Maarif-ul-Quran - An-Najm : 35
اَعِنْدَهٗ عِلْمُ الْغَیْبِ فَهُوَ یَرٰى
اَعِنْدَهٗ : کیا اس کے پاس عِلْمُ الْغَيْبِ : علم غیب ہے فَهُوَ يَرٰى : تو وہ دیکھ رہا ہے
کیا اس کے پاس خبر ہے غیب کی سو وہ دیکھتا ہے
اَعِنْدَهٗ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرٰى، شان نزول میں جو قصہ بیان ہوا ہے اس کے مطابق تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اسلام کو اس لئے چھوڑ دیا کہ اس کے کسی ساتھی نے اس سے کہہ دیا تھا کہ آخرت کا تیرا عذاب میں اپنے سر لے کر تجھ کو بچا دوں گا، اس احمق نے اس کا یقین کیسے کرلیا، کیا اس کو علم غیب حاصل ہے ؟ جس سے وہ دیکھ رہا ہے کہ بیشک کفر کی صورت میں وہ جس عذاب کا مستحق ہوگا وہ عذاب یہ ساتھی اپنے سر لے لے گا اور مجھے بچا دے گا، جو ظاہر ہے کہ سراسر دھوکہ ہے نہ اس کو علم غیب ہے نہ کوئی دوسرا آدمی کسی کا عذاب آخرت اپنے سر لے کر اس کو بچا سکتا ہے، اور اگر اس قصہ سے قطع نظر کی جائے تو معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ وہ شخص جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا کرتا رک گیا ہے اور خرچ کرنا چھوڑ دیا ہے تو اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس کو یہ خیال ہوا ہوگا کہ موجودہ مال خرچ کر دوں گا تو پھر کہاں سے آئے گا، اس خیال کی تردید میں فرمایا کہ کیا اس کو غیب کا علم ہے جس کے ذریعہ گویا وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ مال ختم ہوجائے گا اور اس کے بجائے اور مال اس کو نہ مل سکے گا، یہ غلط ہے، کیونکہ نہ اس کو غیب کا علم ہے اور نہ یہ بات صحیح ہے، کیونکہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے (ۭ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ) یعنی تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کا بدل تمہیں دیدیتے ہیں اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والے ہیں۔ انسان غور کرے تو قرآن کا یہ ارشاد صرف مال اور پیسہ کے معاملہ میں نہیں، بلکہ ہر قوت و توانائی جو وہ دنیا میں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدن میں اس کا بدل ما یتحلل پیدا کرتے رہتے ہیں، ورنہ انسان کے بدن کا ایک ایک عضو اگر فولاد کا بھی بنا ہوتا تو ساٹھ ستر سال کام لینے سے کبھی کا گھس گھسا کر برابر ہوجاتا، جس طرح اللہ تعالیٰ انسان کے تمام اعضاء میں جو کچھ محنت سے تحلیل ہوجاتا ہے خود کار مشین کی طرح اس کا بدل اندر سے پیدا کردیتے ہیں، اسی طرح مال کا بھی معاملہ یہی ہے کہ انسان خرچ کرتا رہتا ہے اس کا بدل آتا رہتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال کو فرمایاانفق یا بلالو لا تخش من ذی العرش اقلالا، " یعنی بلال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور عرش والے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا خطرہ نہ رکھو کہ وہ تمہیں مفلس کر دے گا "۔ (ابن کثیر)
Top