Maarif-ul-Quran - An-Najm : 29
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى١ۙ۬ عَنْ ذِكْرِنَا وَ لَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ
فَاَعْرِضْ : تو اعراض برتیئے عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى : اس سے جو منہ موڑے عَنْ ذِكْرِنَا : ہمارے ذکر سے وَلَمْ يُرِدْ : اور نہ چاہے وہ اِلَّا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : مگر دنیا کی زندگی
سو تو دھیان نہ کر اس پر جو منہ موڑے ہماری یاد سے اور کچھ نہ چاہے مگر دنیا کا جینا
خلاصہ تفسیر
(جب اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ اور جَاۗءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى سے مشرکین عرب کا معاند ہونا معلوم ہوگیا کہ باجود نزول قرآن اور ہدایت کے یہ اپنے گمان اور ہویٰ پر چلتے ہیں، اور معاند سے قبول حق کی امید نہیں ہوتی) تو آپ ایسے شخص سے اپنا خیال ہٹا لیجئے جو ہماری نصیحت کا خیال نہ کرے اور بجز دنیوی زندگی کے اس کو کوئی (اخروی مطلب) مقصود نہ ہو (جس کی وجہ عدم ایمان بالآخرة ہے جو لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ سے اوپر مفہوم ہوا ہے اور) ان لوگوں کے فہم کی رسائی کی حد بس یہی (دنیوی زندگی) ہے (جب ان کی بدفہمی اور بےفکری کی نوبت یہاں تک پہنچی ہے تو ان کی فکر نہ کیجئے، ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کیجئے بس) تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ہی اس کو بھی خوب جانتا ہے جو راہ راست پر ہے (اس سے تو اس کا علم ثابت ہوا) اور (اس سے قدرت ثابت ہے کہ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے (جب وہ علم اور قدرت دونوں کا کامل ہے اور اس کے قانون اور احکام پر عمل کرنے کے اعتبار سے لوگوں کی دو قسمیں ہیں گمراہ اور ہدایت پر عمل کرنے والے تو) انجام کار یہ ہے کہ برا کام کرنے والوں کو ان کے (برے) کام کے عوض میں (خاص طور کی) جزاء دے گا اور نیک کام کرنے والوں کو ان کے نیک کاموں کے عوض میں (خاص طور کی) جزا دے گا (اس کا مقتضا یہ ہے کہ اسی کے حوالہ کیجئے آگے ان لوگوں کا بیان ہے جو نیکوں کار محسنین ہیں) وہ لوگ ایسے ہیں کہ کبیرہ گناہوں سے اور (ان میں) بےحیائی کی باتوں سے (بالخصوص زیادہ) بچتے ہیں مگر ہلکے ہلکے گناہ (کبھی کبھار ہوجائیں تو جس نیکو کاری کا یہاں ذکر ہے اس میں ان سے خلل نہیں آتا، مطلب استثناء کا یہ ہے کہ الذین احسنوا یعنی محسنین جن کی اس آیت میں مدح کی گئی ہے اور ان کے محبوب عنداللہ ہونے کا اظہار کیا گیا ہے اس کا مصداق بننے کے لئے کبیرہ گناہوں سے بچنا تو شرط ہے، لیکن صغائر کا کبھی کبھی صدور اس محبوبیت کے منافی نہیں، البتہ صغیرہ گناہوں میں بھی یہ شرط ہے کہ ان کی عادت نہ ڈال لے اور ان پر اصرار نہ کرے، کبھی اتفاقی طور پر ہوجائے ورنہ اصرار اور عادت سے صغیر گناہ بھی کبیرہ ہوجاتا ہے اور استثناء کا یہ مطلب نہیں کہ صغائر کی اجازت ہے اور کبائر سے اجتناب کی شرط کا یہ مطلب ہے کہ محسنین کو ان کے نیک عمل کی اچھی جزا ملنا کبائر سے اجتناب پر موقوف ہے، کیونکہ مرتکب کبائر بھی جو حسنہ کرے گا اس کی جزا پاوے گا، لقولہ تعالیٰ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ ، جس پر عنوان احسنوا دلالت کرتا ہے خوب سمجھ لو اور اوپر جو بدکاروں کو سزا دینے کا بیان آیا اس سے گناہ گاروں کو ناامید کرنے کا وہم ہوسکتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا کہ ایمان و توبہ سے ہمت ہار دیں اور محسنین کو جرائے حسنہ دینے کے وعدہ سے ان کے عجب و غرور میں مبتلا ہونے کا ایہام اور خطرہ تھا، آگے ان دونوں ایہاموں کو رد کیا گیا ہے) بلاشبہ آپ کے رب کی مغفرت بڑی وسیع ہے (گناہ گاروں کو تدارک گناہ سے ہمت نہ ہارنی چاہئے، وہ اگر چاہے تو بجز کفر و شرک کے اور سیئات کو محض فضل سے معاف کردیتا ہے تو تدارک سے کیوں معاف نہ کرے گا اور اسی طرح محسنین کو عجب اور فخر نہ کرنا چاہئے، کیونکہ حسنات میں بعض اوقات ایسے مخفی نقائص مل جاتے ہیں، جس کے سبب وہ قابل قبول نہیں رہتے اور عامل کو اس طرف التفات نہ ہونے سے ان کی اطلاع بھی نہیں ہوتی اور حق تعالیٰ کو تو علم ہوتا ہے جب وہ حسنہ مقبول نہیں تو ان کا کرنے والا محسن اور محبوب نہیں، پھر عجب و غرور کیسا، اور یہ بات کہ تمہاری کسی حالت کی خود تم کو اطلاع نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کو اطلاع ہو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے بلکہ ابتداء ہی سے اس کا وقوع ہو رہا ہے، چنانچہ) وہ تم کو (اور تمہارے احوال کو اس وقت سے) خوب جانتا ہے، جب تم کو (یعنی تمہارے جد امجد آدم ؑ کو) زمین (کی خاک) سے پیدا کیا تھا (جن کے ضمن میں بواسطہ تم بھی مٹی سے مخلق ہوئے) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے (اور ان دونوں حالتوں میں تم کو خود اپنا کوئی علم نہ تھا اور ہم کو علم تھا پس اسی طرح اب بھی تمہارا خود اپنے سے ناواقف ہونا اور ہمارا عالم و واقف ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں، جب یہ بات ہے) تو تم اپنے کو مقدس مت سمجھا کرو (کیونکہ) تقویٰ والوں کو وہی خوب جانتا ہے (کہ فلاں متقی ہے فلاں نہیں، گو صورةً افعال تقویٰ کے دونوں سے صادر ہوتے ہوں)۔

معارف و مسائل
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى ڏ عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ اِلَّا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا۔ ذٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ، یعنی آپ ایسے لوگوں سے اپنا خیال ہٹا لیجئے جو ہماری یاد سے رخ پھیر لیں اور دنیوی زندگی کے سوا ان کا کوئی مقصد نہ ہو، یہی ان کا انتہائی علم و ہنر ہے۔
ضروری تنبیہ
قرآن کریم نے یہ ان کفار کا حال بیان کیا ہے جو آخرت و قیامت کے منکر ہیں، افسوس ہے کہ انگریزوں کی تعلیم اور دنیا کی ہواؤ ہوس نے آج کل ہم مسلمانوں کا یہی حال بنادیا ہے کہ ہمارے سارے علوم و فنون اور علمی ترقی کی ساری کوششیں صرف معاشیات کے گرد گھومنے لگیں، معادیات (معاملات آخرت) کا بھول کر بھی دہیان نہیں آتا۔ ہم رسول اللہ ﷺ کا نام لیتے ہیں، اور آپ کی شفاعت کی امید لگائے ہوئے ہیں، مگر حالت یہ ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو ایسی حالت والوں سے رخ پھیر لینے کی ہدایت کرتا ہے، نعوذ باللہ منہ۔
Top