Maarif-ul-Quran - Al-Hashr : 24
هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى١ؕ یُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الْخَالِقُ : خالق الْبَارِئُ : ایجاد کرنیوالا الْمُصَوِّرُ : صورتیں بنانیوالا لَهُ : اس کے لئے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى ۭ : اچھے يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لَهٗ : اس کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ ۚ : اور زمین وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
وہ اللہ ہے بنانے والا نکال کھڑا کرنے والا صورت کھینچنے والا اسی کے ہیں سب نام خاصے پاکی بول رہا ہے اس کی جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور وہی ہے زبردست حکمتوں والا۔
الْمُصَوِّرُ کے معنی صورت بنانے والا، مراد یہ ہے کہ تمام مخلوقات کو حق تعالیٰ نے خاص خاص شکل و صورت عطا فرمائی ہے جس کی وجہ سے وہ دوسری چیزوں سے ممتاز ہوئی اور پہچانی جاتی ہے۔ دنیا کی عام مخلوقات آسمانی اور زمینی خاص خاص صورتوں ہی سے پہچانی جاتی ہیں، پھر ان میں انواع و اصناف کی تقسیم اور ہر نوع و صنف کی جداگانہ ممتاز شکل و صورت اور ایک ہی نوع انسانی میں مرد و عورت کی شکل و صورت کا امتیاز پھر سب مردوں سب عورتوں کی شکلوں میں باہم ایسے امتیازات کہ اربوں کھربوں انسان دنیا میں پیدا ہوئے ایک کی صورت بالکلیہ دوسرے سے نہیں ملتی کہ بالکل امتیاز نہ ہو سکے، یہ کمال قدرت صرف ایک ہی ذات حق جل شانہ کا ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں، جس طرح غیر اللہ کے لئے تکبر جائز نہیں کہ کبریا صرف اللہ جل شانہ کی صفت ہے اسی طرح تصویر سازی غیر اللہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفت میں شرکت کا عملی دعویٰ ہے۔
لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۭ ”یعنی اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں، قرآن کریم میں ان کی تعداد متعین نہیں فرمائی، صحیح احادیث میں ننانوے تعداد بتلائی ہے، ترمذی کی ایک حدیث میں یہ سب یک جا مذکور ہیں اور بہت سے علماء نے اسما حسنیٰ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، احقر کا بھی ایک مختصر رسالہ اسما حسنیٰ کے نام سے مناجات مقبول کے شروع میں طبع ہوا ہے۔
يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ، یہ تسبیح زبان حال سے ہونا تو ظاہر ہی ہے کہ ساری مخلوقات اور ان کے اندر رکھی ہوئی عجیب و غریب صنعتیں اور صورتیں زبان حال سے اپنے بنانے والے کی حمد ثناء میں مشغول ہیں اور ہوسکتا ہے کہ حقیقی تسبیح مراد ہو، کیونکہ تحقیق یہی ہے کہ تمام اشیاء کو عالم میں اپنی اپنی حیثیت کا عقل و شعور ہے اور عقل و شعور کا سب سے پہلا مقتضی اپنے بنانے والے کو پہچاننا اور اس کا شکر گزار ہونا ہے، اس لئے ہر چیز حقیقتہً تسبیح کرتی ہو تو اس میں کوئی بعد نہیں، اگرچہ ہم ان کی تسبیح کو کانوں سے نہ سن سکیں اسی لئے قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا ہے (آیت) ولکن لاتفقھون تسبیحھم، یعنی تم ان کی تسبیح کو سنتے سمجھتے نہیں۔
سورة حشر کی آخری آیات کے فوائد و برکات
ترمذی میں حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو صبح کے وقت تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم اور اس کے بعد ایک مرتبہ سورة حشر کی آخری تین آیتیں ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو، سے آخر سورت تک پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیتے ہیں جو شام تک اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے رہتے، اگر اس دن میں وہ مر گیا تو شہادت کی موت حاصل ہوگی اور جس نے شام کو یہی کلمات تین مرتبہ پڑھ لئے تو یہی درجہ اس کو حاصل ہوگا (مظہری)
تمت بعون اللہ تعالیٰ سبحانہ و حمدہ سورة الحشر
Top