Maarif-ul-Quran - Al-Hashr : 10
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ جَآءُوْ : وہ آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : ہمیں بخشدے وَلِاِخْوَانِنَا : اور ہمارے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے سَبَقُوْنَا : ہم سے سبقت کی بِالْاِيْمَانِ : ایمان میں وَلَا تَجْعَلْ : اور نہ ہونے دے فِيْ قُلُوْبِنَا : ہمارے دلوں میں غِلًّا : کوئی کینہ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کیلئے جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو رَءُوْفٌ : شفقت کرنیوالا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور واسطے ان لوگوں کے جو آئے ان کے بعد کہتے ہوئے اے رب بخش ہم کو اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے داخل ہوئے ایمان میں اور نہ رکھ ہمارے دلوں میں بیر ایمان والوں کا اے رب تو ہی ہے نرمی والا مہربان۔
مہاجرین و انصار کے بعد عام امت کے مسلمان
(آیت) وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ الایة، اس آیت کے مفہوم میں صحابہ کرام مہاجرین و انصار کے بعد پیدا ہونے والے قیامت تک کے مسلمان شامل ہیں اور اس آیت نے ان سب کو مال فئی میں حقدار قرار دیا ہے، یہی سبب تھا کہ حضرت فاروق اعظم نے دنیا کے بڑے ممالک عراق، شام، مصر وغیرہ فتح کئے، تو ان کی زمینوں کو غانمین میں تقسیم نہیں فرمایا بلکہ ان کو اگلی آنے والی نسلوں کے لئے وقف عام رکھا کہ ان کی آمدنی اسلامی بیت المال میں آتی رہے اور اس سے قیامت تک آنے والے مسلمان فائدہ اٹھا سکیں، بعض صحابہ کرام نے جو ان سے مفتوحہ زمینوں کی تقسیم کا سوال کیا تو انہوں نے اسی آیت کا حوال دے کر فرمایا کہ اگر میرے سامنے آئندہ آنے والی نسلوں کا معاملہ نہ ہوتا تو میں جو ملک فتح کرتا اس کی سب زمینوں کو بھی غانمین میں تقسیم کردیتا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زمینوں کو تقسیم فرما دیا تھا، اگر یہ ساری زمینیں موجودہ مسلمانوں میں تقسیم ہوگئیں تو آنے والے مسلمانوں کے لئے کیا باقی رہے گا (رواہ مالک، قرطبی)
امت کے حق پر ہونے کی پہچان صحابہ کرام کی محبت و عظمت ہے
اس مقام میں حق تعالیٰ نے پوری امت محمدیہ کے تین طبقے کئے، مہاجرین، انصار اور باقی تمام امت، مہاجرین و انصار کے خاص اوصاف اور فضائل بھی اس جگہ ذکر فرمائے مگر باقی امت کے فضائل و کمالات اور اوصاف میں سے صرف ایک چیز یہ بتلائی کہ وہ صحابہ کرام کی سبقت ایمانی اور ایمان کے ہم تک پہنچانے کا ذریعہ ہونے کو پہچانیں اور سب کے لئے دعائے مغفرت کریں اور اپنے لئے یہ دعا کریں کہ ہمارے دلوں میں کسی مسلمان سے کینہ و نفرت نہ رہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے بعد والے جتنے مسلمان ہیں ان کا ایمان و اسلام قبول ہونے اور نجات پانے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ صحابہ کرام کی عظمت و محبت اپنے دلوں میں رکھتے ہوں اور ان کے لئے دعا کرتے ہوں، جس میں یہ شرط نہیں پائی جاتی وہ مسلمان کہلانے کے قابل نہیں، اسی لئے حضرت مصعب بن سعد نے فرمایا کہ امت کے تمام مسلمان تین درجوں میں ہیں، جن میں سے دو درجے تو گزر چکے یعنی مہاجرین و انصار، اب صرف ایک درجہ باقی رہ گیا، یعنی وہ جو صحابہ کرام سے محبت رکھے، ان کی عظمت پہچانے، اب اگر تمہیں امت میں کوئی جگہ حاصل کرنی ہے تو اسی تیسرے درجہ میں داخل ہوجاؤ۔
حضرت حسین سے کسی نے حضرت عثمان غنی کے بارے میں سوال کیا (جبکہ ان کی شہادت کا واقعہ پیش آ چکا تھا) تو انہوں نے سوال کرنے والے سے پوچھا کہ تم مہاجرین میں سے ہو ؟ اس نے انکار کیا پھر پوچھا کہ انصار میں سے ہو ؟ اس نے اس کا بھی انکار کیا تو فرمایا بس اب تیسری آیت والَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ کی رہ گئی، اگر تم عثمان غنی کی شان میں شک و شبہ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس درجہ سے بھی نکل جاؤ گے۔
قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام کی محبت ہم پر واجب ہے، حضرت امام مالک نے فرمایا کہ جو شخص کسی صحابی کو برا کہے یا اس کے متعلق برائی کا اعتقاد رکھے اس کا مسلمانوں کے مال فئی میں کوئی حصہ نہیں، پھر اسی آیت سے استدلال فرمایا اور چونکہ مال فئی میں حصہ ہر مسلمان کا ہے تو جس کا اس میں حصہ نہ رہا اس کا اسلام و ایمان ہی مشکوک ہوگیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو اصحاب محمد ﷺ کے لئے استغفار اور دعا کرنے کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان کے آپس میں جنگ وجدال کے فتنے بھی پیدا ہوں گے (اس لئے کسی مسلمان کو مشاجرات صحابہ کی وجہ سے ان میں سے کسی سے بدگمان ہونا جائز نہیں)
حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی ﷺ سے سنا ہے کہ یہ امت اس وقت تک ہلاک نہیں ہوگی جب تک اس کے پچھلے لوگ اگلوں پر لعنت و ملامت نہ کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دیکھو کہ کسی صحابی کو برا کہتا ہے تو اس سے کہو کہ جو تم سے زیادہ برا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت، یہ ظاہر ہے کہ زیادہ برے صحابہ تو ہو نہیں سکتے یہی ہوگا جو ان کی برائی کر رہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی کو برا کہنا سبب لعنت ہے اور عوام بن شب نے فرمایا کہ اس نے اس امت کے پہلے لوگوں کو اس بات پر مستقیم اور مضبوط پایا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ تلقین کرتے تھے کہ صحابہ کرام کے فضائل اور محاسن بیان کیا کرو تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو اور وہ مشاجرات اور اختلافات جو ان کے درمیان پیش آئے ہیں ان کا ذکر نہ کیا کرو جس سے ان کی جرات بڑھے (اور وہ بےادب ہوجاویں) (یہ سب روایات تفسیر قرطبی سے لی گئی ہیں)۔
Top