Maarif-ul-Quran - An-Najm : 17
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى
مَا زَاغَ الْبَصَرُ : نہیں کجی کی نگاہ نے وَمَا طَغٰى : اور نہ وہ حد سے بڑھی
بہکی نہیں نگاہ اور نہ حد سے بڑھی
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى، زاغ، زیغ سے مشتق ہے، جس کے معنی ٹیڑھا یا بےراہ ہوجانا اور طغیٰ طغیان سے مشتق ہے، جس کے معنی حد سے تجاوز کر جانے کے ہیں، مراد ان دونوں لفظوں سے یہ بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ دیکھا اس میں نظر نے کوئی خطا یا غلطی نہیں کی، یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ بعض اوقات انسان کی نظر بھی خطا کر جاتی ہے، خصوصاً جبکہ وہ کوئی عجیب غیر معمولی واقعہ دیکھ رہا ہو اس شبہ کے جواب میں قرآن کریم نے دو لفظ استعمال فرمائے کیونکہ نظر کی غلطی دو وجہ سے ہو سکتی ہے، ایک یہ کہ جس چیز کو دیکھنا چاہتا تھا نظر اس سے ہٹ کر دوسری طرف چلی گئی، لفظ ما زاغ سے اس قسم کی غلطی کی نفی کی گئی ہے کہ آپ کی نظر کسی دوسری چیز پر نہیں، بلکہ جس کو دیکھنا تھا ٹھیک اسی پر پڑی، دوسری وجہ نظر کی غلطی یہ ہو سکتی ہے کہ نظر پڑی تو اسی چیز پر جس کو دیکھنا مقصود تھا، مگر اس کے ساتھ وہ ادھر ادھر کی دوسری چیزوں کو بھی دیکھتی رہی، اس میں بھی بعض اوقات التباس ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے، اس قسم کی غلطی کے ازالہ کے لئے وماطغیٰ فرمایا۔
جن حضرات نے آیات سابقہ کی تفسیر رویت جبرئیل ؑ سے کی ہے، وہ اس آیت کا بھی یہی مفہوم قرار دیتے ہیں کہ جبرئیل امین کے دیکھنے میں آنکھ نے کوئی غلطی نہیں کی، اس کے بیان کی ضرورت اس وجہ سے ہوئی کہ جبرئیل ؑ واسطہ وحی ہیں، اگر آپ ان کو اچھی طرح نہ دیکھیں اور نہ پہچانیں تو وحی شبہ سے خالی نہیں رہتی۔
اور جن حضرات نے آیات سابقہ کی تفسیر رویت حق سبحانہ سے کی ہے وہ یہاں بھی یہی فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ سبحانہ کے دیدار میں آنحضرت ﷺ کی آنکھوں نے کوئی غلطی نہیں کی، بلکہ صحیح صحیح دیکھا، البتہ اس آیت نے اس بات کو اور مزید واضح کردیا کہ یہ رویت بچشم سر ہوئی ہے، صرف دل کی رویت نہیں تھی۔
آیات مذکورہ کی تفسیر میں ایک اور تحقیق مفید
نمونہ اسلاف محدثین حضرت استاذ مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری قدس اللہ سرہ جو بلاشبہ اس زمانہ میں آیة من آیات اللہ اور جحۃ اللہ فی الارض تھے، ان کے علوم بلاشبہ حافظ ابن حجر اور ذہبی جیسے ائمہ حدیث کے علوم کا نمونہ تھے اور مشکلات القرآن پر آپ کی ایک مستقل تصنیف نہایت دقیق علوم و معارف کا خزانہ ہے، سورة نجم کی آیات میں چونکہ صحابہ وتابعین سے لے کر ائمہ مجہتدین اور محدثین و مفسرین کے مختلف اقوال اور ان میں علمی اشکالات معروف و مشہور ہیں مشکلات القرآن میں آپ نے ان آیات کی تفسیر اس طرح فرمائی کہ بیشتر روایات میں تطبیق ہوجائے۔
پھر احقر کے دوسرے استاذ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے جب صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم تحریر فرمائی اور اسراء و معراج کے بیان میں سورة نجم کی ان آیات کا حوالہ آیا تو مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر ان آیات کی تفسیر خود حضرت انور الاساتذہ قدس سرہ کے قلم سے لکھوا کر اس کو اپنی کتاب فتح الملہم کا جز بنایا اور اپنے فوائد القرآن میں بھی اسی کو اختیار فرمایا، اس طرح یہ تحقیق احقر کے دو بزرگ اساتذہ کی متفقہ تحقیق ہوگئی اس کے دیکھنے سے پہلے چند باتیں پیش نظر رہنا چاہئے جو تقریباً سب علماء و ائمہ کے نزدیک مسلم ہیں، اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل امین کو ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا اور ان دونوں مرتبہ دیکھنے کا ذکر سورة نجم کی آیات مذکورہ میں موجود ہے، دوسری مرتبہ کس جگہ کس زمانہ میں دیکھا، اس کو تو انہی آیات میں متعین کر کے بتلا دیا ہے کہ یہ رویت ساتویں آسمان پر سدرة المنتہیٰ کے پاس ہوئی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ساتویں آسمان پر رسول اللہ ﷺ کا تشریف لے جانا صرف لیلتہ المعراج میں ہوا ہے، اس سے اس رویت کی جگہ بھی معلوم ہوگئی اور وقت بھی کہ وہ شب معراج میں ہوئی، پہلی رویت کے محل وقوع اور وقت کا تعین ان آیات میں نہیں ہے، مگر صحیح بخاری باب بدء الوحی میں حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث ذیل سے یہ دونوں چیزیں متعین ہوجاتی ہیں۔
قال وھو یحدث عن فترة الوحی فقال فی حدیثہ بینا انا امشی اذ سمعت صوتا من السمآء فرفعت بصری فاذا الملک الذی جاءنی بحراء جالس علیٰ کرسی بین السمآء والارض فرعبت منہ فرجعت فقلت زملونی فانزل اللہ تعالیٰ یا ایھا المدثر قم فانذر الیٰ قولہ والرجز فاھجر فحمی الوحی وتتابع۔
" رسول اللہ ﷺ نے وحی میں فترت یعنی وقفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ (ایک روز) جبکہ میں چل رہا تھا اچانک آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جو حراء میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان (معلق) ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے، میں اس سے مرعوب ہو کر گھر لوٹ آیا اور کہا کہ مجھے ڈھانپ دو ، اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورة مدثر کی آیات والرجز فاہجر تک نازل فرمائیں، اور اس کے بعد وحی آسمان مسلسل آنے لگی "۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جبرئیل امین کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کا پہلا واقعہ فترة وحی کے زمانہ میں مکہ معظمہ کے اندر اس وقت پیش آیا جب کہ آپ شہر مکہ میں کہیں جا رہے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ پہلا واقعہ معراج سے پہلے زمین مکہ پر اور دوسرا واقعہ ساتویں آسمان پر شب معراج میں پیش آیا ہے۔
Top