Maarif-ul-Quran - Al-Qalam : 44
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ١ؕ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
فَذَرْنِيْ : پس چھوڑدو مجھ کو وَمَنْ يُّكَذِّبُ : اور جو کوئی جھٹلاتا ہے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : عنقریب ہم آہستہ آہستہ کھینچیں گے ان کو مِّنْ حَيْثُ : جہاں سے لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے نہ ہوں گے
اب چھوڑ دے مجھ کو اور ان کو جو کہ جھٹلائیں اس بات کو اب ہم سیڑھی سیڑھی اتاریں گے ان کو جہاں سے ان کو پتہ بھی نہیں
(آیت) فَذَرْنِيْ وَمَنْ يُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ۔ یعنی آپ اس قیامت کی بات جھٹلانے والوں کو اور مجھے چھوڑ دیں پھر دیکھیں کہ ہم کیا کرتے ہیں۔ یہاں چھوڑ دینا ایک محاورہ کے طور پر فرمایا گیا ہے مراد اس سے اللہ پر بھروسہ اور توکل کرنا ہے اور حاصل اس کلام کا یہ ہے کہ کفار کی طرف سے یہ مطالبہ بھی بار بار پیش ہوا کرتا تھا کہ اگر ہم واقعی اللہ کے نزدیک مجرم ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب دینے پر قادر ہے تو پھر ہمیں عذاب ابھی کیوں نہیں دے ڈالتا ان کے ایسے دل آزار مطالبوں کی وجہ سے کبھی کبھی خود رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک میں بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہوگا اور ممکن ہے کسی وقت دعا بھی کی ہو کہ ان لوگوں پر اسی وقت عذاب آجائے تو باقیماندہ لوگوں کی اصلاح کی توقع ہے اس پر یہ فرمایا گیا کہا پنی حکمت کو ہم ہی خوب جانتے ہیں ایک حد تک ان کو مہلت دیے ت ہیں فوراً عذاب نہیں بھیج دیتے اس میں ان کی آزمائش بھی ہوتی ہے اور ایمان لانے کی مہلت بھی آخر میں حضرت یونین ؑ کے واقعہ کا ذکر فرما کر آنحضرت ﷺ کو یہ نصیحت فرمائی گئی کہ جس طرح یونس ؑ نے لوگوں کے مطالبے سے تنگ آ کر عذاب کی دعا کردی اور عذاب کے آثار سامنے بھی آگئے اور یونس ؑ اس جائے عذاب سے دوسری جگہ منتقل بھی ہوگئے مگر پھر پوری قوم نے الحاج وزاری اور اخلاص کیساتھ توبہ کرلی اللہ تعالیٰ نے ان کو معافی دے دی اور عذاب ہٹا لیا تو اب یونس ؑ نے یہ شرمندگئی محسوس کی کہ میں ان لوگوں میں جھوٹا قرار پاؤں گا اس بدنامی کے خوف سے اللہ تعالیٰ کے اذن صریح کے بغیر اپنے اجتہاد سے یہ راہ اختیار کرلی کہ اب ان لوگوں میں واپس نہ جائیں، اس پر حق تعالیٰ نے ان کی تنبیہ کے لئے دریا کے سفر پھر مچھلی کے نگل جانے کا معاملہ فرمایا اور پھر یونس ؑ کے متنبہ ہو کر استغفار و معافی کی طرف متوجہ ہونے پر دوبارہ ان پر اپنے سابقہ انعامات کے دروازے کھول دیئے۔ یہ واقع ہ سورة یونس اور دوسری سورتوں میں گزر چکا ہے۔ نبی کریم ﷺ کو یہ واقعہ یاد دلا کر اس کی نصیحت فرمائی کہ آپ ان لوگوں کے ایسے مطالبہ سے مغلوب نہ ہوں اور ان پر جلدی عذاب نازل کرنے کے خواہشمند نہ ہوں اپنی حکمتوں اور عالم کی مصلحتوں کو ہم ہی جانتے ہیں ہم پر توکل کریں۔
Top