Maarif-ul-Quran - Al-Hadid : 10
وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا١ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠   ۧ
وَمَا : اور کیا ہے لَكُمْ : تم کو اَلَّا تُنْفِقُوْا : کہ نہیں تم خرچ کرتے ہو فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کے راستے میں وَلِلّٰهِ مِيْرَاثُ : اور اللہ ہی کے لیے ہے میراث السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ : آسمانوں کی اور زمین کی لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ : نہیں برابر ہوسکتے تم میں سے مَّنْ اَنْفَقَ : جس نے خرچ کیا مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ : فتح سے پہلے وَقٰتَلَ ۭ : اور جنگ کی اُولٰٓئِكَ اَعْظَمُ : یہی لوگ زیادہ بڑے ہیں دَرَجَةً : درجے میں مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا : ان لوگوں سے جنہوں نے خرچ کیا مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَقٰتَلُوْا ۭ : اور انہوں نے جنگ کی وَكُلًّا : اور ہر ایک کو وَّعَدَ اللّٰهُ : وعدہ کیا اللہ نے الْحُسْنٰى ۭ : بھلائی کا وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اور اللہ تعالیٰ ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو خَبِيْرٌ : باخبر ہے
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں اور اللہ ہی کو بچ رہتی ہے ہر شے آسمانوں اور زمین میں برابر نہیں تم میں جس نے کہ خرچ کیا فتح (مکہ) سے پہلے اور لڑائی کی ان لوگوں کا درجہ بڑا ہے ان سے جو کہ خرچ کریں اس کے بعد اور لڑائی کریں اور سب سے وعدہ کیا ہے اللہ نے خوبی کا اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو
وَلِلّٰهِ مِيْرَاث السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ، میراث اصل میں اس ملکیت کو کہا جاتا ہے جو پچھلے مالک کے انتقال کے بعد اس کے بعد زندہ رہنے والے وارثوں کو ملا کرتی ہے اور یہ ملک جبری ہوتی ہے مرنے والا چاہے یا نہ چاہے جو وارث ہوتا ہے ملکیت اس کی طرف منتقل ہوجاتی ہے یہاں حق تعالیٰ کی ملکیت آسمان و زمین کو میراث کے لفظ سے تعبیر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ تم چاہو یا نہ چاہو جس جس چیز کے مالک آج تم سمجھے جاتے ہو وہ سب بالآخر حق تعالیٰ کی ملکیت خاصہ میں منتقل ہوجائے گی، مراد یہ ہے کہ اگرچہ حقیقی مالک تمام اشیاء عالم کا پہلے بھی حق تعالیٰ ہی تھا مگر اس نے اپنے فضل سے کچھ اشیاء کی ملکیت تمہارے نام کردی تھی اور اب وہ ظاہری ملکیت بھی تمہاری باقی نہیں رہے گی بلکہ حقیقۃً اور ظاہراً ہر طرح اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہوجائے گی، اس لئے اس وقت جبکہ تمہیں ظاہری ملکیت حاصل ہے اگر تم اللہ کے نام پر خرچ کردو گے تو اس کا بدل تمہیں آخرت میں مل جائے گا، اس طرح گویا اللہ کی راہ میں خرچ کی ہوئی چیز کی ملکیت تمہارے لئے دائمی ہوجائے گی۔
ترمذی میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم نے ایک بکری ذبح کی جس کا اکثر حصہ تقسیم کردیا، صرف ایک دست گھر کے لئے رکھ لیا، آنحضرت ﷺ نے مجھ سے دریافت کیا کہ اس بکری کے گوشت میں سے تقسیم کے بعد کیا باقی رہا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ایک دست رہ گیا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ یہ ساری بکری باقی رہی صرف یہ دست باقی نہیں رہا، جس کو تم باقی سمجھ رہی ہو، کیونکہ ساری بکری اللہ کی راہ میں خرچ کردی گئی، وہ اللہ کے یہاں تمہارے لئے باقی رہے گی اور یہ دست جو اپنے کھانے کے لئے رکھا ہے، اس کا آخرت میں کوئی معاوضہ نہیں اس لئے یہ یہیں فنا ہوجائے گا (مظہری)
گزشتہ آیات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تاکید بیان فرمانے کے بعد اگلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ جس وقت بھی خرچ کیا جائے ثواب تو ہر ایک پر ہر ایک حال میں ملے گا، لیکن ثواب کے درجات میں ایمان و اخلاص اور مسابقت کے اعتبار سے فرق ہوگا، اس کے لئے فرمایا
لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ، یعنی مسلمانوں میں فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں، ایک وہ جو فتح مکہ سے پہلے ایمان لے آئے اور مومن ہو کر اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا، دوسرے وہ جو فتح مکہ کے بعد جہاد میں شریک ہوئے اور فی سبیل اللہ خرچ میں بھی یہ دونوں قسمیں اللہ کے نزدیک برابر نہیں، بلکہ درجات ثواب کے اعتبار سے ان میں تفاضل ہے، فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے اور جہاد کرنے والے اور خرچ کرنے والے درجہ ثواب کے اعتبار سے بڑھے ہوئے ہیں، دوسری قسم سے یعنی جن لوگوں نے فتح مکہ کے بعد اسلامی خدمات میں شرکت کی۔
فتح مکہ کو صحابہ کرام کے درجات متعین کرنے کے لئے حد فاصل قرار دینے کی حکمت
آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے صحابہ کرام کے دو طبقے قرار دیئے ہیں، ایک وہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو کر اسلامی خدمات میں حصہ لیا، دوسرے وہ لوگ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد یہ کام کیا ہے، پہلے لوگوں کا مقام بہ نسبت دوسرے لوگوں کے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند ہونے کا اعلان اس آیت میں فرمایا گیا ہے۔
فتح مکہ میں ان دونوں طبقوں میں حد فاصل قرار دینے کی ایک بڑی حکمت تو یہ ہے کہ فتح مکہ مکرمہ سے پہلے سیاسی حالات اور اسباب ظاہرہ کے اعتبار سے مسلمانوں کی بقا و فنا اور اسلام کے آگے بڑھنے پھیلنے یا بہت سی تحریکات کی طرح مردہ ہوجانے کے احتمالات ظاہر میں نظروں میں یکساں انداز سے گردش کرتے رہتے تھے، دنیا کے ہوشیار لوگ کسی ایسی جماعت یا تحریک میں شرکت نہیں کیا کرتے جس کے شکست کھا جانے یا ختم ہوجانے کا خطرہ سامنے ہو، انجام کا انتظار کرتے رہتے ہیں، جب کامیابی کے امکانات روشن ہوجائیں تو شریک ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ اگرچہ اس کو حق و صحیح سمجھتے ہوں لیکن مخالفین کی ایذاؤں کے خوف اور اپنے ضعف کے سبب شرکت کرنے کی ہمت نہیں کرتے، لیکن باعزم و ہمت لوگ جو کسی نظریہ اور عقیدہ کو صحیح اور حق سمجھ کر قبول کرتے ہیں وہ فتح و شکست اور جماعت کی قلت و کثرت پر نظر کئے بغیر اس کے قبول کی طرف دوڑتے ہیں۔
فتح مکہ سے پہلے جو لوگ ایمان لائے ان کے سامنے مسلمانوں کی قلت اور ضعف اور اس کی وجہ سے مشرکین کی ایذاؤں کا سلسلہ تھا، خصوصاً ابتداء اسلام کے وقت ایمان کا اظہار کرنا اپنی جان کی بازی لگانے اور اپنے گھر بار کو ہلاکت کے لئے پیش کردینے کے مترادف تھا، یہ ظاہر ہے کہ ان حالات میں جنہوں نے اسلام قبول کر کے اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا اور پھر رسول اللہ ﷺ کی نصرت اور دین کی خدمت میں اپنے جان و مال کو لگایا ان کی قوت ایمان اور اخلاص عمل کو دوسرے لوگ نہیں پہنچ سکتے۔
رفتہ رفتہ حالات بدلتے گئے مسلمان کو قوت حاصل ہوتی گئی، یہاں تک کہ مکہ مکرمہ فتح ہو کر پورے عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہوگئی، اس وقت جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے (آیت) یدخلون فی دین اللہ افواجا، یعنی لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج ہو کر داخل ہوں گے اس کا ظہور ہوا کیونکہ بہت سے لوگ اسلام کی حقانیت پر تو یقین رکھتے تھے مگر اپنے ضعف اور مخالفین اسلام کی قوت و شوکت اور ان کی ایذاؤں کے خوف سے اسلام و ایمان کا اظہار کرتے ہوئے جھجکتے تھے، اب ان کی راہ سے یہ رکاوٹ دور ہوگئی، تو فوج در فوج ہو کر اسلام میں داخل ہوگئے، قرآن کریم کی اس آیت نے ان کا بھی اکرام و احترام کیا ہے اور ان کے لئے بھی مغفرت و رحمت کا وعدہ دیا ہے، لیکن یہ بتلا دیا کہ ان کا درجہ اور مقام ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتا جنہوں نے اپنی ہمت و اولو العزمی اور قوت ایمان کے سبب مخالفتوں اور ایذاؤں کے خوف و خطر سے بالاتر ہو کر اسلام کا اعلان کیا اور آڑے وقت میں اسلام کے کام آئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ عزم و ہمت اور قوت ایمان کے درجات متعین کرنے کے لئے فتح مکہ سے پہلے اور بعد کے حالات ایک حد فاصل کی حیثیت رکھتے ہیں، اسی لئے آیت مذکورہ میں فرمایا کہ یہ دونوں طبقے برابر نہیں ہو سکتے۔
تمام صحابہ کرام کے لئے مغفرت و رحمت کی بشارت اور صحابہ کا باقی امت سے امتیاز
آیات مذکورہ میں اگرچہ صحابہ کرام میں باہمی درجات کا تفاضل ذکر کیا گیا ہے لیکن آخر میں فرمایا وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى، یعنی باوجود باہمی فرق مراتب کے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ یعنی جنت و مغفرت کا وعدہ سب ہی کے لئے کرلیا ہے، یہ وعدہ صحابہ کرام کے ان دونوں طبقوں کے لئے ہے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے یا بعد میں اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور مخالفین اسلام کا مقابلہ کیا، اس میں تقریباً صحابہ کرام کی پوری جماعت شامل ہوجاتی ہے کیونکہ ایسے افراد تو شاذ و نادر ہی ہو سکتے ہیں جنہوں نے مسلمان ہوجانے کے باوجود اللہ کے لئے کچھ خرچ بھی نہ کیا ہو اور مخالفین اسلام کے مقابلہ و مقاتلہ میں بھی شریک نہ ہوئے ہوں، اس لئے قرآن کریم کا یہ اعلان مغفرت و رحمت پوری جماعت صحابہ کرام کے لئے عام اور شامل ہے۔
ابن حزم نے فرمایا کہ اس کے ساتھ قرآن کی دوسری آیت سورة انبیاء کو ملاؤ جس میں فرمایا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ۔ لَا يَسْمَعُوْنَ حَسِيْسَهَا ۚ وَهُمْ فِيْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ۔ " یعنی جن لوگوں کے لئے ہم نے حسنیٰ کو مقرر کردیا ہے وہ جہنم سے ایسے دور رہیں گے کہ اس کی تکلیف دہ آوازیں بھی ان کے کانوں تک نہ پہنچیں گی اور اپنی دلخواہ نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے "۔
آیات زیر بحث میں وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى، مذکور ہے اور اس آیت میں جن کے لئے حسنیٰ کا وعدہ ہوا ان کے لئے جہنم کی آگ سے بہت دور رہنے کا اعلان ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کی ضمانت دے دی کہ حضرات صحابہ سابقین و آخرین میں سے کسی سے بھی اگر عمر بھر میں کوئی گناہ سرزد ہو بھی گیا تو وہ اس پر قائم نہ رہے گی توبہ کرلے گا یا پھر نبی کریم ﷺ کی صحبت و نصرت اور دین کی خدمات عظیمہ اور ان کی بیشمار حسنات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا اور ان کی موت اس سے پہلے نہ ہوگی کہ ان کا گناہ معاف ہو کر وہ صاف و بیباق ہوجائیں، یا دنیا کے مصائب و آفات اور زیادہ سے زیادہ برزخ میں کوئی تکلیف ان کے سیئات کا کفارہ ہوجائے۔
اور جن احادیث میں بعض صحابہ کرام پر مرنے کے بعد عذاب کا ذکر آیا ہے وہ عذاب آخرت و عذاب جہنم کا نہیں برزخی یعنی قبر کا عذاب ہے، یہ کوئی بعید نہیں ہے کہ صحابہ کرام میں سے اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہو اور اتفاقاً توبہ کر کے اس سے پاک ہوجانے کا بھی موقع نہیں ہوا تو ان کو برزخی عذاب کے ذریعہ پاک کردیا جائے گا، تاکہ آخرت کا عذاب ان پر نہ رہے۔
صحابہ کرام کا مقام قرآن و حدیث سے پہچانا جاتا ہے تاریخی روایات سے نہیں
خلاصہ یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام عام امت کی طرح نہیں وہ رسول اللہ ﷺ اور امت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ایک واسطہ ہیں، ان کے بغیر نہ امت کو قرآن پہنچنے کا کوئی راستہ ہے اور نہ معانی قرآن اور تعلیمات رسول اللہ ﷺ کا، اس لئے اسلام میں ان کا ایک خاص مقام ہے ان کے مقامات کتب تاریخ کی رطب و یابس روایات سے نہیں پہچانے جاتے، بلکہ قرآن و سنت کے ذریعہ پہچانے جاتے ہیں۔
ان میں سے اگر کسی سے کوئی لغزش اور غلطی بھی ہوتی ہے تو اکثر وہ اجتہادی خطا ہوتی ہے جس پر کوئی گناہ نہیں، بلکہ حسب تصریح احادیث صحیحہ ایک اجر ہی ملتا ہے اور اگر فی الواقع کوئی گناہ ہی ہوگیا تو اول وہ ان کے عمر بھر کے اعمال حسنہ اور رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی نصرت و خدمت کے مقابلہ میں صفر کی حیثیت رکھتا ہے، پھر ان میں خشیت اور خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ معمولی سے گناہ سے بھی لرز جاتے اور فوراً توبہ کرتے اور اپنے نفس پر اس کی سزا جاری کرنے کے لئے کوشش کرتے تھے، کوئی اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیتا اور جب تک توبہ قبول ہوجانے کا یقین نہ ہوجائے بندھا کھڑا رہتا تھا اور پھر ان میں سے ہر ایک کی حسنات اتنی ہیں کہ وہ خود گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہیں، ان سب پر مزید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطاؤں کی مغفرت کا عام اعلان اس آیت میں اور دوسری آیات میں فرما دیا اور صرف مغفرت ہی نہیں بلکہ رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ فرما کر اپنی رضا کی بھی سند دیدی، اس لئے ان کے آپس میں جو اختلافات اور مشاجرات پیش آئے ان کی وجہ سے ان میں سے کسی کو برا کہنا یا اس پر طعن وتشنیع کرنا قطعاً حرام اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق موجب لعنت اور اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے، نعوذ باللہ منہ
آج کل تاریخ کی جھوٹی سچی، قوی ضعیف روایات کی بناء پر جو بعض لوگوں نے بعض حضرات صحابہ کو مورد طعن و الزام بنایا ہے، اول تو اس کی بنیاد جو تاریخی روایات پر ہے وہ بنیاد ہی متزلزل ہے اور اگر کسی درجہ میں ان روایات کو قابل التفات مان بھی لیا جائے تو قرآن و حدیث کے کھلے ہوئے ارشادات کے خلاف ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، وہ سب مغفور ہیں۔
صحابہ کرام کے بارے میں پوری امت کا اجماعی عقیدہ
یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم و تکریم، ان سے محبت رکھنا، ان کی مدح وثناء کرنا واجب ہے اور ان کے آپس میں جو اختلافات اور مشاجرات پیش آئے ان کے معاملے میں سکوت کرنا، کسی کو مورد الزام نہ بنانا لازم ہے، عقائد اسلامیہ کی تمام کتابوں میں اس اجماعی عقیدہ کی تصریحات موجود ہیں، امام احمد کا رسالہ جو بروایت اصطخری معروف ہے اس کے بعض الفاظ یہ ہیں۔
لا یجوز لاحد ان یذکر شیئا من مساویھم ولا یطعن علیٰ احد منھم بعیب ولا نقص فمن فعل ذلک وجب تادیبہ (شرح العقیدة الواسطیتہ معروف بہ الدرة المفیتہ، ص 389)
" کسی کے لئے جائز نہیں کہ صحابہ کرام کی کسی برائی کا ذکر کرے، یا ان میں سے کسی برطعن کرے یا کوئی عیب یا نقصان ان کی طرف منسوب کرے اور جو ایسا کرے اس کو سزا دینا واجب ہے "
اور ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں صحابہ کرام کے متعلق فضائل و خصوصیات کی بہت سی آیات اور روایات حدیث لکھنے کے بعد لکھا ہے۔
وھذا مما لا نعلم فیہ خلافا بین اہل الفتہ والعلم من اصحاب رسول اللہ ﷺ والتابعین لھم باحسان وسائر اہل السنة والجماعة فانھم مجمعون علیٰ ان الواجب الثناء علیھم و الاستغفار لھم والترحم علیھم والترضی عنھم و اعتقاد محبتھم وموالاتھم وعقوبة من اساء فیھم القول۔
" جہاں تک ہمارے علم میں ہے ہم اس معاملہ میں علماء، فقہاء، صحابہ وتابعین اور تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پاتے کیونکہ سب کا اس پر اجماع ہے کہ امت پر واجب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام کی مدح وثناء کرے اور ان کے لئے استغفار کرے اور ان کو اللہ کی رحمت و رضا کے ساتھ ذکر کرے، ان کی محبت اور دوستی پر ایمان رکھے اور جو ان کے معاملہ میں بےادبی کرے اس کو سزا دے "
اور ابن تیمیہ نے شرح عقیدہ واسطیہ میں تمام امت محمدیہ اہل السنتہ و الجماعتہ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے مشاجرات صحابہ کے متعلق لکھا ہے
ویمسکون عما شجر بین الصحابۃ ویقولون ھذہ الاثار المرویة فی مساویھم منھا ما ھو کذب و منھا ما زید فیھا ونقص و غیر وجھہ والصحیح منہ ھم فیہ معذورون اما مجتھدون مصیبون واما مجتھدون مخطئون، وہم مع ذلک لا یعتقدون ان کل واحد من الصحابة معصوم من کبائر الاثم وصغائرہ بل یجوز علیھم الذنوب فی الجملة ولھم من الفضائل و السوابق ما یوجب مغفرة ما یصدر منھم حتی انھم یغفرلھم من السیئات مالا یغفر لمن بعدھم۔
" اہل السنتہ و الجماعتہ سکوت اختیار کرتے ہیں ان اختلافی معاملات سے جو صحابہ کرام کے درمیان پیش آئے اور کہتے ہیں کہ جو روایات ان میں سے کسی پر عیب لگانے والی ہیں ان کی حقیقت یہ ہے کہ بعض تو بالکل جھوٹ ہے اور بعض میں کتربیونت کر کے ان کی اصل حقیقت بگاڑ دی گئی ہے اور جو کچھ صحیح ہے وہ اس میں معذور ہیں کیونکہ (انہوں نے جو کچھ کیا اللہ کے لئے کیا اجہتاد سے کیا) اس اجہتاد میں یا وہ صحیح بات پر تھے (تو دوہرے ثواب کے مستحق تھے) یا خطاء پر تھے (تو معذور اور ایک ثواب کے مستحق تھے) ان تمام باتوں کے ساتھ وہ اس کے معتقد نہیں کہ ہر صحابی چھوٹے بڑے گناہوں سے معصوم ہے بلکہ ان سے گناہ کا صدور ممکن ہے، مگر ان کے فضائل اور اسلام کی عظیم الشان خدمات ایسی ہیں جو ان سب کی مغفرت کی مقتضی ہیں یہاں تک کہ ان کی مغفرت و معافی اتنی وسیع ہوگی جو امت میں دوسروں کے لئے نہ ہوگی "
مقام صحابہ اور ان کے درجات و فضائل پر مفصل بحث سورة فتح کی آیات (والذین معہ الخ) کے تحت گزر چکی ہے اور احقر نے اس بحث پر ایک مفصل رسالہ (مقام صحابہ) کے نام سے لکھ دیا ہے جو جداگانہ شائع ہوچکا ہے، جس میں عدالت صحابہ، مشاجرات صحابہ اور ان کے بارے میں تاریخی روایات کی حیثیت اور درجہ کی مکمل تحقیق ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔
Top