Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 129
وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۠   ۧ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُوَلِّيْ : ہم مسلط کردیتے ہیں بَعْضَ : بعض الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) بَعْضًۢا : بعض پر بِمَا : اس کے سبب كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : جو وہ کرتے تھے (ان کے اعمال)
اور اسی طرح ہم ساتھ ملا دیں گے گنہگاروں کو ایک دوسرے سے ان کے اعمال کے سبب
خلاصہ تفسیر
اور (جس طرح دنیا میں گمراہی کے لحاظ سے سب میں تعلق و قرب تھا) اسی طرح (دوزخ میں) بعض کفار کو بعض کے قریب (اور مجتمع) رکھیں گے ان کے اعمال (کفریہ) کے سبب (یہ خطاب مذکور تو جن و انس کو باعتبار ان کے احوال متعلقہ باہم دگر کے تھا، آگے ہر ایک کو باعتبار احوال متعلقہ بذات خاص کے خطاب ہے کہ) اے جماعت جنات اور انسانوں کی (ہاں یہ تو بتلاؤ جو تم کفر و انکار کرتے رہے تو) کیا تمہارے پاس تم ہی میں کے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام (متعلق عقائد و اعمال کے) بیان کیا کرتے تھے اور تم کو اس آج کے دن (کے وقوع) کی خبر دیا کرتے تھے (پھر کیا وجہ کہ تم کفر و انکار سے باز نہ آئے) وہ سب عرض کریں گے کہ ہم سب اپنے اوپر (جرم کا) اقرار کرتے ہیں (ہمارے پاس کوئی وجہ عذر اور براءت کی نہیں، آگے اللہ تعالیٰ ان کو اس مصیبت کے پیش آنے کا سبب بتلاتے ہیں) اور ان کو (یہاں) دنیوی زندگانی نے بھول میں ڈال رکھا ہے (کہ دنیوی لذات کو مقصود اعظم سمجھ رکھا ہے آخرت کی فکر ہی نہیں) اور (اس کا ثمرہ یہ ہوا کہ وہاں) یہ لوگ مقر ہوں گے کہ وہ (یعنی ہم) کافر تھے (اور غلطی پر تھے، مگر وہاں کے اقرار سے کیا ہوتا ہے، اگر دنیا میں ذرا غفلت دور کردیں تو اس روز بد کا کیوں سامنا ہو، آگے رسولوں کے بھیجنے میں جس کا اوپر ذکر تھا اپنی رحمت کا اظہار فرماتے ہیں کہ) یہ (رسولوں کا بھیجنا) اسی وجہ سے ہے کہ آپ ﷺ کا رب کسی بستی والوں کو (ان کے) کفر کے سبب (دنیا میں بھی) ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے (احکامِ الٓہیہ سے بوجہ رسولوں کے نہ آنے کے) بنجر ہوں (پس عذاب آخرت کہ اشد ہے بدرجہ اولیٰ نہ ہوتا، اس لئے رسولوں کو بھیجتے ہیں تاکہ ان کو جرائم کی اطلاع ہوجاوے پھر جس کو عذاب ہو استحقاق کی وجہ سے ہو، چناچہ آگے فرماتے ہیں) اور (جب رسول آگئے اور اطلاع ہوگئی پھر جیسا جیسا کوئی کرے گا) ہر ایک کیلئے (جن و انس صالح و طالح میں سے جزاء و سزاء کے ویسے ہی) درجے ملیں گے ان کے اعمال کے سبب اور آپ ﷺ کا رب ان کے اعمال سے بیخبر نہیں ہے۔

معارف و مسائل
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں لفظ نُوَلِّيْ کے عربی لغت کے اعتبار سے دو ترجمے ہو سکتے ہیں، ایک ملا دینے اور قریب کردینے کے اور دوسرے مسلط کردینے کے، ائمہ تفسیر صحابہ وتابعین سے بھی دونوں طرح کی روایات میں اس کی تفسیر منقول ہے۔
محشر میں لوگوں کی جماعتیں اعمال و اخلاق کی بنیاد پر ہوں گی، دنیوی تعلقات کی بنیاد پر نہیں
حضرت سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ اور قتادہ رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے پہلا ترجمہ اختیار کرکے آیت کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے یہاں اجتماعی و حدتیں یعنی لوگوں کی جماعتیں اور پارٹیاں نسلی یا وطنی یا رنگ و زبان کی بناء پر نہیں بلکہ اعمال و اخلاق کے اعتبار سے ہوں گی، اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار مسلمان جہاں کہیں ہوگا وہ مسلمانوں کا ساتھی ہوگا، اور نافرمان کافر جہاں کہیں ہوگا وہ کافروں کا ساتھی ہوگا، خواہ ان کی نسل اور نسب میں، وطن اور زبان میں، رنگ اور معاشرت میں کتنا ہی بعد اور اختلاف ہو۔
پھر مسلمانوں میں بھی نیک، دیندار، دینداروں کے ساتھ ہوگا، اور گناہگار، بدکردار، بدکرداروں کے ساتھ لگا دیا جائے گا۔ سورة کورت میں جو ارشاد ہے (آیت) واذا النفوس زوجت، یعنی لوگوں کے جوڑ اور جماعتیں بنادی جائیں گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اعمال و اخلاق کے اعتبار سے اہل محشر مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔
حضرت فاروق اعظم ؓ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ ”ایک قسم کے اعمال نیک یا بد کرنے والے ایک ساتھ کردیئے جائیں گے، نیک آدمی نیکوں کے ساتھ جنت میں، اور بد کردار کو دوسرے بدکرداروں کے ساتھ جہنم میں پہنچا دیا جائے گا“۔ اور اس مضمون کی توثیق کے لئے فاروق اعظم ؓ نے قرآن کریم کی (آیت) احشروا الذین ظلموا وازواجھم سے استدلال فرمایا، جس کا مضمون یہی ہے کہ قیامت کے دن حکم ہوگا کہ ظالموں کو اور ان کے مناسب عمل کرنے والوں کو جہنم میں لے جاؤ۔
خلاصہ مضمون آیت مذکورہ کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض ظالموں کو دوسرے ظالموں کا ساتھی بنا کر ایک جماعت کردیں گے، اگرچہ نسلی اور وطنی اعتبار سے ان میں کتنی بھی دوری ہو۔
اور ایک دوسری آیت میں یہ بات بھی واضح طور پر بیان فرما دی ہے کہ محشر میں یہ دنیوی اور رسمی تضاد جو آج لوگوں میں نسل، وطن، رنگ، زبان وغیرہ کی بنیادوں پر قائم ہیں، یہ سب یکسر ٹوٹ جائیں گے، (آیت) ویوم تقوم الشاعة، یعنی جب قیامت قائم ہوگی تو جو لوگ آپس میں متحد اور متفق ہیں وہ متفرق ہوجائیں گے۔
دنیا میں بھی اعمال و اخلاق کا اجتماعی معاملات میں اثر
اور یہ موجودہ رشتوں، ناطوں اور رسمی تنظیموں کا کٹ جانا روز قیامت میں تو واضح اور مکمل طور پر سب کے سامنے آہی جائے گا، مگر دنیا میں بھی اس کا ایک ادنیٰ سا نمونہ ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ نیک آدمی کو نیکوں سے مناسبت ہوتی ہے، انہی کی جماعت اور سوسائٹی سے وابستہ ہوتا ہے، اور اس طرح نیک کاموں میں اس کے لئے راستے کھلتے نظر آتے ہیں، اور ارادہ مضبوط ہوتا جاتا ہے، اسی طرح بدکردار کو اپنے ہی جیسے بدکرداروں سے تعلق اور انس ہوتا ہے وہ انھیں میں اٹھتا بیٹھتا ہے، اور ان کی صحبت سے اس کی بدعملی و بدخلقی میں روز نیا اضافہ ہوتا رہتا ہے اور نیکی کے راستے اس کے سامنے سے بند ہوتے جاتے ہیں، یہ اس کے برے عمل کی نقد سزا اسی دنیا میں ملتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نیک و بد اعمال کی ایک جزاء سزاء تو آخرت میں ملے گی اور ایک جزاء سزا نقد اسی دنیا میں اس طرح مل جاتی ہے کہ نیک آدمی کو رفقاء کار بھی نیک اور دیانتدار نصیب ہوجاتے ہیں جو اس کے کام کو چار چاند لگا دیتے ہیں، اور برے اور بدنیت آدمی کو اعضاء وجوارح اور رفقاء کار بھی اسی جیسے ملتے ہیں جو اس کو اور بھی زیادہ گہرے غار میں دھکیل دیتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بادشاہ اور حاکم سے راضی ہوتے ہیں تو اس کو اچھے وزیر اور اچھا عملہ دیدیتے ہیں جس سے اس کی حکومت کے سب کاروبار درست اور ترقی پذیر ہوجاتے ہیں، اور جب کسی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں تو اس کو عملہ اور رفقاء کار برے ملتے ہیں، برے افسروں سے پالا پڑتا ہے، وہ اگر کوئی اچھا کام کرنے کا ارادہ بھی کرتا ہے تو اس پر قابو نہیں پاتا۔
ایک ظالم کو دوسرے ظالم کے ہاتھ سے سزا ملتی ہے
آیت مذکورہ کا یہ مفہوم ترجمہ کے اعتبار سے ہے، اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ ، عبداللہ بن زبیر ؓ، ابن زید ؓ مالک بن دینار وغیرہ سے اس آیت کی تفسیر دوسرے ترجمہ کے اعتبار سے یہ منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض ظالموں کو دوسرے ظالموں پر مسلط کردیتا ہے، اور اس طرح ایک ظالم کو دوسرے ظالم کے ہاتھ سے سزا دلوا دیتا ہے۔
یہ مضمون بھی اپنی جگہ صحیح و درست اور قرآن و حدیث کے دوسرے ارشادات کے مطابق ہے، ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کما تکونون کذلک یؤ مر علیکم، یعنی جیسے تم ہوگے ویسے ہی حکام تم پر مسلط ہوں گے، تم ظالم و بدکار ہو گے تو تمہارے حاکم بھی ظالم و بدکار ہی ہوں گے اور تم نیک عمل و نیک کردار ہوگے تو اللہ تعالیٰ تمہارے حکام نیک اور رحم دل منصف مزاج لوگوں کو بنادیں گے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کا بھلا چاہتے ہیں تو ان پر بہترین حکام و امرا کا تسلط فرماتے ہیں، اور جب کسی قوم کا برا چاہتے ہیں تو ان پر بدترین حکام و سلاطین کو مسلط کردیتے ہیں (تفسیر بحر محیط)۔
تفسیر روح المعانی میں ہے کہ فقہاء نے اس آیت سے اس پر استدلال کیا ہے کہ جب رعیت اور عوام اللہ تعالیٰ سے منحرف ہو کر ظلم و جور میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ظالم حکام مسلط کرکے ان کے ہاتھوں ان کو سزا دلواتے ہیں۔
اور ابن کثیر رحمة اللہ نے بروایت عبداللہ بن مسعود ؓ آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ من اعان ظالما سلطہ اللّٰہ علیہ، ”یعنی جو شخص کسی ظالم کے ظلم میں اس کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسی ظالم کو اس کے ستانے کے لئے اس پر مسلط کردیتے ہیں، اور اسی کے ہاتھ سے اس کو سزا دلواتے ہیں“۔
Top