Maarif-ul-Quran - An-Najm : 11
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى
مَا : نہیں كَذَبَ : جھوٹ بولا الْفُؤَادُ : دل نے مَا رَاٰى : جو اس نے دیکھا
جھوٹ نہیں کہا رسول کے دل نے جو دیکھا
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى، فواد کے معنی قلب اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہے قلب نے بھی اس کے ادراک میں کوئی غلطی نہیں کی، اسی غلطی اور خطاء کو آیت میں لفظ کذب سے تعبیر کیا ہے جو " کچھ دیکھا " قرآن کے الفاظ نے یہ متعین نہیں کیا کہ کیا دیکھا، اس کی تفسیر میں صحابہ وتابعین اور ائمہ تفسیر کے وہی دو قول ہیں جو اوپر تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں کہ بعض کے نزدیک خود حق تعالیٰ کو دیکھنا مراد ہے (وہو قول ابن عباس) اور بعض کے نزدیک جبرئیل امین کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنا مراد ہے (وہو قول عائشتہ و ابن عباس) اور بعض کے نزدیک جبرئیل امین کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنا مراد ہے (وہو قول عائشتہ و ابن مسعود وابی ہریرة وابی ذرالغفاری ؓ اس تفسیر کے مطابق لفظ رای اپنے حقیقی معنی کے مطابق آنکھ سے دیکھنے کے لئے بولا گیا اور دیکھنے کے بعد ادراک و فہم جو قلب کا کام ہے وہ قلب کی طرف منسوب ہوا، رویت کو مجازی طور پر رویت قلبیہ کے معنی میں لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی (کما فی القرطبی)
رہا یہ سوال کہ آیت میں ادراک کی نسبت قلب کی طرف کی ہے، حالانکہ مشہور حکماء کا قول ہے کہ ادراک کا تعلق عقل یا نفس ناطقہ سے ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ادراک و فہم کا اصل مرکز قلب ہے، اس لئے کبھی عقل کو بھی لفظ قلب سے تعبیر کردیا ہے، جیسے آیت (لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ) میں قلب سے مراد عقل لی گئی ہے، کیونکہ قلب مرکز عقل ہے، آیات قرآنیہ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا وغیرہ اس پر شاہد ہیں۔
Top