Maarif-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
جو کوئی ہے زمین پر فنا ہونے والا ہے
خلاصہ تفسیر
(جتنی نعمتیں تم لوگوں نے سنی ہیں تم کو توحید و اطاعت سے ان کا شکر ادا کرنا چاہئے اور کفر معصیت سے ناشکری نہ کرنا چاہئے کیونکہ اس عالم کے فنا کے بعد ایک دوسرا عالم آنے والا ہے، جہاں ایمان و کفر پر جزا و سزا واقع ہوگی، جس کا بیان آیات آئندہ کے ضمن میں ہے، پس ارشاد ہے کہ) جتنے (جن و انس) روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہوجائیں گے اور (صرف) آپ کے پروردگار کی ذات جو کہ عظمت (والی) اور (باوجود عظمت کے) احسان والی ہے باقی رہ جاوے گی (چونکہ مقصود تنبیہ کرنا ثقلین یعنی جن و انس کو ہے اور وہ سب زمین پر ہیں، اس لئے فنا میں اہل ارض کا ذکر کیا گیا، اس تخصیص ذکری سے دوسری چیزوں کی فنا کی نفی لازم نہیں آتی اور اس جگہ اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں عظمت و احسان اس لئے ذکر کی گئیں کہ ایک صفت ذاتی دوسری اضافی ہے، حاصل اس کا یہ ہے کہ اکثر اہل عظمت دوسروں کے حل پر توجہ نہیں کیا کرتے، مگر حق تعالیٰ باوجود اس عظمت کے وہ اپنے بندوں پر رحمت و فضل فرماتے ہیں اور چونکہ یہ فناء عالم اور اس کے بعد جزا وسزا کی خبر دینا انسان کو دولت ایمان بخشتا ہے، اس لئے یہ مجموعہ بھی ایک بڑی نعمت ہے اس لئے فرمایا) سو اے جن وانس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کی منکر ہوجاؤ گے (آگے ایک خاص طور پر اس کی عظمت و اکرام کے متعلق مضمون ہے یعنی وہ ایسا باعظمت ہے کہ) اسی سے (اپنی اپنی حاجتیں) سب آسمان و زمین والے مانگتے ہیں (زمین والوں کی حاجتیں تو ظاہر ہیں اور آسمان والے گو کھانے پینے کے محتاج نہ ہوں، لیکن رحمت و عنایت کے تو سب محتاج ہیں، آگے اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کو ایک دوسرے عنوان سے بیان کیا گیا ہے) وہ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے (یہ مطلب نہیں کہ صدور افعال اس کے لوازم ذات سے ہے، ورنہ قدیم ہونا حادث کا لازم آئے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جتنے تصرفات عالم میں واقع ہو رہے ہیں وہ اسی کے تصرفات ہیں، جن میں اس کے انعامات و احسانات بھی داخل ہیں، جیسے ایجاد و ابقاء جو رحمت عامہ ہے اور اعطاء رزق و اولاد جو سب دنیوی رحمتیں ہیں اور ہدایت و اعطاء علم و توفیق عمل جو دینی رحمتیں ہیں پس باوجود عظمت کے ایسا اکرام و احسان فرمانا یہ بھی ایک نعمت عظیمہ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہ مضمون جلال و اکرام کا بقا خالق کے متعلق فرما کر آگے پھر فنا خلق کے متعلق ارشاد ہے کہ تم لوگ یہ نہ سمجھنا کہ پھر وہ فنا مستمر رہے گی اور عذاب وثواب نہ ہوگا، بلکہ ہم تم کو دوبارہ زندہ کریں گے اور جزا وسزا دیں گے اسی کو اس طرح فرماتے ہیں کہ) اے جن و انس ہم عنقریب تمہارے (حساب و کتاب کے) لئے خالی ہوئے جاتے ہیں (یعنی حساب و کتاب لینے والے ہیں، مجازاً و مبالغۃً اس کو خالی ہونے سے تعبیر فرما دیا اور مبالغہ اس طرح ہے کہ انسان جب سب کاموں سے خالی ہو کر کسی طرف متوجہ ہوتا ہے تو پوری توجہ سمجھی جاتی ہے، انسانی فہم کے مطابق یہ عنوان اختیار کیا گیا، ورنہ حق تعالیٰ کی اصل شان یہ ہے کہ اس کو ایک مشغولیت کسی دوسری مشغولیت سے مانع نہیں ہوتی اور اس کی جس طرف جس وقت توجہ ہوتی ہے تام اور کامل ہی ہوتی ہے، وہاں ناقص توجہ کا احتمال ہی نہیں اور مثل سابق آگے ارشاد ہے کہ یہ حساب کتاب کی خبر دینا بھی ایک نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (آگے تاکید وقوع حساب کے لئے یہ بتلاتے ہیں کہ اس وقت یہ بھی احتمال نہیں کہ کوئی کہیں بچ کر نکل جائے چناچہ ارشاد ہے کہ) اے گروہ جن اور انسانوں کے اگر تم کو یہ قدرت ہے کہ آسمان اور زمین کی حدود سے کہیں باہر نکل جاؤ تو (ہم بھی دیکھیں) نکلو (مگر) بدون زور کے نہیں نکل سکتے (اور زور ہے نہیں، پس نکلنے کا وقوع بھی ممکن نہیں اور یہی حالت بعینہ قیامت میں ہوگی بلکہ وہاں تو یہاں سے بھی زیادہ عجز ہوگا، غرض بھاگ نکلنے کا احتمال نہ رہا اور یہ بات بتلا دینا بھی موجب ہدایت و نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (آگے بوقت عذاب انسان کے عجز کا ذکر فرماتے ہیں، جیسا اوپر حساب کے وقت اس کے عاجز ہونے کا ذکر تھا، یعنی اے جن و انس کے مجرمو !) تم دونوں پر (قیامت کے روز) آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم (اس کو) ہٹا نہ سکو گے (یہ شعلہ اور دھواں غالباً وہ ہے جن کا ذکر سورة والمرسلٰت میں ہے اِنْـطَلِقُوْٓا اِلٰى ظِلٍّ ذِيْ ثَلٰثِ شُعَبٍ الیٰ قولہ اِنَّهَا تَرْمِيْ بِشَرَرٍ۔ فالظل ھود خان والشرر ھو الشواظ، واللہ اعلم، اور اس کا بتلانا بھی وجہ ذریعہ ہدایت ہونے کے ایک نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے غرض (جب ہمارا حساب لینا اور تمہارا حساب و عقاب کے وقت عاجز ہونا معلوم ہوگیا تو اس سے قیامت کے روز حساب و عقاب کا وقوع ثابت ہوگیا، جس کا بیان یہ ہے کہ) جب (قیامت آوے گی جس میں) آسمان پھٹ جاوے گا اور ایسا سرخ ہوجاوے گا جیسے سرخ نری (یعنی چمڑا، شاید یہ رنگ اس لئے ہو کہ علامت غضب کی ہے کہ غضب میں چہرہ سرخ ہوجاتا ہے اور یہ آسمان کا پھٹنا وہ ہے جو شروع پارہ وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ میں آیا ہے، فی قولہ تعالیٰ وَيَوْمَ تَشَقَّقُ الخ اور یہ خبر دینا بھی نعمت ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہ تو حساب کا وقوع اور اس کا وقت بتلایا گیا آگے کیفیت حساب و طریق فیصلہ ارشاد فرماتے ہیں یعنی جس روز یہ واقعات ارسال شواظ و نحاس و انشقاق سماء وغیرہ ہوں گے) تو اس روز (اللہ تعالیٰ کے معلوم کرنے کے لئے) کسی انسان اور جن سے اس کے جرم کے متعلق نہ پوچھا جائے گا (کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے یعنی حساب اس غرض سے نہ ہوگا بلکہ خود ان کو معلوم کرانے اور جتلانے کے لئے سوال اور حساب ہوگا لقولہ تعالیٰ فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اور یہ خبر دینا بھی ایک نعمت ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہ تو حساب کی کیفیت ہوئی کہ بطور تحقیق نہ ہوگا بلکہ بطور توبیخ ہوگا، آگے یہ بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تو تعیین جرائم و مجرمین کی معلوم ہے، اس لئے تحقیق کی ضرورت نہ ہوگی لیکن فرشتوں کو مجرمین کی تعیین کیسے ہوگی، پس ارشاد فرماتے ہیں کہ) مجرم لوگ اپنے حلیہ سے (کہ چہرہ کی سیاہی اور آنکھوں کا نیلگوں ہونا ہے، کقولہ تعالیٰ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ۔ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا) پہچانے جاویں گے سو (ان کے) سر کے بال اور پاؤں پکڑ لئے جاویں گے (اور ان کو گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جاوے گا، یعنی کسی کا سر کسی کی ٹانگ حسب اعمال یا کبھی سر کبھی ٹانگ بغرض اجتماع انواع عذاب و نکال اور یہ خبر دینا بھی ایک نعمت ہے) سوائے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (آگے مزید عذاب بتلاتے ہیں) یہ ہے وہ جہنم جس کو مجرم لوگ (یعنی تم) جھٹلاتے تھے وہ لوگ دوزخ کے اور گرم کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکر لگاتے ہوں گے (یعنی کبھی آگ کا عذاب ہوگا کبھی کھولتے ہوئے پانی کا جس کی تحقیق سورة مومن رکوع ہشتم میں گزر چکی ہے اور یہ خبر دینا بھی نعمت ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے۔
معارف و مسائل
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ، ښوَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۔ علیہا کی ضمیر ارض کی طرف راجع ہے، جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے (وَالْاَرْضَ وَضَعَهَا لِلْاَنَامِ) اس کے علاوہ زمین ان عام اشیاء میں سے ہے جس کی طرف ضمیر راجع کرنے کے لئے پہلے مرجع کا ذکر لازم نہیں ہے، معنی اس کے یہ ہوئے کہ جو جنات اور انسان زمین پر ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، اس میں جن و انس کے ذکر کی تحضیص اس لئے کی گئی ہے کہ اس سورت میں مخاطب یہی دونوں ہیں، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آسمان اور آسمان والی مخلوقات فانی نہیں ہیں کیونکہ دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے عام لفظوں میں پوری مخلوقات کا فانی ہونا بھی واضح فرما دیا ہے كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ۔
Top