Maarif-ul-Quran - An-Najm : 13
وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ
وَلَقَدْ رَاٰهُ : اور البتہ تحقیق اس نے دیکھا اس کو نَزْلَةً : اترنا اُخْرٰى : ایک مرتبہ پھر
اور اس کو اس نے دیکھا ہے اترتے ہوئے ایک بار اور بھی
وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى، عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى، یہاں بھی رَاٰهُ کی ضمیر میں وہی دو قول ہیں کہ حق تعالیٰ مراد ہیں، یا جبرئیل امین نَزْلَةً اُخْرٰى کے معنی دوسری مرتبہ کا نزول ہے، راجح تفسیر کے مطابق یہ نزول بھی جبرئیل امین کا ہے اور جیسا کہ پہلی رویت کا مقام قرآن کریم نے اسی عالم دنیا میں مکہ مکرمہ کا افق اعلیٰ بتلایا تھا، اسی طرح اس دوسری رویت کا مقام ساتویں آسمان میں سدرة المنتہیٰ بتلایا اور یہ ظاہر ہے کہ ساتویں آسمان پر رسول اللہ ﷺ کا تشریف لے جانا شب معراج میں ہوا ہے، اس سے اس دوسری رویت کا وقت بھی فی الجملہ متعین ہوجاتا ہے، سدرہ لغت میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں اور منتہیٰ کے معنی انتہا کی جگہ، ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے نیچے یہ بیری کا درخت ہے، مسلم کی روایت میں اس کو چھٹے آسمان پر بتلایا اور دونوں روایتوں کی تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر اور شاخین ساتویں آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں (قرطبی) اور عام فرشتوں کی رسائی کی یہ آخری حد ہے، اسی لئے اس کو منتہیٰ کہتے ہیں، بعض روایات میں ہے احکام الٰہیہ اول عرش رحمن سے سدرة المنتہیٰ پر نازل ہوتے ہیں، یہاں سے متعلقہ فرشتوں کے سپرد ہوتے ہیں اور زمین سے آسمان پر جانے والے اعمال نامے وغیرہ بھی فرشتے یہیں تک پہنچاتے ہیں، وہاں سے حق تعالیٰ کے سامنے پیش کی اور کوئی صورت ہوتی ہے، مسند احمد میں یہ مضمون حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے (ابن کثیر)
Top