Maarif-ul-Quran - An-Najm : 23
اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰىؕ
اِنْ هِىَ : نہیں وہ اِلَّآ اَسْمَآءٌ : مگر کچھ نام ہیں سَمَّيْتُمُوْهَآ : نام رکھے تم نے ان کے اَنْتُمْ : تم نے وَاٰبَآؤُكُمْ : اور تمہارے آباؤ اجداد نے مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ : نہیں نازل کی اللہ نے بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ : ساتھ اس کے کوئی دلیل اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : نہیں وہ پیروی کرتے اِلَّا الظَّنَّ : مگر گمان کی وَمَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ ۚ : اور جو خواہش کرتے ہیں نفس وَلَقَدْ جَآءَهُمْ : اور البتہ تحقیق آئی ان کے پاس مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى : ان کے رب کی طرف سے ہدایت
یہ سب نام ہیں جو رکھ لئے تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے اللہ نے نہیں اتاری ان کی کوئی سند محض اٹکل پر چلتے ہیں اور جو جیوں کی امنگ ہے اور پہنچی ہے ان کو ان کے رب سے راہ کی سوجھ
ظن کے مختلف اقسام اور ان کے احکام
وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔا، لفظ ظن عربی زبان میں مختلف معانی کے لئے بولا جاتا ہے، ایک معنی یہ بھی ہیں کہ بےبنیاد خیالات کو ظن کہا جاتا ہے، آیت میں یہی مراد ہے اور یہی مشرکین مکہ کی بت پرستی کا سبب تھا، اسی کے ازالہ کے لئے یہ فرمایا گیا ہے، دوسرے معنی ظن کے وہ ہیں جو یقین کے بالمقابل آتے ہیں، یقین کہا جاتا ہے اس علم قطعی مطابق للواقع کو جس میں کسی شک و شبہ کی راہ نہ ہو، جیسے قرآن کریم یا احادیث متواترہ سے حاصل شدہ علم، اس کے مقابل ظن اس علم کو کہا جاتا ہے جو بےبنیاد خیالات تو نہیں دلیل کی بنیاد پر قائم ہے، مگر یہ دلیل اس درجہ قطعی نہیں جس میں کوئی دوسرا احتمال ہی نہ رہے، جیسے عام روایات حدیث سے ثابت ہونے والے احکام، اسی لئے قسم اول کے مسائل کو قطعیات اور یقینیات کہا جاتا ہے، اور دوسری قسم کو ظنیات، اور یہ ظن شریعت میں معتبر ہے، قرآن و حدیث میں اس کے معتبر ہونے کے شواہد موجود ہیں اور تمام امت کے نزدیک واجب العمل ہے، آیت مذکورہ میں ظن کو جو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے اس سے مراد ظن بمعنی بےبنیاد بےدلیل خیالات ہیں، اس لئے کوئی اشکال نہیں۔
Top