Maarif-ul-Quran - An-Najm : 18
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى
لَقَدْ رَاٰى : البتہ تحقیق اس نے دیکھیں مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ : اپنے رب کی نشانیوں میں سے الْكُبْرٰى : بڑی بڑی
بیشک دیکھے اس نے اپنے رب کے بڑے نمونے۔
دوسری بات یہ بھی سب کے نزدیک مسلم ہے کہ سورة نجم کی ابتدائی آیات میں کم از کم آیت وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى سے لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى تک سب آیتیں واقعہ معراج کے متعلق ہیں۔
امور مذکورہ کے پیش نظر استاذ محترم حجۃ الاسلام حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہ نے سورة نجم کی ابتدائی آیات کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے کہ
قرآن کریم نے اپنے عام اسلوب کے مطابق سورة نجم کی ابتدائی آیتوں میں دو واقعات کا ذکر فرمایا ہے کہ واقعہ جبرئیل ؑ کو ان کی اصلی صورت میں اس وقت دیکھنے کا ہے جب کہ آپ فترت وحی کے زمانے میں مکہ مکرمہ میں کسی جگہ جا رہے تھے اور یہ واقعہ اسراء و معراج سے پہلے کا ہے۔
دوسرا واقعہ شب معراج کا ہے جس میں جبرئیل امین کو ان کی اصلی صورت میں دوبارہ دیکھنے سے کہیں زیادہ دوسرے عجائب اور اللہ تعالیٰ کی آیات کبریٰ کا دیکھنا مذکور ہے، ان آیات کبریٰ میں خود حق تعالیٰ سبحانہ کی زیارت و رویت کا شامل ہونا بھی متحمل ہے۔
سورة نجم کی ابتدائی آیات کا اصل مضمون رسول اللہ ﷺ کی رسالت اور آپ کی وحی میں شبہات نکالنے والوں کا جواب ہے کہ ستاروں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جو کچھ ارشادات امت کو دیتے ہیں، نہ ان میں کسی غیر اختیاری غلطی کا امکان ہے نہ اختیاری غلطی کا اور یہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں اپنی کسی نفسانی غرض سے نہیں کہتے بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی وحی ہوتی ہے، پھر چونکہ یہ وحی حضرت جبرئیل ؑ کے واسطے سے بھیجی جاتی ہے وہ بحیثیت معلم و مبلغ وحی پہنچاتے ہیں اس لئے جبرئیل امین کی مخصوص صفات اور عظمت شان کا بیان کئی آیتوں میں ذکر فرمایا، اس میں زیادہ تفصیل کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ مشرکین مکہ اسرافیل، میکائیل فرشتوں سے تو واقف تھے، جبرئیل سے واقف نہ تھے، بہرحال جبرئیل کی صفات بیان کرنے کے بعد پھر اصل مضمون وحی کو بیان فرمایا فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى، یہاں تک یہ سب گیارہ آیتیں ہیں جن میں وحی و رسالت کی توثیق کے ضمن میں جبرئیل امین کی صفات کا ذکر ہے اور غور کیا جائے تو یہ سب صفات جبرئیل امین پر بےتکلف صادق آتی ہیں، ان کو اگر اللہ تعالیٰ کی صفت قرار دیا جائے جیسا کہ بعض مفسرین نے کیا ہے تو تکلف و تاویل سے خالی نہیں، مثلاً شَدِيْدُ الْقُوٰى، ذُوْ مِرَّةٍ ، دَنَا فَتَدَلّٰى، ۙفَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى، ان کلمات کو تاویل کے ساتھ تو حق تعالیٰ کے لئے کہا جاسکتا ہے مگر بےتاویل و بےتکلف اس کا مصداق جبرئیل امین ہی ہو سکتے ہیں، اس لئے ان ابتدائی آیات میں جس رویت اور قرب و اتصال کا ذکر ہے وہ سب حضرت جبرئیل ؑ کی رویت سے متعلق قرار دینا ہی اقرب و اسلم معلوم ہوتا ہے۔
البتہ اس کے بعد بارہویں آیت مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى، سے لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى، تک جن میں واقعہ اسراء و معراج کا بیان ہو رہا ہے، اس میں بھی جبرئیل امین کا دوبارہ بصورت اصلیہ دیکھنا اگرچہ مذکور ہے، مگر دوسری آیات کبریٰ کے ضمن میں ہے، جن میں رویت باری تعالیٰ کے شامل ہونے کا احتمال بھی جو موید بالاحادیث الصحیحہ و اقوال صحابہ وتابعین ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس لئے مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى کی تفسیر یہ ہے کہ جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے آنکھ سے دیکھا آپ کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی کہ صحیح دیکھا، اس تصدیق میں قلب مبارک نے کوئی غلطی نہیں کی، اسی کو ماکذب کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس میں " جو کچھ دیکھا " کے الفاظ عام ہیں، ان میں جبرئیل امین کا دیکھنا بھی شامل ہے اور جو کچھ شب معراج میں آپ نے دیکھا وہ سب شامل ہے اور اس میں سب سے اہم خود حق تعالیٰ کی رویت و زیارت ہے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اگلی آیت میں ارشاد ہے اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰي مَا يَرٰى، جس میں مشرکین مکہ کو خطاب ہے کہ آپ نے جو کچھ دیکھا یا آئندہ دیکھیں گے وہ جھگڑا اور اختلاف کرنے یا شک و شبہ میں پڑنے کی چیز نہیں عین حق و حقیقت ہے، اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰي مَا قَد رَاٰى، بلکہ عَلٰي مَا يَرٰى بصیغہ مستقبل فرمایا، جس میں اگلی رویت جو لیلتہ المعراج میں ہونے والی تھی اس کی طرف اشارہ اور اس کے بعد کی آیت وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى میں اس کی تصریح ہے اور اس آیت میں بھی دونوں رویتوں کا احتمال ہے، یعنی رویت جبرئیل ؑ اور رویت حق تعالیٰ ، جبرئیل ؑ کی رویت تو ظاہر ہے اور حق تعالیٰ کی رویت کی طرف اشارہ اس طرح پایا جاتا ہے کہ رویت کے لئے قرب عادةً ضروری ہے، جیسا کہ حدیث میں حق تعالیٰ کا نزول سماء دنیا کی طرف آخر شب میں مذکور ہے عند سدرة المنتھیٰ کا مفہوم یہ ہے کہ جس وقت آپ سدرة المنتہیٰ کے پاس تھے جو مقام قرب ہے حق تعالیٰ کے ساتھ اس وقت دیکھا، اس میں حق تعالیٰ کی زیارت بھی مراد ہونے پر یہ حدیث شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
و اتیت سدرة المنتھیٰ فغشیتنی ضبابة خررت لھا ساجدا وھذہ الضبابة ھی الظلل من الغمام التی یاتی فیھا اللہ ویتجلی۔
" میں سدرة المنتہیٰ کے پاس پہنچا تو مجھے بادل کی طرح کی کسی چیز نے گھیر لیا، میں اس کے لئے سجدہ میں گر پڑا، قیامت کے روز محشر میں حق تعالیٰ کا ظہور قرآن کریم کی ایک آیت میں اسی طرح مذکور ہے کہ بادلوں کے سایہ کی طرح کی کوئی چیز ہوگی اس میں حق تعالیٰ نزول اجلال فرمائیں گے "۔
اسی طرح اگلی آیت مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى کا مفہوم بھی دونوں رویتوں کو شامل ہے اور اس سے یہ مزید ثابت ہوا کہ یہ رویت حالت بیداری میں آنکھوں سے ہوئی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جن آیات میں لیلتہ المعراج کا ذکر ہے ان میں رویت کے بارے میں جتنے الفاظ آئے ہیں ان سب میں رویت جبرئیل اور رویت حق سبحانہ دونوں محتمل ہیں اور بھی حضرات نے ان کی تفسیر رویت حق تعالیٰ سے کی ہے، اس کی گنجائش الفاظ قرآن میں موجود ہے۔
رویت باری کا مسئلہ
تمام صحابہ وتابعین اور جمہور امت اس پر متفق ہیں کہ آخرت میں اہل جنت و عام مومنین حق تعالیٰ کی زیارت کریں گے، جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر شاہد ہیں، اس سے اتنا معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رویت و زیارت کوئی امر محال یا ناممکن نہیں، البتہ عام دنیا میں انسانی نگاہ میں اتنی قوت نہیں جو اس کو برداشت کرسکے اس لئے دنیا میں کسی کو رویت و زیارت حق تعالیٰ کی نہیں ہو سکتی، آخرت کے معاملہ میں خود قرآن کریم کا ارشاد ہے فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ، یعنی آخرت میں انسان کی نگاہ تیز اور قوی کردی جائے گی اور پردے ہٹا دیئے جائیں گے، حضرت امام مالک نے فرمایا کہ دنیا میں کوئی انسان اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا کیونکہ اس کی نگاہ فانی ہے اور اللہ تعالیٰ باقی، پھر جب آخرت میں انسان کو غیر فانی نگاہ عطا کردی جائے گی تو حق تعالیٰ کی رویت میں کوئی مانع نہ رہے گا، تقریباً یہی مضمون قاضی عیاض سے بھی منقول ہے اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی تقریباً تصریح ہے جس کے الفاظ یہ ہیںواعلموا انکم لن تروا ربکم حتی تموتوا (فتح الباری، ص 493 ج 8) اس سے امکان تو اس کا بھی نکل آیا کہ عالم دنیا میں بھی کسی وقت خصوصی طور پر رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں وہ قوت بخش دی جائے جس سے وہ حق تعالیٰ کی زیارت کرسکیں، لیکن اس عالم سے باہر نکل کر جبکہ شب معراج میں آپ کو آسمانوں اور جنت و دوزخ اور اللہ تعالیٰ کی خاص آیات قدرت کا مشاہدہ کرانے ہی کے لئے امتیازی حیثیت سے بلایا گیا، اس وقت تو حق تعالیٰ کی زیارت اس عام ضابطہ سے بھی مستثنیٰ ہے کہ اس وقت آپ اس عالم دنیا میں نہیں ہیں، ثبوت امکان کے بعد مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ کیا رویت واقع ہوئی یا نہیں ؟ اس معاملہ میں روایات حدیث مختلف اور آیات قرآن محتمل ہیں، اسی لئے صحابہ وتابعین اور ائمہ دین میں یہ مسئلہ ہمیشہ زیر اختلاف ہی رہا، ابن کثیر نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رسول اللہ ﷺ کے لئے رویت حق سبحانہ و تعالیٰ کو ثابت فرماتے ہیں اور سلف صالحین کی ایک جماعت نے ان کا اتباع کیا ہے اور صحابہ وتابعین کی بہت سی جماعتوں نے اس سے اختلاف کیا ہے، آگے دونوں جماعتوں کے دلائل وغیرہ بیان کئے ہیں۔
اسی طرح حافظ نے فتح الباری تفسیر سورة نجم میں اس اختلاف صحابہ وتابعین کے ذکر کرنے کے بعد بعض اقوال ایسے بھی نقل کئے جن سے ان دونوں مختلف اقوال میں تطبیق ہو سکے اور فرمایا کہ قرطبی نے مفہم میں اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ہم اس معاملہ میں کوئی فیصلہ نہ کریں، بلکہ توقف اور سکوت اختیار کریں، کیونکہ یہ مسئلہ کوئی عملی مسئلہ نہیں جس کے کسی ایک رخ پر عمل کرنا ناگزیر ہو، بلکہ یہ مسئلہ عقیدہ کا ہے جس میں جب تک قطعی الثبوت دلائل نہ ہوں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا اور جب تک کسی امر میں قطعی بات نہ معلوم ہو حکم ثبوت اور توقف کا ہے (فتح الباری، ص 494 ج 8) احقر کے نزدیک یہی اسلم و احوط ہے، اس لئے اس مسئلہ کے دو طرفہ دلائل و وجوہات کو ذکر نہیں کیا، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
Top