Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 127
لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ هُوَ وَلِیُّهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
لَهُمْ : ان کے لیے دَارُ السَّلٰمِ : سلامتی کا گھر عِنْدَ : پاس۔ ہاں رَبِّهِمْ : ان کا رب وَهُوَ : اور وہ وَلِيُّهُمْ : دوستدار۔ کارساز بِمَا : اسکا صلہ جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
انہی کے لئے ہے سلامتی کا گھر اپنے رب کے ہاں اور وہ ان کا مددگار ہے یہ سبب ان کے اعمال کے
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) لَهُمْ دَار السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ یعنی جن لوگوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ وہ قرآنی ہدایتوں کو خالی الذہن ہو کر نصیحت حاصل کرنے کے لئے دیکھتے اور سنتے ہیں، اور اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر ان ہدایتوں کو قبول کرتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس دار السلام کا انعام موجود اور محفوظ ہے، اس میں لفظ دار کے معنی گھر اور سلام کے معنی تمام آفتوں، مصیبتوں اور محنتوں سے سلامتی کے ہیں، اس لئے دار السلام اس گھر کو کہا جاسکتا ہے جس میں کسی تکلیف و مشقت اور رنج و غم اور آفت و مصیبت کا گزر نہ ہو، اور وہ ظاہر ہے کہ جنت ہی ہو سکتی ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ سلام اللہ جل شانہ کا نام ہے، اور دار السلام کے معنی ہیں اللہ کا گھر اور ظاہر ہے کہ اللہ کا گھر امن و سلامتی کی جگہ ہوتی ہے، اس لئے حاصل معنی پھر بھی یہی ہوگئے کہ وہ گھر جس میں ہر طرح کا امن و سکون اور سلامتی و اطمینان ہو، جنت کو دار السلام فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ جنت ہی صرف وہ جگہ ہے جہاں انسان کو ہر قسم کی تکلیف، پریشانی اور اذیت اور ہر خلاف طبع چیز سے مکمل اور دائمی سلامتی حاصل ہوتی ہے جو دنیا میں نہ کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو کبھی حاصل ہوئی اور نہ بڑے سے بڑے نبی و رسول کو، کیونکہ دنیائے فانی کا یہ عالم ایسی مکمل اور دائمی راحت کا مقام ہی نہیں۔
اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ان نیک بخت لوگوں کے لئے ان کے رب کے پاس دار السلام ہے، رب کے پاس ہونے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ دار السلام یہاں نقد نہیں ملتا بلکہ جب وہ قیامت کے روز اپنے رب کے پاس جائیں گے اس وقت ملے گا، اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ دار السلام کا وعدہ غلط نہیں ہوسکتا، رب کریم اس کا ضامن ہے وہ اس کے پاس محفوظ ہے اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس دار السلام کی نعمتوں اور راحتوں کو آج کوئی تصور میں بھی نہیں لاسکتا، رب ہی جانتا ہے، جس کے پاس یہ خزانہ محفوظ ہے۔
اور اس دوسرے معنی کی رو سے اس دار السلام کا ملنا قیامت اور آخرت پر موقوف نہیں معلوم ہوتا، بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رب کریم جس کو چاہیں اسی عالم میں دار السلام نصیب کرسکتے ہیں، کہ تمام آفات اور مصائب سے امن نصیب فرما دیں، خواہ اس طرح کہ دنیا میں کوئی آفت و مصیبت ہی ان کو نہ پہنچے جیسا کہ انبیائے سابقین اور اولیاء اللہ میں اس کی بھی نظائر موجود ہیں، اور یا اس طرح کہ نعمائے آخرت کو ان کے سامنے مستحضر کرکے ان کی نگاہ کو ایسا حقیقت شناس بنادیا گیا جس سے دنیا کی چند روزہ تکلیف و مصیبت ان کی نظروں میں حقیر ناقابل التفات چیز نظر آنے لگتی ہے، مصائب کے پہاڑ بھی ان کے سامنے پرکاہ سے کم رہ جاتے ہیں
رنج راحت شد چو مطلب شدبزرگ گرد گلہ تو تیائے چشم گرگ
دنیا کی تکالیف کے بالمقابل جو انعامات ملنے والے ہیں وہ ان کے سامنے ایسے مستحضر ہوجاتے ہیں کہ یہ تکالیف بھی ان کو لذیز معلوم ہونے لگتی ہیں، اور یہ کوئی مستعبد نہیں، دیکھو آخرت کی دائمی نعمتیں تو بڑی چیز ہیں، یہ دنیا کی فانی اور چند روزہ راحت کا تصور انسان کے لئے کیسی کیسی محنت و مشقت کو لذیز بنا دیتا ہے، کہ سفارشیں اور رشوتیں پیش کرکے آزادی کی راحت کو قربان کرتا ہے، اور نیند و آرام کو ختم کرنے والی ملازمت و مزدوری کی محنت کو شوق سے طلب کرتا ہے، اور اس محنت کے مل جانے پر مسرور و شکر گزار ہوتا ہے، کیونکہ اس کے سامنے اکتیس دن پورے ہوجانے کے بعد حاصل ہونے والی تنخواہ کی لذت ہوتی ہے، وہ لذت اس ملازمت و مزدوری کی سب تلخیوں کو لذیز بنا دیتی ہے، قرآن کریم کی (آیت) ولمن خاف مقام ربہ جنتٰن۔ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ سے ڈرنے والوں کو دو جنتیں ملیں گی، ایک آخرت میں دوسری دنیا میں، دنیا کی جنت یہی ہوتی ہے کہ اول تو اس کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہوتی ہے، ہر کام آسان ہوتا نظر آتا ہے، اور کبھی چند روزہ تکلیف و مشقت یا ناکامی بھی ہوتی ہے تو نعمائے آخرت کے مقابلہ میں وہ بھی ان کو لذیز نظر آتی ہے، جس سے یہ تکلیف بھی راحت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں نیک لوگوں کے لئے ان کے رب کے پاس دار السلام ہونے کا جو ذکر ہے وہ دار السلام آخرت میں تو یقینی اور متعین ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دنیا میں بھی ان کو دار السلام کا لفط دے دیا جائے۔
آخر آیت میں ارشاد فرمایاوَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، یعنی ان کے اعمال صالح کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کا متولی اور متکفل اور ناصر و مددگار ہوجاتا ہے، ان کی سب مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔
Top