Maarif-ul-Quran - Al-Hashr : 9
وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ١۫ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ
وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں نے تَبَوَّؤُ : انہوں نے قرار پکڑا الدَّارَ : اس گھر وَالْاِيْمَانَ : اور ایمان مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے يُحِبُّوْنَ : وہ محبت کرتے ہیں مَنْ هَاجَرَ : جس نے ہجرت کی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَا يَجِدُوْنَ : اور وہ نہیں پاتے فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : اپنے سینوں (دلوں) حَاجَةً : کوئی حاجت مِّمَّآ : اس کی اُوْتُوْا : دیا گیا انہیں وَيُؤْثِرُوْنَ : اور وہ اختیار کرتے ہیں عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَلَوْ كَانَ : اور خواہ ہو بِهِمْ خَصَاصَةٌ ڵ : انہیں تنگی وَمَنْ يُّوْقَ : اور جس نے بچایا شُحَّ نَفْسِهٖ : بخل سے اپنی ذات کو فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور جو لوگ جگہ پکڑ رہے ہیں اس گھر میں اور ایمان میں ان سے پہلے سے وہ محبت کرتے ہیں اس سے جو وطن چھوڑ کر آئے ان کے پاس اور نہیں پاتے اپنے دل میں تنگی اس چیز سے جو ان (مہاجرین) کو دی جائے اور مقدم رکھتے ہیں ان کو اپنی جان سے اور اگرچہ ہو اپنے اوپر فاقہ اور جو بچایا گیا اپنے جی کے لالچ سے تو وہی لوگ ہیں مراد پانے والے
فضائل انصار
(آیت) وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ الایتہ، تبوء کے معنی ٹھکانے بنانے کے ہیں اور دار سے مراد دار ہجرت یا دار ایمان یعنی مدینہ طیبہ ہے اسی لئے حضرت امام مالک ایک حیثیت سے مدینہ طیبہ کو باقی دنیا کے سب شہروں سے افضل قرار دیتے تھے، فرماتے تھے کہ دنیا کے تمام شہر اور ملک جہاں جہاں اسلام پہنچا اور پھیلا ہے سب جہاد کے ذریعہ فتح ہوئے ہیں یہاں تک کہ مکہ مکرمہ بھی، بجز مدینہ طیبہ کے یہ صرف ایمان سے فتح ہوا ہے (قرطبی)
اس آیت میں تبو کے تحت میں دار کے ساتھ ایمان کا بھی ذکر فرمایا ہے، حالانکہ ٹھکانا پکڑنے کا تعلق کسی مقام اور جگہ سے ہوتا ہے، ایمان کوئی ایسی چیز نہیں جس میں ٹھکانا پکڑا جائے، اس لئے بعض حضرات نے فرمایا کہ یہاں ایک لفظ محذوف ہے یعنی اخلصوا یا تمکنوا، مطلب یہ ہوگا کہ یہی وہ حضرات ہیں جنہوں نے دارالہجرت میں ٹھکانا بنایا اور ایمان میں مخلص اور مضبوط ہوئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں استعارہ کے طور پر ایمان کو ایک محفوظ مکان سے تشبیہ دے کر اس میں پناہ گزین ہوجانے کو بیان فرمایا ہو اور لفظ من قبلہم یعنی مہاجرین سے پہلے کا مطلب یہ ہے کہ ان انصار مدینہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ جو شہر اللہ کے نزدیک دارالہجرت اور دارالایمان بننے والا تھا، اس میں ان لوگوں کا قیام وقرار مہاجرین سے پہلے ہوچکا تھا اور مہاجرین کے یہاں منتقل ہونے سے پہلے ہی یہ حضرات ایمان قبول کر کے اس میں پختہ ہوچکے تھے۔
دوسری صفتحضرات انصار کی اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ ، یعنی یہ حضران ان لوگوں سے محبت رکھتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے شہر میں چلے آئے ہیں جو عام دنیا کے انسانوں کے مزاج کے خلاف ہے، ایسے اجڑے ہوئے خستہ حال لوگوں کو اپنی بستی میں جگہ دینا کون پسند کرتا ہے، ہر جگہ ملکی اور غیر ملکی کے سوالات کھڑے ہوتے ہیں، مگر ان حضرات انصار نے صرف یہی نہیں کیا ان کو اپنی بستی میں جگہ دی، بلکہ اپنے مکانوں میں آباد کیا اور اپنے اموال میں حصہ دار بنایا اور اس طرح عزت و احترام کے ساتھ ان کا استقبال کیا کہ ایک ایک مہاجر کو اپنے پاس جگہ دینے کے لئے کئی کئی انصاری حضرات نے درخواست کی یہاں تک کہ قرعہ اندازی کرنا پڑی، قرعہ کے ذریعہ جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آیا اس کو سپرد کیا گیا (مظہری)
تیسرا وصفحضرات انصار کا بیہ بیان فرمایا (آیت) وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا، اس جملے کا تعلق اس خاص واقعہ سے ہے جو بنو نضیر کے جلا وطن ہونے اور ان کے باغات و مکانات پر مسلمانوں کا قبضہ ہونے کے وقت پیش آیا۔
اموال بنو نضیر کی تقسیم کا واقعہ
صورت یہ تھی کہ جب اس آیت میں اموال فئی کی تقسیم مہاجرین و انصار وغیرہ میں کرنے کا اختیار نبی کریم ﷺ کو دے دیا گیا، یہ وہ وقت تھا کہ مہاجرین کے پاس نہ اپنا کوئی مکان تھا نہ جائیداد، وہ حضرات انصار کے مکانوں میں رہتے اور انہی کی جائیدادوں میں محنت مزدوری کر کے گزارہ کرتے تھے جب بنو نضیر اور بنو قینقاع کے اموال بطور فئی کے مسلمانوں کو حاصل ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے انصار مدینہ کے سردار ثابت بن قیس بن شماس کو بلا کر فرمایا کہ اپنی قوم انصار کو میرے پاس بلا دو ، انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ انصار کے اپنے قبیلہ خزرج کو یا سب انصار کو ؟ آپ نے فرمایا سب ہی کو بلانا ہے، یہ حضرات سب جمع ہوگئے، تو رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبہ دیا، جس میں حمد و صلوٰة کے بعد انصار مدینہ کی اس بات پر مدح وثناء فرمائی کہ انہوں نے جو سلوک اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ کیا وہ بڑے عزم و ہمت کا کام تھا، اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کے اموال آپ لوگوں کو دے دیے ہیں، اگر آپ چاہیں تو میں ان اموال کو مہاجرین و انصار سب میں تقسیم کر دوں اور مہاجرین بدستور سابق آپ کے مکانوں میں رہائش پذیر رہیں اور آپ چاہیں تو ایسا کیا جائے کہ یہ بےگھر دبے زر لوگ ہیں، یہ اموال صرف ان میں تقسیم کردیئے جائیں اور یہ لوگ آپ کے گھروں کو چھوڑ کر الگ اپنے اپنے گھر بسا لیں۔
یہ سن کر انصار مدینہ کے دو بڑے سردار حضرت سعید بن عبادہ اور سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہماری رائے یہ ہے کہ یہ سب اموال بھی صرف مہاجر بھائیوں میں تقسیم فرما دیئے اور وہ پھر بھی ہمارے مکانوں میں بدستور مقیم رہیں، ان کی بات سن کر تمام حاضرین انصار بول اٹھے کہ ہم اس فیصلے پر راضی اور خوش ہیں، اس وقت آنحضرت ﷺ نے تمام انصار اور ابناء انصار کو دعا دی اور ان اموال کو صرف مہاجرین میں تقسیم فرما دیا، انصار میں سے صرف دو حضرات کو جو بہت حاجت مند تھے اس میں سے حصہ عطا فرمایا، یعنی سہل بن حنیف اور ابو دجانہ اور سعد بن معاذ کو ایک تلوار عطا فرمائی جو ابن ابی الحقیق کی ایک ممتاز تلوار تھی (مظہری بحوالہ سیل الرشاد محمد بن یوسف الصالحی)
آیت مذکورہ میں جو یہ ارشاد فرمایا وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا، اس میں حاجت سے مراد ہر ضرورت کی چیز ہے اور مّمَّآ اُوْتُوْا کی ضمیر مہاجرین کی طرف راجع ہے، معنی آیت کے یہ ہیں کہ اس تقسیم میں جو کچھ مہاجرین کو دے دیا گیا، انصار مدینہ نے خوشی سے اس کو اس طرح قبول کیا کہ گویا ان کو ان چیزوں کی کوئی حاجت ہی نہیں، ان کو دینے سے برا ماننا یا شکایت کرنا اس کا تو دور دور کوئی امکان ہی نہ تھا، اس کے بالمقابل جب بحرین فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے چاہا کہ یہ پورا مال صرف انصار میں تقسیم کردیا جائے مگر انصار نے اس کو قبول نہ کیا، بلکہ عرض کیا ہم اس وقت تک نہ لیں گے جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اس میں سے حصہ نہ دیا جائے (رواہ البخاری انس بن مالک، از ابن کثیر)
چوتھا وصفانصار مدینہ کا اس آیت میں یہ ذکر فرمایا ہے
وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ، خصاصہ کے معنی فقر و فاقہ کے ہیں اور ایثار کے معنی دوسروں کی خواہش اور حاجت کو اپنی خواہش و حاجت پر مقدم رکھنے کے ہیں، معنی آیت کے یہ ہیں کہ حضرت انصار اپنے اوپر دوسروں کو یعنی مہاجرین کو ترجیح دیتے تھے کہ اپنی حاجت و ضرورت کو پورا کرنے سے پہلے ان کی حاجت کو پورا کرتے تھے، اگرچہ یہ خود حاجت مند اور فقر و فاقہ میں ہوں۔
حضرت صحابہ خصوصاً انصار کے ایثار کے چند واقعات
اگرچہ تفسیر آیات کے لئے بیان واقعات کی ضرورت نہیں مگر یہ واقعات ہر انسان کو اعلیٰ انسانیت کا سبق دینے والے اور زندگی میں انقلاب لانے والے ہیں، اس لئے حضرات مفسرین نے اس موقع پر ان کو تفصیل سے لکھا ہے، خصوصاً قرطبی نے، اسی سے چند واقعات نقل کئے جاتے ہیں
ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری کے گھر رات کو کوئی مہمان آ گیا، ان کے پاس صرف اتنا کھانا تھا کہ یہ خود اور ان کے بچے کھا سکیں، انہوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ بچوں کو تو کسی طرح سلاد دو اور گھر کا چراغ گل کردو، پھر مہمان کے سامنے کھانا رکھ کر برابر بیٹھ جاؤ کہ مہمان سمجھے کہ ہم بھی کھا رہے ہیں، مگر ہم نہ کھائیں، تاکہ مہمان بافراعت کھانا کھا سکے، اس پر یہ آیت مذکورہ وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ نازل ہوئی (قال الترمذی ھٰذا حسن صحیح)
اور ترمذی ہی میں حضرت ابوہریرہ سے ایک دوسرا واقعہ یہ منقول ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں بھوک سے پریشان ہوں، آپ نے ازواج مظہرات میں سے ایک کے پاس اطلاع بھیجی تو ان کا جواب آیا کہ ہمارے پاس تو اس وقت بجز پانی کے کچھ نہیں، دوسری کے پاس پیغام بھیجا وہاں سے بھی یہی جواب آیا، پھر تیسری چوتھی یہاں تک کہ تمام امہات المومنین کے پاس بھیجا اور سب کا ایک ہی جواب آیا کہ پانی کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں، اب آپ نے حاضرین مجلس سے خطاب فرمایا کہ کون ہے جو آج رات اس شخص کی مہمانی کرے ایک انصاری نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں کروں گا وہ ان کو ساتھ لے گئے اور جا کر گھر میں پوچھا کہ کھانے کے لئے کچھ ہے تو بیوی نے بتلایا کہ صرف اتنا ہے کہ ہمارے بچے کھا لیں انصاری بزرگ نے بچوں کو سلا دینے کے لئے فرمایا اور فرمایا کہ مہمان کے سامنے کھانا رکھنے اور خود ساتھ بیٹھ جانے کے بعد اٹھ کر چراغ گل کردینا کہ ہمارے نہ کھانے کا مہمان کو احساس نہ ہو، مہمان نے کھانا کھالیا، جب یہ صبح کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس معاملہ کو جو تم نے گزشتہ رات اپنے مہمان کے ساتھ کیا بہت پسند فرمایا۔
اور مہدوی نے ایک ایسا ہی واقعہ ایک انصاری بزرگ کا حضرت ثابت بن قیس کے ساتھ رات کو چراغ گل کر کے کھانا کھلانے کا ذکر کیا ہے اور تمام واقعات کے ساتھ روایت میں یہ بھی ہے کہ آیت مذکورہ اس واقعہ میں نازل ہوئی ہے۔
اور قشیری نے حضرت عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام میں سے ایک بزرگ کو کسی شخص نے ایک بکری کا سر بطور ہدیہ پیش کیا، اس بزرگ نے خیال کیا کہ ہمارا فلاں بھلائی اور اس کے اہل و عیال ہم سے زیادہ ضرورت مند ہیں، یہ سر ان کے پاس بھیج دیا، اس دوسرے بزرگ کے پاس پہنچا تو اسی طرح انہوں نے تیسرے کے پاس اور تیسرے نے چوتھے کے پاس بھیج دیا، یہاں تک کہ سات گھروں میں پھرنے کے بعد پھر پہلے بزرگ کے پاس واپس آ گیا، اس واقعہ پر آیات مذکورہ نازل ہوئیں، یہی واقعہ ثعلبی نے حضرت انس سے بھی روایت کیا ہے۔
مؤطاء امام مالک میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مسکین نے اس سے سوال کیا، ان کے گھر میں صرف ایک روٹی تھی اور ان کا اس روز روزہ تھا، آپ نے اپنی خادمہ سے فرمایا کہ یہ روٹی اس کو دے دو خادمہ نے کہا کہ اگر یہ دے دی گئی تو شام کو آپ کے افطار کرنے کے لئے کوئی چیز نہ رہے گی، حضرت صدیقہ نے فرمایا کہ پھر بھی دے دو ، یہ خادمہ کہتی ہیں کہ جب شام ہوئی تو ایک ایسے شخص نے جس کی طرف سے ہدیہ دینے کی کوئی رسم نہ تھی ایک سالم بکری بھنی ہوئی اور اس کے اوپر آٹے میدے کا خول چڑھا ہوا پختہ، جو عرب میں سب سے بہترین کھانا سمجھا جاتا ہے، ان کے پاس بطور ہدیہ بھیج دیا، حضرت صدیقہ نے خادمہ کو بلایا کہ آؤ یہ کھاؤ یہ تمہاری اس روٹی سے بہتر ہے۔
اور نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمر کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ بیمار تھے اور انگور کو جی چاہا ان کے لئے ایک درہم میں ایک خوشہ انگور کا خرید کر لایا گیا، اتفاق سے ایک مسکین آ گیا اور سوال کیا، آپ نے فرمایا کہ یہ خوشہ اس کو دے دو ، حاضرین میں سے ایک شخص خفیہ طور پر اس کے پیچھے گیا اور خوشہ اس مسکین سے خرید کر پھر ابن عمر کو پیش کردیا، مگر یہ سائل پھر آیا اور سوال کیا تو حضرت ابن عمر نے پھر اس کو دیدیا، پھر کوئی صاحب خفیہ طور پر گئے اور اس مسکین کو ایک درہم دے کر خوشہ خرید لائے اور حضرت ابن عمر کی خدمت میں پیش کردیا، وہ سائل پھر آنا چاہتا تھا لوگوں نے منع کردیا اور حضرت ابن عمر کو یہ اطلاع ہوتی کہ یہ وہی خوشہ ہے جو انہوں نے صدقہ میں دے دیا تھا، تو ہرگز نہ کھاتے، مگر ان کو یہ خیال ہوا کہ لانے والا بازار سے لایا ہے اس لئے استعمال فرما لیا۔
اور ابن مبارک نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم نے چار سو دینار ایک تھیلی میں بھر کر تھیلی غلام کے سپرد کی کہ ابوعبیدہ بن جراح کے پاس لے جاؤ کہ ہدیہ ہے قبول کر کے اپنی ضرورت میں صرف کریں اور غلام کو ہدایت کردی کہ ہدیہ دینے کے بعد کچھ دیر گھر میں ٹھہر جانا اور یہ دیکھنا کہ ابوعبیدہ اس رقم کو کیا کرتے ہیں، غلام نے حسب ہدایت یہ تھیلی حضرت ابوعبیدہ کی خدمت میں پیش کردی اور ذرا اٹھہر گیا، ابوعبیدہ نے تھیلی لے کر کہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو یعنی عمر بن خطاب کو اس کا صلہ دے اور ان پر رحمت فرمائے اور اسی وقت اپنی کنیز کو کہا کہ لو یہ سات فلاں شخص کو پانچ فلاں کو دے آؤ، یہاں تک کہ پورے چار سو دینار اسی وقت تقسیم کردیئے۔
غلام نے واپس آ کر واقعہ بیان کردیا، حضرت عمر بن خطاب نے اسی طرح چار سو دینار کی ایک دوسری تھیلی تیار کی ہوئی غلام کو دے کر ہدایت کی کہ معاذبن جبل کو دے آؤ اور وہاں بھی دیکھو وہ کیا کرتے ہیں، یہ غلام لے گیا، انہوں نے تھیلی لے کر حضرت عمر کے حق میں دعا دی ؒ و وصلہ یعنی ”اللہ ان پر رحمت فرمائے اور ان کو صلہ دے“ اور یہ بھی تھیلی لے کر فوراً تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئے اور اس کے بہت سے حصے کر کے مختلف گھروں میں بھیجتے رہے، حضرت معاذ کی بیوی یہ سب ماجرا دیکھ رہی تھیں، آخر میں بولیں کہ ہم بھی تو بخدا مسکین ہی ہیں، ہمیں بھی کچھ ملنا چاہئے، اس وقت تھیلی میں صرف دو دینار رہ گئے تھے وہ ان کو دے دیے، غلام یہ دیکھنے کے بعد لوٹا اور حضرت عمر سے بیان کیا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ سب بھائی بھائی ہیں سب کا مزاج ایک ہی ہے۔
اور حذیفہ عدوی فرماتے ہیں کہ میں جنگ یرموک میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش شہداء کی لاشوں میں کرنے کے لئے نکلا اور کچھ پانی ساتھ لیا کہ اگر ان میں کچھ جان ہوئی تو پانی پلا دوں گا، ان کے پاس پہنچا تو کچھ رمق زندگی کی باقی تھی، میں نے کہا کہ کیا آپ کو پانی پلا دوں، اشارہ سے کہا ہاں، مگر فوراً ہی قریب سے ایک دوسرے شہید کی آواز آہ آہ کی آئی تو میرے بھائی نے کہا کہ یہ پانی ان کو دے دو ، ان کے پاس پہنچا اور پانی دینا چاہا تو تیسرے آدمی کی آواز ان کے کان میں آئی، اس نے بھی اس تیسرے کو دینے کے لئے کہہ دیا، اسی طرح یکے بعد دیگرے سات شہیدوں کے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا، جب ساتویں شہید کے پاس پہنچا تو وہ دم توڑ چکے تھے، یہاں سے اپنے بھائی کے پاس پہنچا تو وہ بھی ختم ہوچکے تھے۔
یہ چند واقعات ہیں جن میں کچھ انصار کے کچھ مہاجرین کے ہیں، اکثر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آیت ایثار اس واقعہ میں نازل ہوئی، مگر ان میں کوئی تضاد و اختلاف نہیں، کیونکہ جس طرح کے واقعہ میں ایک آیت نازل ہوچکی ہے اگر اسی طرح کا کوئی دوسرا واقعہ پیش آجائے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس میں یہ آیت نازل ہوئی اور حقیقت یہ ہے کہ سبھی واقعات نزول آیت کا سبب یا مصداق ہیں۔
ایک شبہ کا جواب
حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات ایثار جو اوپر بیان ہوئے ہیں ان پر ایک شبہ روایات حدیث سے یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا پورا مال صدقہ کر ڈالنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک بیضہ کے برابر سونے کا ٹکڑا بغرض صدقہ پیش کیا، تو آپ نے اس کو اسی کی طرف پھینک کر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بعض لوگ اپنا سارا مال صدقہ کرنے کو لے آتے ہیں پھر محتاج ہو کر لوگوں سے بھیک مانگتے ہیں۔
جواب اس شبہ کا انہی روایات سے یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں، ہر حال کا حکم الگ ہے، پورا مال صدقہ کر ڈالنے کی ممانعت ان لوگوں کے لئے ہے جو بعد میں فقر و فاقہ پر صبر نہ کرسکیں، اپنے صدقہ کئے ہوئے پر پچھتائیں یا پھر لوگوں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں اور وہ لوگ جن کے عزم و ہمت اور ثبات و استقلال کا یہ حال ہو کہ سب کچھ خرچ کر ڈالنے کے بعد فقر و فاقہ پر انہیں کوئی پریشانی نہ ہو، بلکہ ہمت کے ساتھ اس پر صبر کرسکتے ہوں ان کے لئے سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالنا جائز ہے، جیسا کہ حضرت صدیق اکبر نے ایک جہاد میں چندہ میں اپنا سارا مال پیش کردیا تھا، اسی کے نظائر یہ واقعات ہیں جو اس جگہ مذکور ہیں، ایسے حضرات نے اپنے اہل و عیال کو بھی اسی صبر و استقلال کا خوگر بنا رکھا تھا، اس لئے اس میں ان کی بھی کوئی حق تلفی نہ تھی، اگر مال خود اہل و عیال کے قبضہ میں ہوتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتے (قرطبی باضافہ اشیاء)
حضرات مہاجرین کی طرف سے ایثار انصار کی مکافات
دنیا میں کوئی اجتماعی کام یک طرفہ روا داری و ایثار سے قائم نہیں رہتا جب تک دونوں طرف سے اسی طرح کا معاملہ نہ ہو، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے جیسا اس کی ترغیب دی کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دے کر باہمی محبت بڑھایا کریں، اسی طرح جن کو ہدیہ دیا گیا ہے ان کو یہ بھی تعلیم دی کہ تم بھی ہدیہ دینے والے کے احسان کی مکافات کرو، اگر مالی وسعت اللہ تعالیٰ عطا فرما دے تو مال سے ورنہ دعا ہی سے اس کی مکافات کرو، بےحسی کے ساتھ کسی کے احسانات کا بار سر پر لیتے رہنا شرافت اور خلق کے خلاف ہے۔
حضرات مہاجرین کے معاملہ میں حضرات انصار نے بڑے ایثار سے کام لیا، اپنے مکانوں، دکانوں، کاروبار، زمین اور زراعت میں ان کو شریک کرلیا، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان مہاجرین کو وسعت عطا فرمائی تو انہوں نے بھی حضرات انصار کے احسانات کی مکافات میں کمی نہیں کی۔
قرطبی نے بحوالہ صحیحین حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ جب مہاجرین مکہ مکرمہ سے مدینہ طبیہ آئے تو ان کے ہاتھ میں کچھ نہ تھا اور انصار مدینہ زمین و جائیداد والے تھے، انصار نے ان حضرات کو ہر چیز نصفا نصف تقسیم کردی، اپنے باغات کے آدھے پھل سالانہ ان کو دینے لگے اور حضرت انس کی والدہ ام سلیم نے اپنے چند درخت کھجور کے رسول اللہ ﷺ کو دے دیے تھے، جو آنحضرت ﷺ نے اسامہ بن زید کی والدہ ام ایمن کو عطا فرما دیئے۔
امام زہری کہتے ہیں کہ مجھے حضرت انس بن مالک نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ جب خیبر کے جہاد سے کامیابی کے ساتھ فارغ ہو کر مدینہ طیبہ واپس آئے (اس غزوہ میں مسلمانوں کو اموال غنیمت کافی مقدار میں ہاتھ آئے) تو سب مہاجرین نے حضرات انصار کے سب عطایا کا حساب کر کے ان کو واپس کردیا اور رسول اللہ ﷺ نے میری والدہ کے درخت ام ایمن سے لے کر ان کو واپس کردیئے اور اس کی جگہ ام ایمن کو اپنے باغ میں سے درخت عطا فرمائے۔
(آیت) وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ حضرات انصار کے ایثار اور اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کردینے کا ذکر کرنے کے بعد عام ضابطہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچ گئے تو اللہ کے نزدیک وہ ہی فلاح و کامیابی پانے والے ہیں، لفظ شیخ اور بخل تقریباً ہم معنی ہیں، لفظ شح میں کچھ مبالغہ ہے کہ بہت شدید بخل کو کہا جاتا ہے، بخل و شح اگر حقوق واجبہ میں کیا جائے خواہ وہ اللہ کے حقوق ہوں، جیسے زکوٰة، صدقتہ الفطر، عشر، قربانی وغیرہ کہ ان کی ادائیگی میں بوجہ بخل کے کوتاہی کرے، یا انسانوں کے حقوق واجبہ ہوں جیسے اہل و عیال کا نفقہ یا اپنے حاجت مند والدین اور عزیزوں کا نفقہ واجبہ جو بخل ان حقوق واجبہ کی ادائیگی سے مانع ہو وہ قطعاً حرام ہے اور جو امور مستجہ اور فضائل انفاق سے مانع ہو وہ مکروہ و مذموم ہے اور جو محض رسمی چیزوں میں خرچ سے مانع ہو وہ شرعاً بخل نہیں۔
بخ و شح اور دوسروں پر حسد ایسی مذموم خصلتیں ہیں کہ قرآن و حدیث میں ان کی بڑی مذمت آتی ہے اور جو ان سے بچ جائے اس کے لئے بڑی بشارت ہے، حضرات انصار کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں ان کا بخل و حسد سے بری ہونا واضح ہے۔
کینہ اور حسد سے پاک ہونا جنتی ہونے کی علامت ہے
ابن کثیر نے بحوالہ امام احمد حضرت انس سے روایت کیا ہے۔
”ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا کہ ابھی تمہارے سامنے ایک شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے، چناچہ ایک صاحب انصار میں سے آئے جن کی ڈاڑھی سے تازہ وضو کے قطرات ٹپک رہے تھے اور بائیں ہاتھ میں اپنے نعلین لئے ہوئے تھے، دوسرے دن بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور یہی شخص اسی حالت کے ساتھ سامنے آیا، تیسرے روز پھر یہی واقعہ پیش آیا اور یہی شخص اپنی مذکورہ حالت میں داخل ہوا، جب رسول اللہ ﷺ مجلس سے اٹھ گئے تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص اس شخص کے پیچھے لگے (تاکہ اس کے اہل جنت ہونے کا راز معلوم کریں) اور ان سے کہا کہ میں نے کسی جھگڑے میں قسم کھالی ہے کہ میں تین روز تک اپنے گھر نہ جاؤں گا، اگر آپ مناسب سمجھیں تو تین روز مجھے اپنے یہاں رہنے کی جگہ دیدیں، انہوں نے منظور فرما لیا، عبداللہ بن عمرو نے یہ تین راتیں ان کے ساتھ گزاریں، تو دیکھا کہ رات کو تہجد کے لئے نہیں اٹھتے البتہ جب سونے کے لئے بستر پر جاتے تو کچھ اللہ کا ذکر کرتے تھے پھر صبح کی نماز کے لئے اٹھ جاتے تھے، البتہ اس پورے عرصہ میں میں نے ان کی زبان سے بجز کلمہ خیر کے کوئی کلمہ نہیں سنا جب تین راتیں گزر گئیں اور قریب تھا کہ میرے دل میں ان کے عمل کی حقارت آجائے تو میں نے ان پر اپنا راز کھول دیا کہ ہمارے گھر کوئی جھگڑا نہیں تھا لیکن میں رسول اللہ ﷺ سے تین روز تک یہ سنتا رہا کہ تمہارے پاس ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے اور اس کے بعد تینوں دن آپ ہی آئے، اس لئے میں نے چاہا کہ میں آپ کے ساتھ رہ کر دیکھوں کہ آپ کا وہ کیا عمل ہے جس کے سبب یہ فضیلت آپ کو حاصل ہوئی، مگر عجیب بات ہے کہ میں نے آپ کو کوئی بڑا عمل کرتے نہیں دیکھا، تو وہ کیا چیز ہے جس نے آپ کو اس درجہ پر پہنچایا، انہوں نے کہا میرے پاس تو بجز اس کے کوئی عمل نہیں جو آپ نے دیکھا ہے، میں یہ سن کر واپس آنے لگا تو مجھے بلا کر کہا کہ ہاں ایک بات ہے کہ ”میں اپنے دل میں کسی مسلمان کی طرف سے کینہ اور برائی نہیں پاتا اور کسی پر حسد نہیں کرتا جس کو اللہ نے کوئی خیر کی چیز عطا فرمائی ہو عبداللہ بن عمرو نے کہا کہ بس یہی وہ صفت ہے جس نے آپ کو یہ بلند مقام عطا کیا ہے“۔
ابن کثیر نے اس کو نقل کر کے فرمایا کہ اس کو نسائی نے بھی عمل الیوم واللیلہ میں نقل کیا ہے اور اس کی اسناد صحیح علیٰ شرط الشیخین ہے۔
Top