Maarif-ul-Quran - An-Najm : 9
فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ
فَكَانَ قَابَ : تو تھا اندازے سے۔ برابر قَوْسَيْنِ : دو کمان کے اَوْ اَدْنٰى : یا اس سے کم تر۔ قریب
پھر رہ گیا فرق دو کمان کے برابر یا اس سے بھی نزدیک
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى، قاب، کمان کی لکڑی جہاں دستہ پکڑنے کا ہوتا ہے اور اس کے مقابل کمان کی ڈور (تانت) ہوتی ہے، ان دونوں کے درمیانی فاصلہ کو قاب کہا جاتا ہے، جس کا اندازہ تقریبی ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے، قاب قوسین، یعنی دو کمانوں کی قاب فرمانے کی وجہ عرب کی ایک خاص عادت ہے کہ دو آدمی اگر آپس میں معاہدہ صلح اور دوستی کا کرنا چاہتے تو جیسی اس کی ایک علامت ہاتھ پر ہاتھ مارنے کی معروف مشہور ہے، اسی طرح دوسری علامت جس سے دوستی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا یہ تھی کہ دونوں شخص اپنی اپنی کمانوں کی لکڑی تو اپنی طرف کرلیتے اور کمان کی ڈور دوسرے کی طرف، اس طرح جب دونوں کمانوں کی ڈوریں آپس میں مل جاتیں تو باہمی قرب و مودت کا اعلان سمجھا جاتا تھا، اس قرب کے وقت ان دونوں شخصوں کے درمیان دونوں قوسوں کے قاب کا فاصلہ رہتا تھا، یعنی تقریباً دو ہاتھ (یا ایک گز) اس کے بعد او ادنی کہہ کر یہ بھی بتلا دیا کہ یہ قرب و اتصال عام رسمی اتصال کی طرح نہیں تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ تھا۔
آیات مذکورہ میں جبر ئیل کا بغایت قریب ہوجانا اس لئے بیان فرمایا گیا کہ یہ ثابت ہوجاوے کہ جو وحی انہوں نے پہنچائی ہے اس کے سننے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور یہ کہ اس قرب و اتصال کی وجہ سے یہ بھی احتمال نہیں رہا کہ رسول اللہ ﷺ جبرئیل امین کو نہ پہچانیں اور کوئی شیطان مداخلت کرسکے۔
Top