویٰ بلا علم ہوگا، پس تم جو قیامت کی نفی اور اپنے لئے حسنیٰ کے قائل ہو تو کیا تم کو غیب پر کسی واسطہ سے اطلاع دی گئی ہے جیسا کہ ہمارے نبی کو اثبات قیامت اور تم سے اچھی حالت کی نفی کی خبر غیبی وحی دی گئی ہے اور وہ اس کو محفوظ رکھ کر اوروں کو پہنچا رہے ہیں، آگے رسالت کے متعلق ایک اور کلام ہے وہ یہ کہ وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ) سو یہ کافر خود ہی (اس) برائی (کے وبال) میں گرفتار ہوں گے (چنانچہ اس قصد میں ناکام ہوئے اور بدر میں مقتول ہوئے، آگے پھر توحید کے متعلق کلام ہے کہ) کیا ان کا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے اور (آگے پھر رسالت کے متعلق ایک کلام ہے وہ یہ کہ یہ لوگ نفی رسالت کے لئے ایک بات یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ ہم تو آپ کو اس وقت رسول جانیں جب ہم پر ایک آسمان کا ٹکڑا گرا دو ، کما قال تعالیٰ (آیت) وقالوا لن نومن الی قولہ او تسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا، سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو دعویٰ پر خواہ وہ دعویٰ رسالت ہو یا اور کچھ ہو مطلق دلیل کا بشرطیکہ صحیح ہو قائم کردینا کافی ہے جو کہ دعویٰ رسالت ہی کے وقت سے بلا کسی قدح و جرح کے قائم اور کسی خاص دلیل کا قائم ہونا ضروری نہیں اور نہ اس سے دعویٰ نبوت میں قدح لازم آتا ہے، تبرعاً کوئی فرمائشی دلیل قائم کی جاوے تو یہ اس وقت ہے جب اس میں کوئی مصلحت ہو، مثلاً درخواست کنندہ طالب حق ہو، تو یہی سمجھا جاوے کہ خیر اسی ذریعہ سے اس کو ہدایت ہوجاوے گی اور کوئی معتدبہ حکمت ہو اور یہاں یہ مصلحت بھی نہیں، کیونکہ ان کی یہ فرمائش حق کے لئے نہیں بلکہ محض تعنت وعناد کی راہ سے ہے اور وہ ایسے ضدی ہیں کہ) اگر (ان کا یہ فرمائشی معجزہ واقع بھی ہوجاوے اور) وہ آسمان کے ٹکڑے کو دیکھ (بھی لیں) کہ گرتا ہوا آ رہا ہے تو (اس کو بھی) یوں کہہ دیں کہ یہ تو تہ بتہ جما ہوا بادل ہے (کقولہ تعالیٰ (آیت) ولو انا فتحنا علیہم بابا من السمآء فظلوا فیہ یعرجون، پس جب مصلحت بھی نہیں ہے اور دوسری مصلتحوں کی نفی کا بھی ہم کو علم ہے بلکہ ان فرمائشی معجزات کا وقوع خلاف حکمت ہے پس جب ضرورت نہیں مصلحت نہیں بلکہ خلاف مصلحت ہے پھر کیوں واقع کیا جاوے اور نہ اس کے عدم وقوع سے نبوت کی نفی ہوتی ہے، آگے ان کے غلو فی الکفر پر جو اوپر کی آیتوں سے اور شدت عناد پر جو کہ آخر کی آیت سے معلوم ہوتا ہے بطور تفریع کے حضور ﷺ کو تسلی دی گئی ہے، فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ ایسے طاغی اور باغی اور غالی ہیں) تو (ان سے توقع ایمان کر کے رنج میں نہ پڑیئے بلکہ) ان کو (انہی کی حالت پر) رہنے دیجئے یہاں تک کہ ان کو اپنے اس دن سے سابقہ (واقع) ہو جس میں ان کے ہوش اڑ جاویں گے (مراد قیامت کا دن ہے، اور اس صعق کی تفصیل سورة زمر کی آخری آیت ونفخ الخ کی تفسیر میں گزری ہے اور معنیٰ حتیٰ کی تحقیق سورة زخرف کے آخر میں جہاں حتی یلاقو آیا ہے گزری ہے، آگے اس دن کا بیان ہے یعنی) جس دن ان کی تدبیریں (جو دنیا میں اسلام کی مخالفت اور اپنی کامیابی کے بارے میں کا کرتے تھے) ان کے کچھ بھی کام نہ آویں گی اور نہ (کہیں سے) ان کو مدد ملے گی (نہ تو مخلوق کی طرف سے کہ اس کا امکان ہی نہیں اور نہ خالق کی طرف سے کہ اس کا وقوع نہیں، یعنی اس روز ان کو حقیقت معلوم ہوجاوے گی، باقی اس سے ادھر ایمان لانے والے نہیں) اور (آخرت میں تو یہ مصیبت ان پر آوے ہی گی لیکن) ان ظالموں کے لئے قبل اس (عذاب) کے بھی عذاب ہونے والا ہے (یعنی دنیا میں جیسے قحط اور غزوہ بدر میں قتل ہونا) لیکن ان میں اکثر کو معلوم نہیں (اکثر شاید اس لئے فرمایا ہو کہ بعضوں کے لئے ایمان مقدر تھا اور ان کا عدم علم بوجہ اس کے کہ علم سے مبدل ہونے والا تھا اس لئے وہ عدم علم نہیں قرار دیا گیا) اور (جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ ہم ان کی سزا کے لئے ایک وقت معین کرچکے ہیں تو) آپ اپنے رب کی (اس) تجویز پر صبر سے بیٹھے رہئے (اور ان لوگوں کیلئے انتقام الٰہی کی جلدی نہ کیجئے جس کو آپ مسلمانوں کی خواہش اور ان کی امداد کی حیثیت سے چاہتے تھے اور نہ اس خیال سے انتقام میں جلدی کیجئے کہ یہ لوگ مدت مہلت میں آپ کو کوئی ضرر پہنچا سکیں گے سو اس کا بھی اندیشہ نہ کیجئے کیوں) کہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں (پھر کا ہے کا ڈر، چناچہ یونہی واقع ہوا) اور (اگر ان کے کفر کا غم دل پر آوے تو اس کا علاج یہ ہے کہ توجہ الی اللہ رکھا کیجئے، مثلاً یہ کہ) اٹھتے وقت (یعنی مجلس سے یا سونے سے اٹھتے وقت، مثلا تہجد میں) اپنے رب کی تسبیح وتحمید کیا کیجئے اور رات (کے کسی حصہ) میں بھی اس کی تسبیح کیا کیجئے (مثلاً عشاء کے وقت) اور ستاروں (کے غروب ہونے) سے پیچھے بھی (مثلاً نماز صبح اور مطلق ذکر بھی اس میں آ گیا اور تخصیص ان اوقات کی بوجہ خاصہ اہتمام کے لئے ہے، حاصل یہ کہ اپنے دل کو ادھر مشغول رکھئے پھر فکر و غم کا غلبہ نہ ہوگا)۔
Top