Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
اور خبردار کر دے اس قرآن سے ان لوگوں کو جن کو ڈر ہے اس کا کہ وہ جمع ہوں گے اپنے رب کے سامنے اس طرح پر کہ اللہ کے سوا نہ کوئی ان کا حمایتی ہوگا اور نہ سفارش کرنے والا تاکہ وہ بچتے رہیں۔
دوسری آیت میں رسول کریم ﷺ کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ان واضح بیانات کے بعد بھی اگر یہ لوگ اپنی ضد سے باز نہ آئیں تو ان سے بحث و مباحثہ کو موقوف کر دیجئے اور جو اصلی کام ہے رسالت کا یعنی تبلیغ اس میں مشغول ہوجائیے، اور تبلیغ و انذار کا رخ ان لوگوں کی طرف پھیر دیجئے، جو قیامت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی اور حساب کتاب کا عقیدہ رکھتے ہیں، جیسے مسلمان یا وہ جو کم از کم اس کے منکر نہیں، بطور احتمال کے ہی سہی، کم از کم ان کو خطرہ تو ہے کہ شاید ہمارے اعمال کا ہم سے حساب لیا جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے متعلق تین طرح کے آدمی ہیں، ایک وہ جو یقینی طور پر اس کے معتقد ہیں، دوسرے وہ جو متردد ہیں، تیسرے وہ جو بالکل منکر ہیں، اور تبلیغ و انذار کا حکم انبیاء (علیہم السلام) کو اگرچہ ان تینوں طبقوں کے لئے عام ہے، جیسا کہ بہت سے ارشادات قرآنی سے واضح ہے، لیکن پہلے دو طبقوں میں چونکہ اثر قبول کرنے کی توقع زیادہ ہے، اس لئے اس آیت میں خاص طور پر ان کی طرف توجہ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی، وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْ يُّحْشَرُوْٓا اِلٰى رَبِّهِمْ۔
Top