Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ
: پس نصیحت کیجیے
فَمَآ اَنْتَ
: پس نہیں آپ
بِنِعْمَتِ
: نعمت سے
رَبِّكَ
: اپنے رب کی
بِكَاهِنٍ
: کا ھن
وَّلَا مَجْنُوْنٍ
: اور نہ مجنون
اب تو سمجھا دے کہ تو اپنے رب کے فضل سے نہ جنوں سے خبر لینے والا ہے اور نہ دیوانہ
خلاصہ تفسیر
(جب آپ پر مضامین واجب التبلیغ کی وحی کی جاتی ہے جیسے اوپر ہی جنت و دوزخ کے مستحقین کی تفصیل کی گئی ہے) تو آپ (ان مضامین سے لوگوں کو) سمجھتے رہئے کیونکہ آپ بفضلہ تعالیٰ نہ تو کاہن ہیں اور نہ مجنون ہیں (جیسا مشرکین کا یہ قول سورة الضحیٰ کی شان نزول میں منقول ہے قد ترکک شیطانک رواہ البخاری، جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ کاہن نہیں ہو سکتے، کیونکہ کاہن شیاطین سے خبریں حاصل کرتا ہے اور آپ کا شیطان سے کوئی واسطہ نہیں اور ایک آیت میں ہے وَيَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ الآیة اس میں آپ سے جنون کی نفی کی گئی ہے، مطلب یہ کہ آپ نبی ہیں اور نبی کا کام ہمیشہ نصیحت کرتے رہنا ہے، گو لوگ کچھ ہی بکیں) ہاں کیا یہ لوگ (علاوہ کاہن اور مجنون کہنے کے آپ کی نسبت) یوں (بھی) کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں (اور) ہم ان کے بارے میں حادثہ موت کا انتظار کر رہے ہیں (جیسا در منثور میں ہے کہ قریش دار الندوہ میں مجتمع ہوئے اور آپ کے بارے میں یہ مشورہ قرار پایا کہ جیسے اور شعراء مر کر ختم ہوگئے آپ بھی ان ہی میں کے ایک ہیں، اسی طرح آپ بھی ہلاک ہوجائیں گے تو اسلام کا قصہ ختم ہوجائے گا) آپ فرما دیجئے (بہتر) تم منتظر رہو سو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں (یعنی تم میرا انجام دیکھو میں تمہارا انجام دیکھتا ہوں، اس میں اشارۃً پیشین گوئی ہے کہ میرا نجام فلاح و کامیابی ہے اور تمہارا انجام خسارہ اور ناکامی ہے اور یہ مقصود نہیں کہ تم مرو گے میں نہ مروں گا، بلکہ ان لوگوں کا جو اس سے مقصود تھا کہ ان کا دین چلے گا نہیں، یہ مر جاویں گے تو دین مٹ جاوے گا، جواب میں اس کا رد مقصود ہے، چناچہ یوں ہی ہوا اور یہ لوگ جو ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں تو) کیا ان کی عقلیں (جس کے یہ بڑے مدعی ہیں) ان کو ان باتوں کی تعلیم کرتی ہیں یا یہ ہے کہ یہ شریر لوگ ہیں (ان کا مدعی عقل و دانش ہونا ان کے اس قول سے ثابت ہے، لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ، احقاف۔ اور معالم کی نقل سے اس کی اور تائید ہوتی ہے کہ عظماء قریش لوگوں میں بڑے عقلمند مشہور تھے، پس اس آیت میں ان کی عقل کی حالت دکھلائی گئی ہے کہ کیوں صاحب بس یہی عقل ہے جو ایسی تعلیم دے رہی ہے اور اگر یہ عقل کی تعلیم نہیں ہے تو نری شرارت اور ضد ہے) ہاں کیا وہ یہ (بھی) کہتے ہیں کہ انہوں نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے (سو تحقیقی جواب تو اس کا یہ ہے کہ یہ بات نہیں ہے) بلکہ (یہ بات صرف اس وجہ سے کہتے ہیں کہ) یہ لوگ (بوجہ عناد کے اس کی) تصدیق نہیں کرتے (اور قاعدہ ہے کہ جس چیز کی آدمی تصدیق نہیں کرتا ہزار وہ حق ہو مگر اس کی ہمیشہ نفی ہی کیا کرتا ہے اور دوسرا الزامی جواب یہ ہے کہ اچھا اگر یہ ان کا بنایا ہوا ہے) تو یہ لوگ (بھی عربی اور بڑے فصیح وبلیغ اور قادر الکلام ہیں) اس طرح کا کوئی کلام (بنا کر) لے آئیں اگر یہ (اس دعوے میں) سچے ہیں (یہ سب مضامین رسالت کے متعلق ہیں آگے توحید کے متعلق گفتگو ہے کہ یہ لوگ جو توحید کے منکر ہیں تو) کیا یہ لوگ بدون کسی خالق کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں یا (یہ کہ نہ اپنے خالق ہیں اور نہ بلا خالق مخلوق ہوئے ہیں لیکن) انہوں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے (اور اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت میں شریک ہیں، حاصل یہ کہ جو شخص صفت خالقیت صرف حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہونے اور خود اپنے آپ کا بھی محتاج خالق ہونے کا اعتقاد رکھے تو عقلاً اس پر لازم ہے کہ توحید کا بھی قائل ہو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ قرار دے اور توحید کا انکار وہ شخص کرسکتا ہے جو صفت خالقیت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہ جانے یا اپنی مخلوقیت کا منکر ہو اور چونکہ یہ لوگ اپنے عدم غور و فکر کی وجہ سے یہ نہیں جانتے تھے کہ خالق جب ایک ہے تو معبود بھی ایک ہی ہونا لازم ہے، اس لئے آگے ان کے اس جہل کی طرف اشارہ ہے کہ واقع میں ایسا نہیں) بلکہ یہ لوگ (بوجہ جہل کے توحید کا) یقین نہیں لاتے (وہ جہل یہی ہے کہ اس میں غور نہیں کرتے کہ خالقیت اور معبودیت میں تلازم ہے، یہ گفتگو توحید کے متعلق ہوئی، آگے رسالت کے متعلق ان کے دوسرے مزعومات کا رد ہے، چناچہ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر نبوت ہی ملنی تھی تو فلاں فلاں رؤسا مکہ و طائف کو ملتی حق تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہیں کہ) کیا ان لوگوں کے پاس تمہارے رب (کی نعمتوں اور رحمتوں) کے (جن میں نبوت بھی داخل ہے) خزانے ہیں (کہ جس کو چاہو نبوت دیدو، کقولہ تعالیٰ اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ) یا یہ لوگ (اس محکمہ نبوت کے) حاکم ہیں ، (کہ جسے چاہیں نبوت دلوا دیں، یعنی دینے دلانے کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ مثلاً خزانہ اپنے قبضہ میں ہو، دوسری یہ کہ قبضہ میں نہ ہو مگر قابضان خزانہ اس کے محکوم ہوں کہ اس کے دستخط دیکھ کردیتے ہوں، یہاں دونوں کی نفی فرما دی، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ جو رسالت محمدیہ کے منکر ہیں اور مکہ و طائف کے رؤسا کو رسالت کا مستحق قرار دیتے ہیں ان کے پاس اس کی کوئی دلیل عقلی تو ہے نہیں بلکہ خود اس کے عکس پر دلائل عقلیہ قائم ہیں اور اسی لئے محض استفہام انکاری پر اکتفاء فرمایا، اب آگے دلیل نقلی کی نفی فرماتے ہیں یعنی) کیا ان لوگوں کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر (چڑھ کر آسمان کی) باتیں سن لیا کرتے ہیں (یعنی دلیل نقلی وحی آسمانی ہے اور اس کے علم کے دو طریقے ہیں یا تو وحی کسی شخص پر آسمان سے نازل ہو، یا صاحب وحی آسمان پر چڑھے اور دونوں کا منتفی ہونا ان لوگوں سے ظاہر ہے، آگے اس کے متعلق ایک احتمال عقلی کا ابطال فرماتے ہیں کہ اگر فرضًا یہ لوگ یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ ہم آسمان پر چڑھ جاتے اور وہاں کی باتیں سنتے ہیں) تو ان میں جو (وہاں کی) باتیں سن آتا ہو وہ (اس دعویٰ پر) کوئی صاف دلیل پیش کرے (جس سے ثابت ہو کہ یہ شخص مشرف بہ وحی ہوا ہے، جیسا ہمارے نبی اپنی وحی پر دلائل خارقہ یقینیہ رکھتے ہیں، آگے پھر توحید کے بارے میں ایک خاص مضمون کے متعلق کلام ہے، یعنی منکرین توحید جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر شرک کرتے ہیں تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ) کیا خدا کے لئے بیٹیاں (تجویز کی جاویں) اور تمہارے لئے بیٹے (تجویز ہوں یعنی اپنے لئے تو وہ چیز پسند کرتے ہو جس کو اعلیٰ درجہ کا سمجھتے ہو اور خدا کے لئے وہ چیز تجویز کرتے ہو جس کو ادنیٰ درجہ کی سمجھتے ہو، جس کا بیان سورة صافات کے اخیر میں مفصل مدلل گزرا ہے، آگے پھر رسالت کے متعلق کلام ہے کہ ان کو جو باوجود آپ کی حقانیت ثابت ہوجانے کے آپ کا اتباع اس قدر ناگوار ہے تو) کیا آپ ان سے کچھ معاوضہ (تبلیغ احکام کا) مانگتے ہیں کہ وہ تاوان ان کو گراں معلوم ہوتا ہے (وہذا کقولہ تعالیٰ ام تسئلہم خرجا الخ آگے قیامت اور جزاء کے متعلق کلام ہے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اول تو قیامت ہوگی نہیں اور اگر بالفرض ہوگی تو ہم وہاں بھی اچھے رہیں گے، کما فی قولہ (آیت) تعالیٰ وما اظن الساعة قائمتہ ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی، تو ہم اس کے متعلق ان سے پوچھتے ہیں کہ) کیا ان کے پاس غیب (کا علم) ہے کہ یہ (اس کو محفوظ رکھنے کے واسطے) لکھ لیا کرتے ہیں (یہ احقر کے نزدیک کنایہ ہے یحفظون سے کیونکہ کتابت طریقہ ہے حفظ کا، پس حاصل یہ ہوا کہ جس امر پر اثباتاً یا نفیاً کوئی دلیل عقلی قائم نہ ہو وہ غیب محض ہے، اس کا دعویٰ اثباتاً یا نفیاً وہ کرے جس کو کسی واسطہ سے اس غیب پر مطلع کیا جاوے اور پھر مطلع ہونے کے بعد وہ اس کو محفوظ بھی رکھے، اس لئے کہ اگر معلوم ہونے کے بعد محفوظ نہ ہو تب بھی حکم اور دعویٰ بلا علم ہوگا، پس تم جو قیامت کی نفی اور اپنے لئے حسنیٰ کے قائل ہو تو کیا تم کو غیب پر کسی واسطہ سے اطلاع دی گئی ہے جیسا کہ ہمارے نبی کو اثبات قیامت اور تم سے اچھی حالت کی نفی کی خبر غیبی وحی دی گئی ہے اور وہ اس کو محفوظ رکھ کر اوروں کو پہنچا رہے ہیں، آگے رسالت کے متعلق ایک اور کلام ہے وہ یہ کہ وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ) سو یہ کافر خود ہی (اس) برائی (کے وبال) میں گرفتار ہوں گے (چنانچہ اس قصد میں ناکام ہوئے اور بدر میں مقتول ہوئے، آگے پھر توحید کے متعلق کلام ہے کہ) کیا ان کا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے اور (آگے پھر رسالت کے متعلق ایک کلام ہے وہ یہ کہ یہ لوگ نفی رسالت کے لئے ایک بات یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ ہم تو آپ کو اس وقت رسول جانیں جب ہم پر ایک آسمان کا ٹکڑا گرا دو ، کما قال تعالیٰ (آیت) وقالوا لن نومن الی قولہ او تسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا، سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو دعویٰ پر خواہ وہ دعویٰ رسالت ہو یا اور کچھ ہو مطلق دلیل کا بشرطیکہ صحیح ہو قائم کردینا کافی ہے جو کہ دعویٰ رسالت ہی کے وقت سے بلا کسی قدح و جرح کے قائم اور کسی خاص دلیل کا قائم ہونا ضروری نہیں اور نہ اس سے دعویٰ نبوت میں قدح لازم آتا ہے، تبرعاً کوئی فرمائشی دلیل قائم کی جاوے تو یہ اس وقت ہے جب اس میں کوئی مصلحت ہو، مثلاً درخواست کنندہ طالب حق ہو، تو یہی سمجھا جاوے کہ خیر اسی ذریعہ سے اس کو ہدایت ہوجاوے گی اور کوئی معتدبہ حکمت ہو اور یہاں یہ مصلحت بھی نہیں، کیونکہ ان کی یہ فرمائش حق کے لئے نہیں بلکہ محض تعنت وعناد کی راہ سے ہے اور وہ ایسے ضدی ہیں کہ) اگر (ان کا یہ فرمائشی معجزہ واقع بھی ہوجاوے اور) وہ آسمان کے ٹکڑے کو دیکھ (بھی لیں) کہ گرتا ہوا آ رہا ہے تو (اس کو بھی) یوں کہہ دیں کہ یہ تو تہ بتہ جما ہوا بادل ہے (کقولہ تعالیٰ (آیت) ولو انا فتحنا علیہم بابا من السمآء فظلوا فیہ یعرجون، پس جب مصلحت بھی نہیں ہے اور دوسری مصلتحوں کی نفی کا بھی ہم کو علم ہے بلکہ ان فرمائشی معجزات کا وقوع خلاف حکمت ہے پس جب ضرورت نہیں مصلحت نہیں بلکہ خلاف مصلحت ہے پھر کیوں واقع کیا جاوے اور نہ اس کے عدم وقوع سے نبوت کی نفی ہوتی ہے، آگے ان کے غلو فی الکفر پر جو اوپر کی آیتوں سے اور شدت عناد پر جو کہ آخر کی آیت سے معلوم ہوتا ہے بطور تفریع کے حضور ﷺ کو تسلی دی گئی ہے، فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ ایسے طاغی اور باغی اور غالی ہیں) تو (ان سے توقع ایمان کر کے رنج میں نہ پڑیئے بلکہ) ان کو (انہی کی حالت پر) رہنے دیجئے یہاں تک کہ ان کو اپنے اس دن سے سابقہ (واقع) ہو جس میں ان کے ہوش اڑ جاویں گے (مراد قیامت کا دن ہے، اور اس صعق کی تفصیل سورة زمر کی آخری آیت ونفخ الخ کی تفسیر میں گزری ہے اور معنیٰ حتیٰ کی تحقیق سورة زخرف کے آخر میں جہاں حتی یلاقو آیا ہے گزری ہے، آگے اس دن کا بیان ہے یعنی) جس دن ان کی تدبیریں (جو دنیا میں اسلام کی مخالفت اور اپنی کامیابی کے بارے میں کا کرتے تھے) ان کے کچھ بھی کام نہ آویں گی اور نہ (کہیں سے) ان کو مدد ملے گی (نہ تو مخلوق کی طرف سے کہ اس کا امکان ہی نہیں اور نہ خالق کی طرف سے کہ اس کا وقوع نہیں، یعنی اس روز ان کو حقیقت معلوم ہوجاوے گی، باقی اس سے ادھر ایمان لانے والے نہیں) اور (آخرت میں تو یہ مصیبت ان پر آوے ہی گی لیکن) ان ظالموں کے لئے قبل اس (عذاب) کے بھی عذاب ہونے والا ہے (یعنی دنیا میں جیسے قحط اور غزوہ بدر میں قتل ہونا) لیکن ان میں اکثر کو معلوم نہیں (اکثر شاید اس لئے فرمایا ہو کہ بعضوں کے لئے ایمان مقدر تھا اور ان کا عدم علم بوجہ اس کے کہ علم سے مبدل ہونے والا تھا اس لئے وہ عدم علم نہیں قرار دیا گیا) اور (جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ ہم ان کی سزا کے لئے ایک وقت معین کرچکے ہیں تو) آپ اپنے رب کی (اس) تجویز پر صبر سے بیٹھے رہئے (اور ان لوگوں کیلئے انتقام الٰہی کی جلدی نہ کیجئے جس کو آپ مسلمانوں کی خواہش اور ان کی امداد کی حیثیت سے چاہتے تھے اور نہ اس خیال سے انتقام میں جلدی کیجئے کہ یہ لوگ مدت مہلت میں آپ کو کوئی ضرر پہنچا سکیں گے سو اس کا بھی اندیشہ نہ کیجئے کیوں) کہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں (پھر کا ہے کا ڈر، چناچہ یونہی واقع ہوا) اور (اگر ان کے کفر کا غم دل پر آوے تو اس کا علاج یہ ہے کہ توجہ الی اللہ رکھا کیجئے، مثلاً یہ کہ) اٹھتے وقت (یعنی مجلس سے یا سونے سے اٹھتے وقت، مثلا تہجد میں) اپنے رب کی تسبیح وتحمید کیا کیجئے اور رات (کے کسی حصہ) میں بھی اس کی تسبیح کیا کیجئے (مثلاً عشاء کے وقت) اور ستاروں (کے غروب ہونے) سے پیچھے بھی (مثلاً نماز صبح اور مطلق ذکر بھی اس میں آ گیا اور تخصیص ان اوقات کی بوجہ خاصہ اہتمام کے لئے ہے، حاصل یہ کہ اپنے دل کو ادھر مشغول رکھئے پھر فکر و غم کا غلبہ نہ ہوگا)۔
Top