Maarif-ul-Quran - Al-Hashr : 18
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : تم اللہ سے ڈرو وَلْتَنْظُرْ : اور چاہیے کہ دیکھے نَفْسٌ : ہر شخص مَّا قَدَّمَتْ : کیا اس نے آگے بھیجا لِغَدٍ ۚ : کل کے لئے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌۢ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے ایمان والو ! ڈرتے رہو اللہ سے اور چاہئے کہ دیکھ لے ہر ایک جی کیا بھیجتا ہے کل کے واسطے اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو ! (تم نے نافرمانوں کا انجام سن لیا سو تم) اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر ہر شخص دیکھ بھال لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے (یعنی اعمال صالحہ میں کوشش کرو جو کہ ذخیرہ آخرت ہیں) اور (جس طرح تحصیل طاعات و اعمال صالحہ میں تقویٰ کا حکم ہے، اسی طرح سیئات و معاصی سے بچے کے بارے میں تم کو حکم ہے کہ) اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی سب خبر ہے (پس معاصی کے ارتکاب سے اندیشہ عقوبت ہے، پس پہلا اتَّقُوا اللّٰهَ طاعات کے متعلق ہے جس کا قرینہ قدمت لغد ہے، اور دوسرا معاصی کے متعلق ہے، جس کا قرینہ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ہے) اور (آگے ان احکام کی مزید تاکید کے لئے ارشاد ہے کہ) تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے اللہ (کے احکام) سے بےپروائی کی (یعنی عمل بالاحکام کو ترک کردیا، اس طرح کہ اوامر کے خلاف کیا اور نواہی کا ارتکاب کیا) سو (اثر اس کا یہ ہوا کہ) اللہ تعالیٰ نے خود ان کی جان سے ان کو بےپرواہ بنادیا (یعنی ان کی ایسی عقل ماری گئی کہ خود اپنے نفع حقیقی کو نہ سمجھا اور نہ حاصل کیا) یہی لوگ نافرمان ہیں (اور نافرمانی کی سزا بھگتیں گے اور اوپر جن دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہوا، یعنی ایک وہ جو اہل تقویٰ ہوئے اور دوسرے وہ جو مارک احکام ہوئے ان میں ایک اہل جنت ہیں دوسرے اہل نار اور) اہل نار اور اہل جنت باہم برابر نہیں (بلکہ) جو اہل جنت ہیں وہ لوگ کامیاب ہیں (اور اہل نار ناکام ہیں جیسا اوپر (آیت) اولٓئک ھم الفسقون سے معلوم ہوا پس تم کو اصحاب الجنتہ میں سے ہونا چاہئے، اہل نار میں سے نہ ہونا چاہئے اور یہ چند نصائح جس قرآن کے ذریعہ سے تم کو سنائے جاتے ہیں وہ ایسا ہے کہ) اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے (اور اس میں سمجھنے کا مادہ رکھ دیتے اور شہوات کا مادہ نہ رکھتے) تو (اے مخاطب) تو اس کو دیکھتا کہ خدا کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا (یعنی قرآن فی نفسہ ایسا موثر اور قوی الاثر ہے، مگر انسان میں بوجہ غلبہ شہوات کے قابلیت فاسد ہوگئی جس کے سبب تاثر نہیں ہوتا، پس ان کو چاہئے کہ تحصیل طاعات اور ترک معاصی سے اپنی شہوت کو مغلوب کرے تاکہ مواعظ قرآنیہ سے اس کو تاثر ہو اور احکام پر استقامت و استدامت اور ذکر و فکر نصیب ہو جس کا اوپر حکم ہوا ہے) اور ان مضامین عجیبہ کو ہم لوگوں کے (نفع کے) لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سوچیں (اور منتفع ہوں، اسی لئے یہ مضمون لوانزلنا الخ یہاں بیان کیا گیا، آگے حق تعالیٰ کے صفات کمال بیان کئے جاتے ہیں جس سے حق تعالیٰ کی عظمت قلب پر نقش ہو کر احکام بجالانے میں مددگار ثابت ہو، پس ارشاد ہے کہ) وہ ایسا معبود ہے کہ اس کے سوا کوئی اور معبود (بننے کے لائق) نہیں وہ جانتے والا ہے پوشیدہ چیزوں کا اور ظاہر چیزوں کا وہی بڑا مہربان رحم والا ہے (اور چونکہ توحید نہایت مہتم بالشان چیز ہے، اس لئے اس کی تاکید کے لئے مکرر فرمایا کہ) وہ ایسا معبود ہے کہ اس کے سوال کوئی اور معبود (بننے کے لائق) نہیں وہ بادشاہ ہے (سب عیبوں سے) پاک ہے، سالم ہے (یعنی نہ ماضی میں اس میں کوئی عیب ہوا جو حاصل ہے قدوسی کا اور نہ آئندہ اس کا احتمال ہے جو حاصل ہے سلام کا (کذافی الکبیر) اپنے بندوں کو خوف کی چیزوں سے) امن دینے والا ہے (اپنے بندوں کی خوف کی چیزوں سے) نگہبانی کرنے والا ہے (یعنی آفت بھی نہیں آنے دیتا اور آئی ہوئی کو بھی دور کردیتا ہے) زبردست ہے خرابی کا درست کردینے والا ہے، بڑی عظمت والا ہے، اللہ تعالیٰ (جس کی یہ شان ہے کہ) لوگوں کے شرک سے پاک ہے وہ معبود (برحق) ہے پیدا کرنے والا ہے، ٹھیک ٹھیک بنانے والا ہے (یعنی ہر چیز کو حکمت کے موافق بناتا ہے) صورت (شکل) بنانے والا ہے، اس کے اچھے اچھے نام ہیں (جو اچھی اچھی صفتوں پر دلالت کرتے ہیں) سب چیزیں اس کی تسبیح (و تقدیس) کرتی ہیں (حالاً یا قالاً) جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور وہی زبردست حکمت والا ہے (پس ایسے باعظمت کے احکام کی بجا آوری ضرور اور نہایت ضرور ہے)۔

معارف و مسائل
سورة حشر میں شروع سے کفار اہل کتاب اور مشرکین و منافقین کے حالات و معاملات اور ان پر دنیا و آخرت کے وبال کا بیان فرمانے کے بعد اب آخر سورت تک مومنین کو متنبہ کرنا اور اعمال صالحہ کی پابندی کرنے کی ہدایت ہے۔
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں ایک بلیغ انداز سے آخرت کی فکر اور اس کے لئے تیاری کا حکم ہے جس میں پہلے فرمایا۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ، یعنی اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور تم میں سے ہر نفس کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ اس نے آخرت کے لئے کیا سامان بھیجا ہے۔
یہاں چند باتیں غور طلب ہیںاول۔ یہ کہ اس آیت میں قیامت کو لفظ غد سے سے تعبیر کیا جس کے معنی ہیں آنے والی کل، اس میں تین چیزوں کی طرف اشارہ ہے، اول پوری دنیا کا بمقابلہ آخرت نہایت قلیل و مختصر ہونا ہے کہ ساری دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایک دن کی مثال ہے اور حساب کے اعتبار سے تو یہ نسبت ہونا بھی مشکل ہے، کیونکہ آخرت دائمی ہے جس کی کوئی انتہا اور انقطاع نہیں، انسانی دنیا کی عمر تو چند ہزار سال ہی بتلائی جاتی ہے، اگر زمین و آسمان کی تخلیق سے حساب لگائیں تو چند لاکھ سال ہوجائیں گے، مگر پھر ایک محدود مدت ہے غیر محدود اور غیر متناہی سے اس کو کوئی بھی نسبت نہیں ہوتی۔
بعض روایات حدیث میں ہے الدنیا یوم و لنا فیہ صوم، یعنی ”ساری دنیا ایک دن ہے اور اس دن میں ہمارا روزہ ہے“ اور غور کرو تو تخلیق انسانی سے شروع کرو یا تخلیق زمین و آسمان سے یہ دونوں چیزیں ایک فرد انسانی کے لئے قابل اہتمام نہیں، بلکہ ہر فرد کی دنیا تو اس کی عمر کے ایام و سال ہیں اور وہ آخرت کے مقابلہ میں کتنی حقیر مدت ہے، اس کا ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے۔
دوسرا اشارہ اس میں قیامت کے یقینی ہونے کی طرف ہے، جیسے آج کے بعد کل کا آنا امر یقینی ہے کسی کو اس میں شبہ نہیں ہوتا، اسی طرح دنیا کے بعد قیامت و آخرت کا آنا یقینی ہے۔
تیسرا اشارہ اس طرف ہے کہ قیامت بہت قریب ہے جیسے آج کے بعد کل کچھ دور نہیں، بہت قریب سمجھی جاتی ہے، اسی طرح دنیا کے بعد قیامت بھی قریب ہے۔
اور قیامت ایک تو پورے عالم کی ہے جب زمین و آسمان سب فنا ہوجائیں گے، وہ بھی اگرچہ ہزاروں لاکھوں سال کے بعد ہو مگر بمقابلہ مدت آخرت کے بالکل قریب ہی ہے، دوسری قیامت ہر انسان کی اپنی ہے جو اس کی موت کے وقت آجاتی ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے من مات فقد قامت قیامتہ، یعنی ”جو شخص مر گیا اس کی قیامت تو ابھی قائم ہوگئی“ کیونکہ قبر ہی سے عالم آخرت کے آثار شروع ہوجاتے ہیں اور عذاب وثواب کے نمونے سامنے آجاتے ہیں کیونکہ عالم قبر جس کو عالم برزخ بھی کہا جاتا ہے اس کی مثال دنیا کی انتظار گاہ (ویٹنگ روم) کی سی ہے جو فرسٹ کلاس سے لے کر تھرڈ کلاس تک کے لوگوں کے لئے مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور مجرموں کا ویٹنگ روم حوالات یا جیل خانہ ہوتا ہے، اسی انتظار گاہ ہی سے ہر شخص اپنا درجہ اور حیثیت متعین کرسکتا ہے، اس لئے مرنے کے ساتھ ہی ہر انسان کی اپنی قیامت آجاتی ہے اور انسان کا مرنا اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا معمہ بنایا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا فلسفی اور سائنسدان اس کا یقینی وقت مقرر نہیں کرسکتا، بلکہ ہر وقت ہر آن انسان اس خطرہ سے باہر نہیں ہوتا کہ شاید اگلا گھنٹہ زندگی کی حالت میں نہ آئے، خصوصاً اس برق رفتار زمانہ میں تو ہارٹ فیل ہونے کے واقعات نے اس کو روز مرہ کی بات بنادیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں قیامت کو لفظ غد سے تعبیر کر کے بےفکرے انسان کو متنبہ کردیا کہ قیامت کو کچھ دور نہ سمجھو وہ آنے والی کل کی طرح قریب ہے اور ممکن یہ بھی ہے کہ کل سے پہلے ہی آجائے۔
دوسری غور طلب بات اس آیت میں یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اس میں انسان کو اس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی کہ قیامت جس کا آنا یقینی بھی ہے اور قریب بھی اس کے لئے تم نے کیا سامان بھیجا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا اصل وطن اور مقام آخرت ہے، دنیا میں اس کا مقام ایک مسافر کی طرح ہے، وطن کے دائمی قیام وقرار کے لئے یہیں سے کچھ سامان بھیجنا ضروری ہے اور انسان کے اس سفر کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ یہاں رہ کر کچھ کمائے اور جمع کرے پھر اس کو اپنے وطن آخرت کی طرف بھیج دے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہاں سے دنیا کا سامان، مال و دولت کوئی وہاں ساتھ نہیں لے جاسکتا تو بھیجنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف مال منتقل کرنے کا جو طریقہ دنیا میں رائج ہے کہ یہاں کی حکومت کے بینک میں جمع کر کے دوسرے ملک کی کرنسی حاصل کرلے جو وہاں چلتی ہے، یہی صورت آخرت کے معاملہ میں ہے کہ جو کچھ یہاں اللہ کی راہ میں اور اللہ کے احکام کی تعمیل میں خرچ کیا جاتا ہے وہ آسمانی حکومت کے بینک (اسٹیٹ بینک) میں جمع ہوجاتا ہے، وہاں کی کرنسی ثواب کی صورت میں اس کے لئے لکھ دی جاتی ہے، اور وہاں پہنچ کر بغیر کسی دعوے اور مطالبہ کے اس کے حوالہ کردی جاتی ہے۔
اور لفظ مّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ عام ہے نیک اعمال اور بد اعمال دونوں کے لئے جس نے نیک اعمال آگے بھیجے ہیں اس کو ثواب کی صورت میں آخرت کے نقود (کرنسی) مل جائے اور جس نے برے اعمال آگے بھیجے ہیں وہاں اس پر فرد جرم عائد ہوگی، اس کے بعد لفظ اتقواللہ کا اعادہ کیا گیا، یہ تاکید کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور وہ مراد بھی ہو سکتی ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں بیان ہوئی ہے کہ پہلے اتقواللہ سے واجب و فرائض کی ادائیگی کا اہتمام سکھایا گیا اور دوسرے اتقوا اللہ سے گناہوں سے بچنے کا اہتمام بتلایا گیا ہے
اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے اتقوا اللہ سے اعمال و احکام خداوندی کی تعمیل کر کے آخرت کے لئے کچھ سامان بھیجنے کا حکم ہو اور دوسرے اتقوا اللہ سے اس طرف ہدایت ہو کہ دیکھو جو سامان وہاں بھیجتے ہو اس کو دیکھ لو، کہ وہ کوئی کھوٹا خراب سامان نہ ہو جو وہاں کام نہ آئے، کھوٹا سامان وہاں کے لئے وہ ہے کہ جس کی صورت عمل صالح کی ہو مگر اس میں اخلاص اللہ کی رضا کے لئے نہ ہو بلکہ نام و نمود یا اور کوئی غرض نفسانی شامل ہو، یا وہ عمل جو صورت میں تو عبادت ہے مگر دین میں اس کا کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے بدعت و گمراہی ہے، تو اس دوسرے اتقوا اللہ کا خلاصلہ یہ ہوا کہ آخرت کے لئے محض سامان کی صورت بنادینا کافی نہیں، دیکھ کر بھیجو کہ کھوٹا سامان نہ ہو جو وہاں نہ لیا جائے۔
Top