Maarif-ul-Quran - Al-Hadid : 23
لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِۙ
لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَاْسَوْا : تم افسوس کرو عَلٰي مَا : اوپر اس کے جو فَاتَكُمْ : نقصان ہوا تم کو۔ کھو گیا تم سے وَلَا تَفْرَحُوْا : اور نہ تم خوش ہو بِمَآ اٰتٰىكُمْ ۭ : ساتھ اس کے جو اس نے دیا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا كُلَّ مُخْتَالٍ : ہر خود پسند فَخُوْرِۨ : فخر جتانے والے کو
تاکہ تم غم نہ کھایا کرو اس پر جو ہاتھ نہ آیا اور نہ شیخی کیا کرو اس پر جو تم کو اس نے دیا اور اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا
(آیت) لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ ، مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ مصیبت یا راحت، خوشی یا غم انسان کو پیش آتا ہے وہ سب حق تعالیٰ نے لوح محفوظ میں انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لکھ رکھا ہے، اس کی اطلاع تمہیں اس لئے دی گئی تاکہ تم دنیا کے اچھے برے حالات پر زیادہ دھیان نہ دو ، نہ یہاں کی تکلیف و مصیبت یا نقصان و فقدان کچھ زیادہ حسرت و افسوس کرنے کی چیز ہے اور نہ یہاں کی راحت و عیش یا مال و متاع اتنا زیادہ خوش اور مست ہونے کی چیز ہے جس میں مشغول ہو کر اللہ کی یاد اور آخرت سے غافل ہوجاؤ۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ ہر انسان طبعی طور پر بعض چیزوں سے خوش ہوتا ہے بعض سے غمگین، لیکن ہونا یہ چاہئے کہ جس کو کوئی مصیبت پیش آوے وہ اس پر صبر کر کے آخرت کا اجر وثواب کمائے اور جو کوئی راحت و خوشی پیش آئے وہ اس پر شکر گزار ہو کر اجر وثواب حاصل کرے (رواہ الحاکم و صححہ، از روح)
اگلی آیت میں راحت و آرام یا مال و دولت پر اترانے والے اور فخر کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی، وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِ ، یعنی اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا اترانے والے، فخر کرنے والے کو اور یہ ظاہر ہے جس کو پسند نہیں کرتا اس سے بغض و نفرت رکھتا ہے، مطلب یہ ہے کہ دنیا کی نعمتوں پر اترانے اور فخر کرنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں، مگر عنوان تعبیر میں پسند نہ کرنا ذکر کر کے شاید اس طرف اشارہ ہے کہ عقلمند عاقبت اندیش انسان کا فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے ہر کام میں اس کی فکر کرے وہ اللہ کے نزدیک پسند ہے یا نہیں، اس لئے یہاں ناپسند ہونے کا ذکر فرمایا گیا۔
Top