Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 109
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِ : قوم فِرْعَوْنَ : فرعون اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ لَسٰحِرٌ : جادوگر عَلِيْمٌ : علم والا (ماہر
بولے سردار فرعون کی قوم کے یہ تو کوئی بڑا واقف جادوگر ہے،
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ، لفظ ملاء کسی قوم کے بااثر سرداروں کے لئے بولا جاتا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ قوم فرعون کے سردار یہ معجزات دیکھ کر اپنی قوم کو خطاب کر کے کہنے لگے کہ یہ تو بڑا جادوگر ہے وجہ یہ تھی کہ
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
ان بیچاروں کو خدائے تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی کیا خبر تھی جنہوں نے ساری عمر فرعون کو اپنا خدا اور جادوگروں کو اپنا رہبر سمجھا اور جادوگروں کے شعبدوں ہی کو دیکھا تھا، وہ اس حیرت انگیز واقعہ کو دیکھ کر اس کے سوا کہہ ہی کیا سکتے تھے کہ یہ بھی کوئی بڑا جادو ہے لیکن ان لوگوں نے بھی یہاں ساحر کے ساتھ علیم کا لفظ بڑھا کر یہ ظاہر کردیا کہ حضرت موسیٰ ؑ کے معجزہ کے متعلق یہ احساس ان کو بھی ہوگیا تھا کہ یہ کام عام جادوگروں کے کام سے ممتاز اور مختلف ہے اسی لئے اتنا اقرار کیا کہ یہ بڑے ماہر جادوگر ہیں۔
معجزہ اور جادو میں فرق
اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات کو اسی انداز سے ظاہر فرماتے ہیں کہ اگر دیکھنے والے ذرا بھی غور کریں اور ہٹ دھرمی اختیار نہ کریں تو معجزہ اور سحر کا فرق خود بخود سمجھ لیں۔ سحر کرنے والے عموما ناپاکی اور گندگی میں رہتے ہیں اور جتنی زیادہ گندگی اور ناپاکی میں ہوں اتنا ہی ان کا جادو زیادہ کامیاب ہوتا ہے، بخلاف انبیاء (علیہم السلام) کے کہ طہارت ونظافت ان کی طبیعت ثانیہ ہوتی ہے، اور یہ بھی کھلا ہوا فرق من جانب اللہ ہے کہ نبوت کا دعوی کرنے کے ساتھ کسی کا جادو چلتا بھی نہیں۔
اور اہل بصیرت تو اصل حقیقت کو جانتے ہیں کہ جا دو سے جو چیزیں ظاہر کی جاتی ہیں وہ سب دائرہ اسباب طبعیہ کے اندر ہوتی ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اسباب عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتے، بلکہ فخفی اسباب ہوتے ہیں، اس لئے وہ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ یہ کام بغیر کسی ظاہری سبب کے ہوگیا، بخلاف معجزہ کے کہ اس میں اسباب طبعیہ کا مطلق کوئی دخل نہیں ہوتا، وہ براہ راست قدرت حق کا فعل ہوتا ہے، اسی لئے قرآن کریم میں اس کو حق تعالے کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ ولکن اللہ رمی۔
اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ اور سحر کی حقیقتیں بالکل مختلف اور متباین ہیں، حقیقت شناس کے لئے تو کوئی التباس کی وجہ ہی نہیں عوام کو التباس ہوسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس التباس کو دور کرنے کے لئے بھی ایسے امتیازات رکھ دیئے ہیں کہ جس کی وجہ سے لوگ دھوکہ سے بچ جائیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ قوم فرعون نے بھی موسیٰ ؑ کے معجزہ کو اپنے جادوگروں کے افعال سے کچھ ممتاز و مختلف پایا، اس لئے اس پر مجبور ہوئے کہ یہ کہیں کہ یہ بڑا ماہر جادوگر ہے کہ عام جادوگر اس جیسے کاموں کا مظاہرہ نہیں کرسکتے
Top