Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 27
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب کھڑے کیے جائیں گے عَلَي : پر النَّارِ : آگ فَقَالُوْا : تو کہیں گے يٰلَيْتَنَا : اے کاش ہم نُرَدُّ وَ : واپس بھیجے جائیں اور لَا نُكَذِّبَ : نہ جھٹلائیں ہم بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّنَا : اپنا رب وَنَكُوْنَ : اور ہوجائیں ہم مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور اگر تو دیکھے جس وقت کہ کھڑے کئے جاویں گے وہ دوزخ پر پس کہیں گے اے کاش ہم پھر بھیج دیئے جاویں اور ہم نہ جھٹلائیں اپنے رب کی آیتوں کو اور ہوجاویں ہم ایمان والوں میں
خلاصہ تفسیر
اور اگر آپ ﷺ (ان کو) اس وقت دیکھیں (تو بڑا ہولناک واقعہ نظر آئے) جب کہ (منکرین) دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے (اور قریب ہوگا کہ جہنم میں ڈال دئیے جاویں) تو (ہزاروں تمناؤں کے ساتھ) کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہوتی کہ ہم (دنیا میں) پھر واپس بھیج دیئے جاویں اور اگر ایسا ہوجاوے تو ہم (پھر) اپنے رب کی آیات (مثل قرآن وغیرہ) کو کبھی جھوٹا نہ بتادیں اور ہم (ضرور) ایمان والوں میں سے ہوجاویں (حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی یہ تمنا اور وعدہ سچی رغبت اور قصد اطاعت سے نہیں) بلکہ (اس وقت ایک مصیبت میں پھنس رہے ہیں کہ) جس چیز کو اس سے پہلے (دنیا میں) دبایا (اور مٹایا) کرتے تھے، وہ آج ان کے سامنے آگئی ہے (مراد اس چیز سے آخرت کا عذاب ہے جس کی وعید کفرو معصیت پر دنیا میں ان کو کی جاتی تھی، اور دبانے سے مراد انکار ہے، مطلب یہ ہے کہ اس وقت جان کو بن رہی ہے، اس لئے جان بچانے کو یہ سارے وعدے ہو رہے ہیں، اور دل سے ہرگز وعدہ پورا کرنے کا ارادہ نہیں یہاں تک کہ) اگر (بالفرض) یہ لوگ پھر واپس بھی بھیج دیئے جاویں تب بھی یہ ہی کام کریں جس سے ان کو منع کیا گیا تھا (یعنی کفر و نافرمانی) اور یقیناً یہ (ان وعدوں میں) بالکل جھوٹے ہیں (یعنی نہ اس وقت ایفائے وعدہ کا قصد نہ دنیا میں جا کر ایفائے وعدہ کا ان سے احتمال ہے) اور یہ (منکرین) کہتے ہیں کہ زندگی اور کہیں نہیں، بس یہی دنیا کی زندگی اور ہم (اس زندگی کے ختم ہونے کے بعد پھر) زندہ نہ کئے جاویں گے، (جیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) فرماتے ہیں) اور اگر آپ ﷺ (ان کو) اس وقت دیکھیں (تو بڑا عجیب واقعہ نظر آوے) جب کہ یہ اپنے رب کے سامنے حساب کے لئے کھڑے کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے فرماوے گا کہ (کہو) کیا یہ (قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونا) امر واقعی نہیں وہ کہیں گے بیشک (واقعی ہے) قسم اپنے رب کی اللہ تعالیٰ فرمادے گا تو اب اپنے کفر کا مزہ چھکو (اس کے بعد دوزخ میں بھیج دیئے جاویں گے) بیشک (سخت) خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے ملنے کی (یعنی قیامت کے روز زندہ ہو کر خدا تعالیٰ کے سامنے پیشی کی) تکذیب کی (اور یہ تکذیب تھوڑے دنوں رہے گی) یہاں تک کہ جب وہ معین وقت (یعنی قیامت کا دن مع مقدمات) ان پر دفعتہ (بلا اطلاع) آپہنچے گا (اس وقت سارے دعوے اور تکذیب ختم ہوجاویں گے اور) کہنے لگیں گے ہائے افسوس ہماری کوتاہی (اور غفلت) پر جو اس (قیامت) کے بارے میں (ہم سے) ہوئی اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وہ اپنے (کفر و نافرمانی کا) بھار اپنی کمر پر لادے ہوئے ہوں گے، خوب سن لو کہ بری ہوگی وہ چیز جس کو اپنے اوپر لادیں گے، اور دنیوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لعب و لہو کے (بوجہ غیر نافع اور غیر باقی ہونے کے) اور پچھلا گھر پرہیزگاروں کے لئے بہتر ہے، کیا تم سوچتے نہیں۔

معارف و مسائل
اسلام کے تین بنیادی اصول ہیںتوحید، رسالت، عقیدہ آخرت، باقی سب عقائد انہی تین کے تحت داخل ہیں، اور یہ وہ اصول ہیں جو انسان کو اس کی اپنی حقیقت اور مقصد زندگی سے روشناس کرکے اس کی زندگی میں انقلاب پیدا کرتے ہیں اور اس کو ایک سیدھی اور صاف راہ پر کھڑا کردیتے ہیں، ان میں بھی عملی طور پر عقیدہ آخرت اور اس میں حساب جزاء و سزاء کا عقیدہ ایک ایسا انقلابی عقیدہ ہے جو انسان کے ہر عمل کا رخ ایک خاص طرف پھیر دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے تمام مضامین انہی تین میں دائر رہتے ہیں مذکورہ آیات میں خصوصیت کے ساتھ آخرت کے سوال و جواب، وہاں کے شدید و مدید ثواب و عذاب کا اور دنیائے ناپائیدار کی حقیقت کا بیان ہے۔ پہلی آیت میں مجرمین منکرین کا یہ حال بیان فرمایا گیا ہے کہ آخرت میں جب ان کو دوزخ کے کنارے کھڑا کیا جائے گا اور وہ وہم و خیال سے بھی زیادہ ہولناک عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو وہ یہ تمنا ظاہر کریں گے کہ کاش ہمیں پھر دنیا میں بھیج دیا جاتا تو ہم اپنے رب کی بھیجی ہوئی آیات اور احکام کی تکذیب نہ کرتے بلکہ ان پر ایمان لاتے اور مؤمنین میں داخل ہوجاتے۔
Top