Maarif-ul-Quran - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ : اور یہ کہ نہیں لِلْاِنْسَانِ : انسان کے لیے اِلَّا مَا سَعٰى : مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا
دوسرا حکم ہے (وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى) اس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح کوئی دوسرے کا عذاب اپنے سر نہیں لے سکتا، اسی طرح کسی کو یہ بھی حق نہیں کہ کسی دوسرے کے عمل کے بدلے خود عمل کرے لے اور وہ اس عمل سے سبکدوش ہوجائے، مثلاً ایک شخص دوسرے کی طرف سے نماز فرض ادا کر دے یا دوسرے کی طرف سے فرض روزہ رکھ لے اور وہ دوسرا اپنے فرض نماز و روزے سے سبکدوش ہوجائے، یا یہ کہ ایک شخص دوسرے کی طرف سے ایمان قبول کرلے اور اس سے اس کو مومن قرار دیا جائے۔
آیت مذکورہ کی اس تفسیر پر کوئی فقہی اشکال اور شبہ عائد نہیں ہوتا، کیونکہ زیادہ سے زیادہ شبہ حج اور زکوٰة کے مسئلہ میں یہ ہوسکتا ہے کہ ضرورت کے وقت شرعاً ایک شخص دوسرے کی طرف سے حج بدل کرسکتا ہے یا دوسرے کی زکوٰة اس کی اجازت سے ادا کرسکتا ہے، مگر غور کیا جائے تو یہ اشکال اس لئے صحیح نہیں کہ کسی کو اپنی جگہ حج بدل کے لئے بھیج دینا اور اس کے مصارف خود ادا کرنا، یا کسی شخص کو اپنی طرف سے زکوٰة ادا کردینے کے لئے مامور کردینا بھی در حقیقت اس شخص کے اپنے عمل اور سعی کا جز ہے، اس لئے لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى کے منافی نہیں۔
ایصال ثواب کا مسئلہ
جبکہ اوپر یہ معلوم ہوچکا کہ آیت مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے فرائض ایمان و نماز و روزہ کو ادا کر کے دوسرے کو سبکدوش نہیں کرسکتا، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک شخص کے نفلی عمل کا کوئی فائدہ اور ثواب دوسرے شخص کو نہ پہنچ سکے، ایک شخص کی دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے شخص کو پہنچنا نصوص شرعیہ سے ثابت اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے (ابن کثیر)
صرف اس مسئلہ میں امام شافعی کا اختلاف ہے کہ تلاوت قرآن کا ثواب کسی دوسرے کو بخشا اور پہنچایا جاسکتا ہے یا نہیں، امام شافعی اس کا انکار کرتے ہیں اور آیت مذکورہ کا مفہوم عام لے کر اس سے استدلال فرماتے ہیں، جمہور ائمہ اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جس طرح دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے کو پہنچایا جاسکتا ہے اسی طرح تلاوت قرآن اور ہر نفلی عبادت کا ثواب دوسرے شخص کو بخشا جاسکتا ہے اور وہ اس کو ملے گا، قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ احادیث کثیرہ اس پر شاہد ہیں کہ مومن کو دوسرے شخص کی طرف سے عمل صالح کا ثواب پہنچتا ہے، تفسیر مظہری میں اس جگہ ان احادیث کو جمع کردیا ہے جن سے ایصال ثواب کا فائدہ دوسرے کو پہنچنا ثابت ہوتا ہے۔
اوپر صحف موسیٰ و ابراہیم (علیہما السلام) کے حوالے سے جو دو مسئلے بیان کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ ایک شخص کے گناہ کا عذاب کسی دوسرے کو نہیں پہنچے گا اور ایک کے گناہ میں دوسرا کوئی نہ پکڑا جائے گا، دوسرا یہ کہ ہر شخص پر جن اعمال کی شرعی ذمہ داری ہے اس سے سبکدوشی خود اسی کے اپنے عمل سے ہوگی، دوسرے کا عمل اس کو سبکدوش نہ کرے گا۔
یہ دونوں حکم اگرچہ دوسرے انبیاء کی شریعتوں میں بھی تھے مگر حضرت موسیٰ و ابراہیم (علیہما السلام) کی خصوصیات شاید اس بناء پر کی گئی کہ ان کے زمانہ میں یہ جاہلانہ رسم جاری ہوگئی تھی کہ باپ کے بدلے میں بیٹے کو اور بیٹے کے بدلے میں باپ کو یا بھائی بہن وغیرہ کو قتل کردیا جاتا تھا، ان دونوں بزرگوں کی شریعتوں نے اس رسم جاہلیت کو مٹایا تھا۔
Top